• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • برطانیہ میں اجڑتے بدلتے چرچ اور علامہ گوگل کی ریشہ دوانیاں۔۔۔مقدس کاظمی

برطانیہ میں اجڑتے بدلتے چرچ اور علامہ گوگل کی ریشہ دوانیاں۔۔۔مقدس کاظمی

آجکل برطانیہ میں نئی نسل کی مذہب سے دوری کی نہ صرف عیسائی کمیونیٹی کی آبادی سکڑتی جارہی ہے بلکہ چرچ بھی ویران ہوتے جارہے ہیں۔ باقاعدہ شادیوں کا رواج کم ہوتا جارہا ہے ۔ اور حالیہ سرویز کے مطابق 50 فیصد بالغ آبادی کا تعلق کسی مذب سے نہیں ہے۔اسی طرح شادیوں کی شرح بھی بے حد کم ہوچکی ہیں اور چرچ کے نکاح خواہوں کی نظریں شادی شدہ جوڑوں کو دیکھ دیکھ کر پتھرا جاتی ہیں۔ جہاں پہلے اتوار کو کلیساؤں میں رونق ہوتی تھی اب وہ بھی ویران ہوتے چلے جارہے ہیں ۔صرف افریقی نژاد چرچ ابھی تک کچھ آباد ہیں ورنہ عام انگلش کلیساء دگرگوں حالت میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب آپ چرچ کو مسجد، کلب، بار کے لیے خرید سکتے ہیں ۔ میں نے اب کئی چرچ صرف مانچسٹر میں دیکھے ہیں جہاں اب نائٹ کلب، شراب خانے کھل چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ بڑے بڑے چرچ پرائیویٹ پارٹیوں وغیرہ کے لیے بھی بُک کرسکتے ہیں۔

اسے بعض مفکرین سیکولر ریاست کا پھل اور ہمارے مذہبی لوگ عیسائیت کی شکست اور اسلام کی فتح قرار دے رہےہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے ، جہاں گوروں کی جدید نسل مذہب سے دور ہوتی جارہی ہے وہیں مسلمان جوان نسل کے حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ مسلمان کمیونیٹی کے بچے زیادہ تر اسکول سے آگے نہیں جاتے۔ ڈرگ استعمال کرنے اور ترسیل میں انکا کوئی ثانی نہیں اور مولانا طارق جمیل جب انہوں نے برطانیہ کی جیلوں کا دورہ کیا تو مسلمان زیادہ تر ڈرگ کے چکر میں اندر تھے اور وہ زیادہ تر نوجوان تھے۔
میری ایک پڑے لکھے گورے سے دین کی دوری کے حوالے سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ تم لوگ خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جس طرح ہمارے چرچ جدید دنیا نے ویران کردئیے ہیں اسی طرح ایک دن تمہاری مساجد بھی آئندہ چند سالوں میں ویران ہوجائیں گی۔ میں نے اسکی بات کو سن کر اند ر تک جلن محسوس کی مگر بعد میں جب ٹھنڈے دل سے سوچا تو محسوس کیا کہ وہ اتنا بھی جھوٹ نہیں بول رہا۔ ہمارے کردار افکار میں اتنا فرق ہے کہ بقول اقبال
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا غازی یہ تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
حالت یہ ہے کہ ہم جب اپنی جوانی گوریوں ، شراب وکباب میں گزار کر مساجد کو رخ کر لیتے ہیں تو بچوں کو فطری دین کی تربیت کے کسی کٹر مولوی کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اب بچہ ہے کہ وہ باہر کا ماحول دیکھتا ہے تو اسے کچھ نظر آتا ہے ، گھر کا ماحول مختلف، اور مسجد کا ماحول مختلف نظر آتا ہے تو وہ راسخ العقیدہ مسلمان کی بجائے اپنے اندر تین تین شخصیات سے نبھاہنے کی یابنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اب ہمارے بچے نماز بھی پڑھتے ہیں، بوٹی بھی بڑے خشوع و خضوع سے پیتے ہیں  اور کلب کا چکر بھی لگا لیتے ہیں۔ یہی حال ہماری لڑکیوں کا ہے کہ انکی دوستیاں اپنے لڑکوں سے زیادہ گوروں سے ہوتی ہیں کہ انکے ساتھ پھرنے سے پکڑے جانے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان پڑھ والدین کی وجہ سے بچوں پر جب سختی کی جاتی ہے تو زبردستی کی شادیاں معرض وجود میں آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں مسلمانوں کا طلاق کا ریٹ دوسری مذہبی کمیونٹی جیسے ھندو ، سکھوں سے کافی زیادہ ہے،جوکہ ایک نئی تحقیق کے مطابق 35 فیصد تک ہے۔ جبکہ مندرجہ بالا کمیونٹیزمیں طلاق کی شرح 8 سے 9 ٖفیصد تک ہے کیونکہ وہ پاکستان نے غریب رشتہ دار امپورٹ کرکے اپنی بچی یا بچے کی زندگی خراب کرنے اور غریب رشتے دار کی زندگی بنانے کی بھونڈی کوشش نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے جیسے ممالک جیسے کنیڈا، برطانیہ ، آسٹریلیا میں مقیم اپنی کمیونیٹیز میں ہی رشتہ
تلاش کرتے ہیں کہ نوبیاھتا جوڑا ایک دوسرے کے کلچر سے پہلے ہی آگاہ ہوتے ہیں۔
دوسری طرف علامہ گوگل ہے جس نے ہمارے پوشیدہ حقائق کو جنہیں ہم دوسروں سے چھپانا چاہتے ہیں،اور خود ساختہ اور جعلی عظمت اور احساس برتری جو ہم اپنی نئی نسل پر آشکار کرنا چاہتے ہیں۔اس کا پول علامہ گوگل نے کھول کر رکھ دیا ہے۔ اور جب ہمارے بچے مذہب پر سوال اٹھاتے ہیں تو بجائے انکو تسلی بحش جواب دینے کے ہم فوراً اس پرلٹھ لے کر چڑھ دوڑتے ہیں کہ خبردار سوال موت ہے۔ اور دین میں تو ویسے بھی سوال کرنا گناہ عظیم ہوتا ہے کہ بس جو جہاں جیسے بیان کیا جائے فوری طور پر من و عن تسلیم کرلیا جائے۔ یہ حکم حاکم کوئی بیس تیس سال پہلے تو لاگو ہوسکتا تھا مگر اب جب ہمارا بچہ ہم سے کسی سوال کا جواب نہیں لے پاتا تو فوراً علامہ گوگل سے رجوع کرلیتا ہے تو پھر وہاں تو ایک سے ایک بڑھ کر مفکروں کا گروہ اسکی مدد کو پہنچ جاتا ہے اور پھر وہ جانے اور علامہ گوگل جانے، پھر جو اسے اچھا لگے گا وہ اسی کا ہوکر رہ جائے گا۔
پھر یہاں  جب ہمارے بچے کو اسلام کے مختلف ورژن نظر آتے ہیں اور وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ ہر فرقہ ایک دوسرے پر لٹھ لے کے پیچھے پڑا ہوا ہے ، تو یا تو وہ کسی ایک فرقے کا ہراول دستہ بن جاتا ہے یا پھر ان سب سے آزاد ہوکر دین سے فرار اختیار کرلیتا ہے۔ اب یا تو برطانیہ کے مسلم جوان جہاں آپکو ڈرگز میں ملوث نظر آتے ہیں وہیں مذہبی انتہاء پسند بھی ان میں سرائیت کرتی جارہی ہے۔ اور ایک تحقیق کے مطابق چونکہ زیادہ تر مسلمانوں کی مساجد کے مولوی یا امام حضرات کا تعلق پاکستان یا افریقہ کے انتہاء پسند علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا جو وہ مسلمان اور اسلام کا نقشہ کھینچتے ہیں وہ یا تو کسی گستاخ رسول یا گستاخ مذہب کی تلاش شروع کردیتا ہے کہ اسے قتل کرکے جنت کا شارٹ کٹ رستہ لے یا پھر اسے اپنی منزل، داعش ، طالبان ، اور القاعدہ جیسے انتہاء پسند گروہوں میں دکھائی دینے لگتی ہے کہ ایک قتل سے انکو تسلی نہیں ہورہی ہوتی۔ نتیجتاً!ہماری جوان نسل جب کسی آئیڈیل اسلامی ریاست کو تلاش کرتی ہے تو انہیں داعش یا طالبان کے علاوہ کہیں کوئی مثالی اسلامی ریاست دکھائی نہیں دیتی ۔ اور اس تناظر میں دیکھا جائے تو ابھی تک اسکاٹ لینڈ یارڈ نے جتنے بھی دہشت گردی کے منصوبے ناکام بنائے ہیں اس میں والدین کی بچوں کے ساتھ سختی، یا mismatch رویہ اور قریبی مسجد کے امام کا کردار لازمی سامنے آیا۔اب ایک طرف علامہ گوگل دوسری طرف نوجوان نسل کی دین سے تیزی سے دوری اور تیسری طرف اسلام کی مختلف صورتیں کہ ابھی تک ایک صورت نہیں بن پارہی،اور ابھی بھی ہم نے اپنا بناوٹی روپ نہ بدلا تو میرے منہ میں خاک، کہیں اس گورے کی بات سچ ثابت نہ ہوجائے اور پھر مساجد بھی ہمیں چرچوں کی طرح نظر آئیں۔۔

Facebook Comments

Moqaddus Kazmi
Educationist, Reseach worker, Geo politcal Analyst

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”برطانیہ میں اجڑتے بدلتے چرچ اور علامہ گوگل کی ریشہ دوانیاں۔۔۔مقدس کاظمی

  1. بہت عمدہ تحریر،
    مقدس صاحب! اب صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں مسلمانوں کی یہی صورت حال ہے، مذہبی رہنما بھلا کسی بھی مسلک کے ہوں، سوشل سائنسز پڑھتے ہی نہیں، اس لئے سماجی مسائل کے حل نہ جانتے ہیں نہ ہی سمجھتے ہیں،اور جب یورپ اور برطانیہ میں موجود نوجوان نسل ان سے سوالات کرتی ہے تو “بہشتی زیور، تحفہ العاوم” کے عالم ان کو مزید کنفیوز کرتے ہیں

  2. بہت خوب
    مقدس کاظمی اہم مسئلہ کو سامنے لاۓ۔ انہیں متواتر لکھنا چاہیے۔ مذہب کے ذمہ دار وں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

  3. کیا مذہب کے ذریعہ انسانی فلاح و بہبود اور بہتر زندگی کا حصول ممکن ہے
    یا
    رائج الوقت مذہب کے ذریعہ اس زندگی کو لات مار کر اگلی متوقع و مفروضہ زندگی کے لئیے لوگوں کو بلایا جائے

    مذہب ایک ناسور بن چکا ہے – اس کی وجہ مذہب نہیں بلکہ موجودہ مذہبی اکابرین کی ریشہ دوانیاں ہیں جنہوں نے مذہب کو انسانی فلاح و بہبود کی بجائے عدم برداشت اور تشدد کا ذریعہ بنا کے رکھ دیا ہے
    مذہب سے دوری حاصل کئہے بغیر اللہ پاک کی یہ دنیا تو انسانوں کے لئیے بہتر نہیں بن سکتی اور اگلی دنیا میں کیا ہوگا – کیوں ہو گا جیسے سوالات ابھی تشنہ لب ہیں

Leave a Reply