• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسلامی نظریاتی کونسل، نئے چیئرمین اور توقعات۔۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس

اسلامی نظریاتی کونسل، نئے چیئرمین اور توقعات۔۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس

اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، جسے آئین پاکستان کے تحت بنایا گیا ہے اور اس کی دو بنیادی ذمہ داریاں ہیں، 1۔پاکستان کے آئین میں موجود قوانین کا جائزہ لینا اور جو قوانین قرآن و سنت کے خلاف موجود ہیں، انہیں قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے اپنی سفارشات پارلیمنٹ کو دینا، 2۔پارلیمنٹ جو نئے قوانین بنانا چاہ رہی ہے، ان کو دیکھنا کہ یہ کہیں قرآن و سنت کے خلاف تو نہیں ہیں۔ ان دونوں ذمہ داریوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پارلیمنٹ پاکستانی عوام کی خواہشات کے عین مطابق یہ چاہتی ہے کہ جو بھی قوانین بنیں وہ قرآن و سنت کے خلاف نہ ہوں۔ یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبران اتنی اہلیت نہیں رکھتے کہ اس بات کا فیصلہ کریں، اس لئے اسلامی نطریاتی کونسل بنائی گئی۔ دوسرا علمائے کرام، دانشوروں اور جدید پڑھے لکھے لوگوں کی رائے کو قانون سازی کا حصہ بنانے کے لئے بھی اسلامی نظریاتی کونسل کا تصور دیا گیا، تاکہ ہر قانون معاشرے کے تمام طبقات کے آراء لینے اور اس پر مباحثہ کے بعد بنایا جائے۔ پارلیمنٹ اس بات کی پابند نہیں ہے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو مان لے، لیکن یہ ضروری ہے کہ پارلیمنٹ میں کونسل کے سفارشات پر باقاعدہ بحث ہوگی، لیکن وہ قانون ہی کیا جس پر وطن عزیز میں اس کی روح کے مطابق عمل ہو جائے۔ کروڑوں روپے کا بجٹ، دسیوں اجلاس اور اس کے بعد سفارشات بنا کر اسلامی نظریاتی کونسل پارلیمنٹ کو بھجوا دیتی ہے، مگر پارلیمنٹ نے ملک کے بہترین دماغوں کی ان سفارشات کو کبھی اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ آئینی تقاضا پورے کرنے کے لئے اس پر بحث کر لی جائے۔

اسلامی نطریاتی کونسل کا ایک پہلو اجتماعی اجتہاد کے جدید تصور کا بھی ہے، علامہ اقبال نے جس اجتماعی اجتہاد کی بات کی ہے اور جس کی عملی صورت بعض لوگ پارلیمنٹ کو قرار دیتے ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پارلیمنٹ کی رہنمائی کے لئے ماہرین کی ایک جماعت موجود ہو۔ موجودہ دور میں مسائل بہت وسعت اختیار کر گئے ہیں۔ آپ میڈیکل، اقتصاد، بین الاقوامی قانون اور جدید تصور ریاست کے اداراتی انتظامات کے مسائل کو ہی لے لیں، یہ بات بہت مشکل نظر آتی ہے کہ کوئی ایک فقیہ طب کے تمام مسائل کو باریکی بینی سے سمجھ لے اور اس کے ساتھ اقتصاد، بین الاقوامی قانون اور دیگر علوم کے تمام مسائل کا بھی اتنا ہی ماہر ہو جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اجتماعی اجتہاد ہو، جس میں طب کے مسائل کے لئے فقیہ اور طبیب دیگر علوم کے ماہرین کے رائے کے بعد رائے پیش کریں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا تصور اس لحاظ سے بہت عالی شان ہے، جس میں تمام علوم کے ماہرین کو جمع کرکے مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دیگر اداروں کی طرح اسلامی نظریاتی کونسل بھی سیاست کا شکار ہوگئی، وہ ادارہ جو عقل و فکر کا ادارہ تھا، جس کے ذمے درپیش مسائل کا اسلامی حل پیش کرنا تھا، وہ مذہبی مخالفین کو ساتھ ملانے اور اپنے ساتھیوں کو عہدہ دینے کے لئے بطور رشوت استعمال ہونے لگا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دہائیاں گزر جانے کے باوجود صدر پاکستان کو یہ کہنا پڑا کہ علمائے کرام سود کے لئے کوئی گنجائش نکالیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ریاست نے جو ادارہ اس مقصد کے لئے تشکیل دیا، اگر اس پر اہل افراد کو لایا جاتا اور ان کو فری ہینڈ دے کر ان سے کام لیا جاتا تو آج ہمارے بنکنگ نظام کی صورت حال کچھ اور ہوتی۔ جو لوگ اس لئے اسلامی نظریاتی کونسل میں آئے کہ ہمارے کارڈ پر ممبر اسلامی نظریاتی کونسل لکھا جائے یا چئرمین اسلامی نظریاتی کونسل لکھا جائے، انہوں نے فقط ٹی اے ڈے لینے کے لئے اجلاس میں شریک ہونا ہوتا تھا، ان کا ان مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا، جن کو حل کرنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی تھی۔ حکومتوں نے اہل لوگوں کو اس لئے بھی اسلامی نظریاتی کونسل سے دور رکھا کہ اگر اہل لوگ آگئے تو پھر ان کی علمی حیثیت اور ان کے ماننے والوں کی وجہ سے کہیں ان سفارشات پر بحث نہ کرنی پڑے، جنہیں دبا کر رکھ لیا جاتا ہے۔ ویسے تو ڈاکٹر خالد مسعود جیسے بڑے سکالرز اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین رہے، جن کے دور میں اسلامی نظریاتی کونسل ایک متحرک اور فعال ادارے میں تبدیل ہوگئی اور جیسے ہی سیاسی لوگ آئے، جن کی ترجیح قوانین کی اسلام سازی نہ تھی تو انہوں نے اس ادارے کے تشخص کو نقصان پہنچایا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین لگایا گیا ہے، سنا ہے کہ اس بار بہت کھنچا تانی ہو رہی تھی، کچھ لوگ ہر صورت میں کسی مدرسہ کے عالم دین کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین دیکھنا چاہتے تھے اور کچھ لوگ ہر صورت میں اس بار کسی مسٹر کو اس کا چیئرمین لگانے کے چکر میں تھے۔ حکومت نے بہت دانشمندانہ فیصلہ کیا اور ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین لگا دیا۔ ڈاکٹر بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں، پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں، اس کے ساتھ ساتھ شیخ زید اسلامک سنٹر کے ڈائریکٹر اور اسلامک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بہت وسیع وژن رکھنے والے اور ٹیم ورک کے قائل ہیں، بین المسالک اور بین المذاہب ہم آہنگی کے زبردست قائل اور پرموٹر ہیں، جب وہ پشاور یونیورسٹی کے وی سی تھے تو انہوں نے باڑا گلی میں ایک خوبصورت ورکشاپ کرائی تھی، جس میں تمام مسالک کے لوگ شریک تھے، اس میں ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی سے لگتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب فرقہ واریت کے بے قابو ہوتے جِن کو پاکستان کا بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ کی تشکیل کے دروان ہونے والی علمی و فکری بحثوں میں بھی ڈاکٹر صاحب کی وسیع علمی شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آئے۔ ڈاکٹر صاحب کے آنے سے اسلام پسندوں کی توقعات بڑھ گئی ہیں کہ اب اسلامی نظریاتی کونسل قانون سازی میں مؤثر کردار ادا کرے گی۔ نئے ممبران بھی نئے جذبے لیکر آئیں گے اور اسلامی نظریاتی کونسل کو ایسا ادارہ بنائیں گے جو اسلامی ممالک کے لئے رول ماڈل ہوگا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply