• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابنِ کثیر۔پارہ”الم”سورۃ بقرہ

تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابنِ کثیر۔پارہ”الم”سورۃ بقرہ

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
ترجمہ:
بدقسمت لوگ
یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ انہیں آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی ڈرانا۔ یہ کبھی اللہ تعالیٰ کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96 ۝ ۙ وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ 97؀) 10 ۔ یونس :96 ۔ 97) یعنی جن لوگوں پر اللہ کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ تمام آیتیں دیکھ لیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھیں۔ ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا آیت (وَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ ) 2 ۔ البقرۃ :145) یعنی ان اہل کتاب کے پاس اگرچہ تمام دلائل لے آؤ تاہم وہ تمہارے قبلہ کو نہیں مانیں گے۔ یعنی ان بدنصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہوگی۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں ؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر، تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کردینا اور پہنچا دینا ہے۔ ماننے والے نصیب ور ہیں وہ مالا مال ہوجائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی۔ تیرا فرض ادا ہوگیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے۔ تو صرف ڈرانے والا ہے۔ ہر چیز پر اللہ تعالیٰ ہی وکیل ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایمان دار ہوجائیں اور ہدایت قبول کرلیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ میں  نہیں۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بدقسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے۔ پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابوں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کرچکے تو بھلا وہ تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے ؟

ابو العالیہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ) 14 ۔ ابراہیم :28) لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کئے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈال جائیے لا یومنون پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لایومنون خبر ہو اس لئے کہ تقدیر کلام آیت (ان الذین کفروا لا یومنون) ہے اور آیت (سواء علیھم) جملہ معترضہ ہوجائے گا واللہ اعلم۔

خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
ترجمہ:
مہر کیوں لگا دی گئی ؟
حضرت سدی فرماتے ہیں ختم سے مراد طبع ہے یعنی مہر لگا دی حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر لگا دی حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر الٰہی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر لگ گئی اور آنکھوں پر پردہ پڑگیا۔ ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ گناہ لوگوں کے دلوں میں بستے جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ بس یہی طبع اور ختم یعنی مہر ہے۔ دل اور کان کے لئے محاورہ میں مہر آتی ہے۔

مجاہد (رح) فرماتے ہیں قرآن میں ران کا لفظ ہے طبع کا لفظ ہے اوراقفال کا لفظ ہے۔ ران طبع سے کم ہے اور طبع اقفال سے کم ہے، اقفال سب سے زیادہ ہے۔ حضرت مجاہد نے اپنا ہاتھ دکھا کر کہا کہ دل ہتھیلی کی طرح ہے اور بندے کے گناہ کی وجہ سے وہ سمٹ جاتا ہے اور بند ہوجاتا ہے۔ اس طرح کہ ایک گناہ کیا تو گویا چھنگلیا بند ہوگئی پھر دوسرا گناہ کیا دوسری انگلی بند ہوگئی یہاں تک کہ تمام انگلیاں بند ہوگئیں اور اب مٹھی بالکل بند ہوگئی جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح گناہوں سے دل پر پردے پڑجاتے ہیں مہر لگ جاتا ہیں مہر لگ جاتی ہے پھر اس پر کسی طرح حق اثر نہیں کرتا۔ اسے زین بھی کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تکبر کی وجہ ان کا حق سے منہ پھیرلینا بیان کیا جا رہا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس بات کے سننے سے بہرا بن گیا۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تکبر اور بےپرواہی کر کے اس نے اس بات کی طرف دھیان نہیں دیا۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ مطلب ٹھیک نہیں اس لئے کہ یہاں تو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ زمحشری نے اس کی تردید کی ہے اور پانچ تاویلیں کی ہیں لیکن سب کی سب بالکل بےمعنی اور فضول ہیں اور صرف اپنے معتزلی ہونے کی وجہ سے اسے یہ تکلفات کرنے پڑے ہیں کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ کسی کے دل پر اللہ قدوس مہر لگا دے لیکن افسوس اس نے دوسری صاف اور صریح آیات پر غور نہیں کیا۔ ایک جگہ ارشاد ہے آیت (فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ ) 61 ۔ الصف :5) یعنی جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے اور فرمایا آیت (وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :110) ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں۔ جو صاف بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ہدایت کو ان سے دور کردیا ہے۔ حق کو ترک کرنے اور باطل پر جم رہنے کی وجہ سے جو یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور عدل اچھی چیز ہے نہ کہ بری۔ اگر زمخشری بھی بغور ان آیات پر نظر ڈالتے تو تاویل نہ کرتے۔ واللہ اعلم۔ قرطبی فرماتے ہیں۔ امت اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی ایک صفت مہر لگانا بھی بیان کی ہے جو کفار کے کفر کے بدلے ہے۔ فرمایا ہے آیت ( بَلْ طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا) 4 ۔ النسآء :155) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر مہر لگا دی۔ حدیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے۔ دعا میں ہے حدیث (یا مقلب القلوب ثبت قلوبنا علی دینک) یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ۔

حضرت حذیفہ (رض) والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کرلیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہوجاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے، اس میں ایک سفید نکتہ ہوجاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کردیتی ہے۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی (جو حق قبول نہیں کرتا) پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہوجاتا ہے۔ نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے۔

امام ابن جریر کا فیصلہ وہی ہے جو حدیث میں آچکا ہے کہ مومن جب گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ ہوجاتا ہے اگر وہ باز آجائے توبہ کرلے اور رک جائے تو وہ نکتہ مٹ جاتا ہے اور اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھ جائے تو وہ سیاہی بھی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتی ہے، یہی وہ ران ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے آیت (كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ) 83 ۔ المطففین :14) یعنی یقیناً ان کے دلوں پر ران ہے، ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے (ترمذی۔ نسائی۔

ابن جریر) امام ترمذی (رح) نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پر غلاف ڈال دیتی ہے اور اس کے بعد مہر الٰہی لگ جاتی ہے جسے ختم اور طبع کہا جاتا ہے۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی۔ اسی مہر کا ذکر اس آیت آیت (ختم اللہ) الخ میں ہے، وہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کا منہ بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو جب تک وہ مہر نہ ٹوٹے نہ اس میں کچھ جاسکتا ہے نہ اس سے کوئی چیز نکل سکتی ہے۔ اسی طرح جن کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے ان میں بھی بغیر اس کے ہٹے اور ٹوٹے نہ ہدایت آئے، نہ کفر جائے۔ سمعھم پر پورا وقف ہے اور آیت (علی ابصارھم غشاوۃ) الگ پورا جملہ ہے۔ ختم اور طبع دلوں اور کانوں پر ہوتی ہے اور غشاوت یعنی پردہ آنکھوں پر پڑتا ہے۔

جیسے کہ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن مسعود اور دوسرے صحابہ (رض) سے مروی ہے۔ قرآن میں ہے آیت (فَاِنْ يَّشَاِ اللّٰهُ يَخْتِمْ عَلٰي قَلْبِكَ ۭ وَيَمْــحُ اللّٰهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ ) 42 ۔ الشوری :24) اور جگہ ہے آیت (وختم علی سمعہ وقلبہ وجعل علی بصرہ غشاوۃ ان آیتوں میں دل اور کان پر ختم کا ذکر ہے اور آنکھ پر پردے کا بعض نے یہاں غشاوۃ زبر کے ساتھ بھی پڑھا ہے تو ممکن ہے کہ ان کے نزدیک فعل جعل مقصود ہو اور ممکن ہے کہ نصب محل کی اتباع سے ہو جیسے ” آیت (وحورعین) ” میں۔ شروع سورت کی چار آیتوں میں مومنین کے اوصاف بیان ہوئے پھر ان دو آیتوں میں کفار کا حال بیان ہوا۔ اب منافقوں کا ذکر ہوتا ہے جو بظاہر ایماندار بنتے ہیں لیکن حقیقت میں کافر ہیں چونکہ ان لوگوں کی چالاکیاں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں۔ اس لئے ان کا بیان ذرا تفصیل سے کیا گیا اور بہت کچھ ان کی نشانیاں بیان کی گئیں انہی کے بارے میں سورة برات اتری اور انہی کا ذکر سورة نور وغیرہ میں کیا گیا تاکہ ان سے پورا بچاؤ ہو اور ان کی مذموم خصلتوں سے مسلمان دور رہیں۔ پس فرمایا۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ
ترجمہ:
منافقت کی قسمیں۔
دراصل نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی۔ پہلی قسم کے منافق تو ابدی جہنمی ہیں اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں۔ اس کا بیان تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ کسی مناسب جگہ ہوگا۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں ” منافق کا قول اس کے فعل کے خلاف، اس کا باطن ظاہر کے خلاف اس کا آنا جانے کے خلاف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی ہوا کرتی ہے۔ نفاق مکہ شریف میں تو تھا ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ تھا یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو زبردستی بہ ظاہر کافروں کا ساتھ دیتے تھے مگر دل میں مسلمان ہوتے تھے۔

جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں پر اوس اور خزرج کے قبائل نے انصار بن کر آپ کا ساتھ دیا اور جاہلیت کے زمانہ کی مشرکانہ بت پرستی ترک کردی اور دونوں قبیلوں میں سے خوش نصیب لوگ مشرف بہ اسلام ہوگئے لیکن یہودی اب تک اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم تھے۔ ان میں سے صرف حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نے اس سچے دین کو قبول کیا تب تک بھی منافقوں کا خبیث گروہ قائم نہ ہوا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان یہودیوں اور عرب کے بعض قبائل سے صلح کرلی تھی۔

غرض اس جماعت کے قیام کی ابتدا یوں ہوئی کہ مدینہ شریف کے یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ، بنو قینقاع تو خزرج کے حلیف اور بھائی بند بنے ہوئے تھے اور باقی دو قبیلوں کا بھائی چارہ اوس سے تھا۔ جب جنگ بدر ہوئی اور اس میں پروردگار نے اپنے دین والوں کو غالب کیا۔ شوکت و شان اسلام ظاہر ہوئی، مسلمانوں کا سکہ جم گیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تب یہ ناپاک گروہ قائم ہوا چناچہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا تو خزرج کے قبیلے سے لیکن اوس اور خزرج دونوں اسے اپنا بڑا مانتے تھے بلکہ اس کی باقاعدہ سرداری اور بادشاہت کے اعلان کا پختہ ارادہ کرچکے تھے کہ ان دونوں قبیلوں کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا اور اس کی سرداری یونہی رہ گئی۔ یہ خار تو اس کے دل میں تھا ہی، اسلام کی روز افزوں ترقی میں لڑائی اور کامیابی نے اسے مخبوط الحواس بنادیا

۔ اب اس نے دیکھا کہ یوں کام نہیں چلے گا اس نے بظاہر اسلام قبول کرلینے اور باطن میں کافر رہنے کی ٹھانی اور جس قدر جماعت اس کے زیر اثر تھی سب کو یہی ہدایت کی، اس طرح منافقین کی ایک جمعیت مدینہ کے آس پاس قائم ہوگئی۔ ان منافقین میں بحمدللہ مکی مہاجر ایک بھی نہ تھا بلکہ یہ بزرگ تو اپنے اہل و عیال، مال و متاع کو نام حق پر قربان کر کے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دے کر آئے تھے۔ (فرضی اللہ عنھم اجمعین) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں ” یہ منافق اوس اور خزرج کے قبیلوں میں سے تھے اور یہودی بھی جو ان کے طریقے پر تھے۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے نفاق کا ان آیتوں میں بیان ہے۔ ” ابو العالیہ، حضرت حسن، قتادہ، سدی نے یہی بیان کیا ہے۔ پروردگار عالم نے منافقوں کی بہت سی بد خصلتوں کا یہاں بیان فرمایا۔ تاکہ ان کے ظاہر حال سے مسلمان دھوکہ میں نہ آجائیں اور انہیں مسلمان خیال کر کے اپنا نہ سمجھ بیٹھیں۔ جس کی وجہ سے کوئی بڑا فساد پھیل جائے۔

یہ یاد رہے کہ بدکاروں کو نیک سمجھنا بھی بجائے خود بہت برا اور نہایت خوفناک امر ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبانی اقرار تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا۔ اسی طرح سورة منافقون میں بھی کہا گیا ہے کہ آیت (اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ۘ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ ) 63 ۔ المنفقون :1) یعنی منافق تیرے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن چونکہ حقیقت میں منافقوں کا قول ان کے عقیدے کے مطابق نہ تھا اس لئے ان لوگوں کے شاندار اور تاکیدی الفاظ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں جھٹلا دیا۔

اور سورة منافقون میں فرمایا آیت (وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ ) 63 ۔ المنفقون :1) یعنی اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ بالیقین منافق جھوٹے ہیں اور یہاں بھی فرمایا آیت (وما ھم بمومنین) یعنی دراصل وہ ایماندار نہیں وہ اپنے ایمان کو ظاہر کر کے اور اپنے کفر کو چھپا کر اپنی جہالت سے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اسے نفع دینے والی اور اللہ کے ہاں چل جانے والی کاریگری خیال کرتے ہیں۔ جیسے کہ بعض مومنوں پر ان کا یہ مکر چل جاتا ہے۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت (يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ) 58 ۔ المجادلہ :18) یعنی قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو کھڑا کرے گا تو جس طرح وہ یہاں ایمان والوں کے سامنے قسمیں کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی قسمیں کھائیں گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بھی کچھ ہیں۔ خبردار یقیناً وہ جھوٹے ہیں۔

یہاں بھی ان کے اس غلط عقیدے کی وضاحت میں فرمایا کہ دراصل وہ اپنے اس کام کی برائی کو جانتے ہی نہیں۔ یہ دھوکہ خود اپنی جانوں کو دے رہے ہیں۔ جیسے کہ اور جگہ ارشاد ہوا آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ) 4 ۔ النسآء :142) یعنی منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ وہ انہیں کو دھوکہ میں رکھنے والا ہے۔ بعض قاریوں نے یخدعون پڑھا ہے اور بعض یخادعون مگر دونوں قرأتوں کے معنی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔ ابن جریر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو منافق دھوکہ کیسے دیں گے ؟ وہ جو اپنے دل کے خلاف اظہار کرتے ہیں وہ تو صرف بچاؤ کے لیے ہوتا ہے تو جواباً کہا جائے گا کہ اس طرح کی بات کرنے والے کو بھی جو کسی خطرہ سے بچنا چاہتا ہے عربی زبان میں مخادع کہا جاتا ہے چونکہ منافق بھی قتل، قید اور دنیاوی عذابوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ چال چلتے تھے اور اپنے باطن کے خلاف اظہار کرتے تھے اس لئے انہیں دھوکہ باز کہا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان کا یہ فعل چاہے کسی کو دنیا میں دھوکا دے بھی دے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیونکہ وہ اسی میں اپنی بھلائی اور کامیابی جانتے ہیں اور دراصل یہ سب ان کے لئے انتہائی برا عذاب اور غضب الٰہی ہوگا جس کے سہنے کی ان میں طاقت نہیں ہوگی پس یہ دھوکہ حقیقتاً ان پر خود وبال ہوگا۔ وہ جس کام کے انجام کو اچھا جانتے ہیں وہ ان کے حق میں برا اور بہت برا ہوگا۔ ان کے کفر، شک اور تکذیب کی وجہ سے ان کا رب ان سے ناراض ہوگا لیکن افسوس انہیں اس کا شعور ہی نہیں اور یہ اپنے اندھے پن میں ہی مست ہیں۔ ابن جریج اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آیت (لا الہ الا اللہ) کا اظہار کر کے وہ اپنی جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں، یہ کلمہ ان کے دلوں میں جا گزریں نہیں ہوتا۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ، دل میں کچھ، عمل کچھ، عقیدہ کچھ، صبح کچھ اور شام کچھ کشتی کی طرح جو ہوا کے جھونکے سے کبھی ادھر ہوجاتی ہے کبھی ادھر۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply