راجپوت بمقابلہ پشتون

راجپوت بمقابلہ پشتون
عارف خٹک
سال 1990
ہمارے دادا جب ناسٹل جیا کا شکار ہوگئے تو بڑے رنگین و سنگین واقعات سناتے تھے اور اس کے ہر قصے میں بہادری کا تمغہ اس کا خود یا کسی پشتون کے سر ہوتا تھا. جہاں بزدلی کی بات آتی تھی وہاں کسی ہندو یا پنجابی کو منسوب کردیا جاتا تھا. لہذا بچپن سے ہی ہم پشتون کے بہادری کے قائل ہوگئے تھے. خوشحال خان خٹک کو جب بھی پڑھا ہمشہ ننگی تلوار دیکھی یا شلوار دیکھی. یہ الگ بات ہے کہ شعور کے میدان میں قدم رکھ کر ہم پر آشکارہوا کہ بچے دوسرے اقوام بھی پیدا کرتے ہیں نامردیاں ادھر بھی نہیں ہیں.

سال 1995
ہمارے ایک چچا جان بلیو پرنٹ فلموں کے بڑے دالدادہ تھے. اس زمانے وی سی آر کیسٹیں ہوا کرتیں تھیں. چچا موصوف ہر بلیو پرنٹ پر کسی ہندوستانی یا پاکستانی فلم کا لکھ دیتے جیسے شرابی ہم نے دیکھی تو اس میں ہمیں جیہ پرادھا تو نظر نہیں آئی مگر جو نظر آئی اس نے ہمیں باقاعدہ چور بنا ڈالا اور ہم ہر جمعرات چچا جان کے روم سے ایک عدد کیسٹ چرا بمعہ کزنز ساتھ دیکھ کر مزہ لیتے تھے اور گاؤں کی کچھ ۔۔۔۔ کی شامت آجاتی تھی۔
ایک دن چچا جان کے کمرے میں ہمیں فلم “خدا گواہ” نظر آئی. رات ہوتے ہی کیسٹ لگائی تو وہ واقعی خدا گواہ کی فلم کی تھی. بے دلی سے فلم دیکھنے لگے مگر جب ایک کابلی پھٹان کو دیکھا جب وہ ہندوستان سے اپنی بیوی کی فرمائش پر ایک بندے کا سر کاٹ کر لیجارہا تھا تو ایک پنجابی راجپوت نے اس کا رستہ روکا کہ خان اس بندے کا سر لیکر جاسکتے ہو اگر واپس آؤ تو. کابلی نے کہا کہ راجپوت خان ہم ایک ماہ بعد اپکے ہاں حاضر ہوکر گرفتاری دیگا یہ پھٹان کا وعدہ ہے. راجپوت نے جواب دیا کہ آپ پھٹان ہو مگر میں بھی راجپوت ہوں مجھے آپکی زبان پر بھروسہ ہے………. جذباتی ڈائیلاگ اچھا لگا ۔
سال 2016
محترم وجاہت مسعود نے اپنی ویب سائیٹ لانچ کرلی جہاں لوگ لکھنے لگے کافی اچھے اچھے کالم نگار وجود میں آگئے. ایک دن کسی بات پر وجاہت مسعود نے محترم رعایت اللہ فاروقی صاب کو “جاہل” کہہ کر پکارا. وہاں ایک راجپوت تھا اس کو یہ بات اچھی نہیں لگی سو سب کے سامنے وہ اس بات پر ڈٹ گیا کہ وجاہت مسعود نے اچھا نہیں کیا.
میرے پاس انبکس میں آکر واقعی رو پڑا کہ لالہ آپ بالکل ٹھیک کہتے تھے ہم جیسوں کو دانشور نہیں بننا چاہیئے. میں نے کہا چپ کر کیا کرسکتے ہو آپ جو ہوا سو ہوا بھول جاؤ. کہنے لگا کہ نہیں لالہ میں راجپوت ہوں انعام رانا نام ہے میرا میں کچھ کرکے دیکھاؤنگا.

مکالمہ آیا اور چھا گیا اور آج میرے ذہن میں دادا کی باتیں اور فلم کے ڈائیلاگز گھوم رہے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

واقعی راجپوت زادے تم جیت گئے
یہ کابلی والا آپکو سلام کرتا ہے

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply