وقت اور اُس کی قیمت

وقت ایک گراں مایہ دولت ہے اور یہ دولت تقاضہ کرتی ہے کہ اسے ضائع نہ کیا جائے۔ کیونکہ اگر انسان کی سستی یا بے پروائی سے وقت ہاتھ سے نکل گیا تو یہ واپس نہیں آتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کامیابی و کامرانی ہمیشہ انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو وقت شناس اور اس کے قدر دان ہوتے ہیں، اور ہاتھ پر ہاتھ دھرنے اور خیالی پلاؤ پکانے میں مگن رہنے والوں کے خیالوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی اور نہ وقت ان کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ فارسی کا مشہور مقولہ ہے: وقت ازدست رفتہ و تیز از کمان جستہ بازیناید۔
یعنی ہاتھ سے گیا وقت اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتا اور اور نبی آخر الزمان علیہ السلام نے بھی وقت کی اہمیت پر فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، وقت اورصحت۔ (صحیح البخاری)

Advertisements
julia rana solicitors london

وقت اللہ رب العزت کی ایک ایسی عام نعمت ہے جو انسانی معاشرہ میں یکساں طور پر امیر، غریب، عالم، جاہل، صغیر، کبیر سب کو ملی ہے۔ وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سل سے دی جاتی ہے کہ جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہرحال پگھلتی ہی جاتی ہے۔ اس وقت مسلم معاشرہ عام طور سے ضیاعِ وقت کی آفت کا شکار ہے۔ یورپی معاشرہ اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود وقت کا قدر دان ہے اور زندگی کو باقاعدہ ایک نظام کے تحت گزارنے کا پابند بنا ہوا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ان کی ترقیوں کا ایک بڑا سبب وقت کی قدر دانی ہی ہے۔
جو قومیں وقت کی قدر کرنا جانتی ہیں وہ صحراوٴں کو گلشن بنا دیتی ہیں، وہ فضاوٴں پر قبضہ کرسکتی ہیں، وہ عناصر کو مسخر کرسکتی ہیں، وہ پہاڑوں کے جگر پاش پاش کرسکتی ہیں، وہ زمانہ کی زمامِ قیادت سنبھال سکتی ہیں؛ لیکن جو قومیں وقت کو ضائع کردیتی ہیں، وقت انھیں ضائع کر دیتا ہے۔ ایسی قومیں غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں اور دین اور دنیا دونوں اعتبار سے خسارے میں رہتی ہیں۔
آ ج ہمارے معاشرہ میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ وقت ہے۔ اس کی قدر وقیمت کا ہمیں قطعًا احساس نہیں، یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کرنے سے منٹوں کا، منٹوں کی قدر نہ کر نے سے گھنٹوں کا،گھنٹوں کی قدر نہ کرنے سے ہفتوں کا، ہفتوں کی قدر نہ کر نے سے مہینوں کا، اور مہینوں کی قدر نہ کر نے سے سالوں اور عمروں کا ضائع کرنا ہمارے لیے بہت آسان بن گیا ہے۔
وقت کے پاس کپڑوں کے صرف تین جوڑے ہیں: ماضی، حال، اور مستقبل۔ وقت ہمیشہ وہی رہتا ہے۔ صرف کبھی کبھی کپڑے بدل لیتا ہے۔ وقت کا طلسم اس طرح ہے کہ ہمارے ذہن کی تسخیر کرتا ہے، اور اس طرح اُس منزل کا پتہ گم ہو جاتا ہے کہ ڈھونڈے نہیں ملتا۔ یہ منزل کا کوچ ہے کہ جو خاموشی کی طرح رواں دواں ہے، اور یہ ہماری یاد کی رحمدلی ہے کہ منزل پر ہی چھوڑ جاتی ہے۔ سارے وقتوں کی یاد کو نہ لے کر ہم چل سکتے ہیں اور نہ مستقبل کے اندھیروں میں شریک ہی ہوسکتے ہیں۔
آج کا دور ڈجیٹل گھڑیوں سے بھی آگے کا ہے۔ آج ہم ایک ثانیے کے بھی ہزارویں حصے کی پیمائش باآسانی کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ احساس ڈجیٹل نہیں ہوسکا۔ احساس اب بھی وہی ہے۔ اب بھی انسان کبھی وقت کو قید کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ خود کو وقت کی قید سے آزاد کرالے۔ فراق کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتیں اور وصل میں وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے:
تجھ سے ملتا ہوں تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں
وقت کے پاؤں میں زنجیر میں ڈالوں کیسے

Facebook Comments

حمزہ حنیف مساعد
مکالمے پر یقین رکهنے والا ایک عام سا انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply