نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟شاہزیب صدیقی/قسط 3

ارتقاء پسندوں کے پاس تخیلاتی مواد کی بھرمار ہے ،وہ ہمیشہ تصوراتی تصاویر کا سہارا لے کر ارتقاء کو ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر جب ان سے فوسلز کے ذریعے ثبوت مانگے جاتے ہیں تو وہ جو چند ایک فوسلز پیش کرتے ہیں۔ اس میں چند فوسلز سلامنڈرز کے ہوتے ہیں ، یہ سمندری جاندار آج بھی موجود ہے بلکہ اپنی اسی حالت میں موجود ہے جیسے کروڑوں سال پرانے فوسلز میں تھا۔

دوسرا سب سے مشہور فوسل Panderichtys نامی جاندار کا پیش کرتے ہیں 2010 تک یہ فوسل ارتقائی مخلوق کے لحاظ سے سب سے مضبوط ثبوت مانا جاتا تھا مگر جدید تحقیق کے بعد ثابت ہوگیا کہ اس فوسل کا تعلق کسی مچھلی کے خاندان سے نہیں بلکہ چار ٹانگوں والے سمندری جانداروں کے خاندان سے ہے ۔ (Nature Magazine, Dr. Fred Spoor, 7th January 2010 Edition, Editor Summary)

آگے ارتقاء پسند احباب انسان اور گوریلوں کے درمیان کی مخلوق کے متعلق کچھ فاسلز کا ذکرکرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا مقصود ہے کہ ہمارے بہت سے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ارتقاء پسند دراصل بندروں کو انسان کا جدامجد مانتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ارتقاء پسندوں کے نزدیک بندر اور انسان دونوں گوریلوں کے خاندان کی ارتقائی مخلوق ہیں۔بہرحال جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ لوگوں کی سوچ آنکھ دیکھی چیزوں پر فوراً ایمان لے آتی ہے ، اسی بات کو ذہن نشین کرتے ہوئے ارتقاء پسندوں نے ان فوسلز کی حقیقی انسانوں جیسی اشکال بنا کر اپنے نظریے کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی ۔

یاد رکھیے گا کہ فوسلز دیکھ کر آپ کسی جاندار کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرسکتے ہیں مگر مکمل نہیں، کیونکہ جاندار کی شکل کا ماخذ کھوپڑی اور اس پر موجود گوشت ہوتا ہے ، فوسلز صرف نامکمل ہڈیوں پر مشتمل ہوتا ہے سو آپ اس کو کوئی بھی تخیلاتی چہرہ پہنا سکتے ہیں لیکن ارتقاء پسندوں نے کھوپڑی کو دیکھ کر صرف چہرہ نہیں بلکہ جاندار کا مکمل حلیہ اور اس کے خاندان والوں کی شکلیں تک بتا دیں۔

ہاروڈ یونیورسٹی کے فوسلز پر تحقیق دان ارنسٹ اے ہوٹن اس بارے  کہتے ہیں کہ  “فوسلز پر نرم حصوں کی تعمیراتِ نو کا بیڑا اٹھانا انتہائی خطرناک نوعیت کا کام ہے ، ہونٹ ، کان ، آنکھ اور ناک کی نوک کے نیچے والے حصے کی معلومات فوسل میں موجود نہیں ہوتیں، اسی خاطر آپ نیانڈرتھالائڈ پر چمپانزی کی بھی شکل بنا سکتے ہیں اور ایک عظیم فلاسفر کی بھی ، یہ عام لوگوں کو بہکانے کا آسان طریقہ ہے ۔” (Earnest A.Hooton, Up from the Ape, NewYork, 1932, P#332)

اسی خاطر ارتقاء پسندوں کے پاس آسٹرالوپیتھیکس کی بھی کئی تصاویر موجود ہیں جو کہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ارتقاء پسند خود بھی اس جاندار کے متعلق تذبذب کا شکار ہیں کہ یہ بن مانس تھا یا انسان اور گوریلے کے درمیان کی مخلوق، اس کے علاوہ ارتقاء پسند ایک لمبے عرصے تک ہسپے روپیتھیکس نامی فوسل کو انسان اور گوریلے کے درمیان کی گمشدہ کڑی تسلیم کرتے تھے۔ لیکن بعد میں جب اس فوسل کا بقیہ حصہ ملا تو معلوم ہوا کہ یہ فوسل تو دراصل ایک سُور کا تھا۔ ان فوسلز کے علاوہ سب سے گہرا ثبوت ارتقائی مخلوق کے متعلق اگر کوئی ان کے ہاتھ لگا تو لُوسی نامی فوسل تھا جس کے متعلق ارتقاء پسندوں کے علاوہ مختلف سائنسدان بھی حیران تھے ۔

اس کو دریافت کرنے والے سائنسدان جانسن نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کھُدائی کے دوران مجھے ایک بازو کی ہڈی ملی، میں نے اس کا اپنے بازو کے ساتھ موازنہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو انسان کے بازو کی ہڈی ہے، بعد ازاں اس جگہ سے 3 کلومیٹر دور مجھے دو سو فٹ گہرائی میں اس جانور کے گھُٹنے کے جوڑ والی ہڈی ملی” اگرچہ یہ گھٹنے کے جوڑ والا فوسل کسی اور جانور کے ہونے کا 99 فیصد چانس موجود ہے اس کے باوجود ارتقاء پسند اس کو انسان اور گوریلا کے درمیان کی ارتقائی کڑی مانتے رہےاور دعویٰ کرتے رہے کہ یہ جانور ہونے کے باوجود انسانوں کی طرح چلتی تھی ،

اس کی بہت تشہیر کی گئی اور اس پر اینیمیٹڈ ویڈیوز کی بھرمار کر دی گئی مگر بعد میں تحقیق سے ثابت ہوا کہ لوسی انسانوں کی طرح نہیں چل سکتی تھی بلکہ یہ ایک مادہ گوریلا تھی اور گوریلوں کی طرح ہی جھُک کرچلتی تھی۔ ان تمام حقائق سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ارتقاء پسندوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے تمام فوسلز انسان نما مخلوق نہیں بلکہ بن مانس اور گوریلوں کے ہی تھے! انشاء اللہ اگلی قسط میں ہم مزید کچھ مشہور فوسلز کی قلعی کھولیں گے جو کو نظریہ ارتقاء میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟شاہزیب صدیقی/قسط 3

  1. yaar bohat khub ab last episode ki tarah dobara mulhido kay dost yahan aa kar rona dhona shuru kar dengy kyon keh such hamesha karwa hota hai. excellent episode. waiting for next episode

Leave a Reply