مساجد اور حال حاضر۔۔۔حسام درانی

کوئی چار برس پہلے کام سے واپسی پر کافی دیر ہو گئی اور گھر تک پہنچتے پہنچتے تقریباً عشاء کا وقت ہو چلا تھا، تھکاوٹ اور پسینے سے برا حال تھا ،گھر پہنچتے ہی پہلا کام نہانے کا کیا اور ابھی غسل خانے سے نکل کر بال ہی خشک کر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی،” یار ابھی تو گھر گھسا ہوں اب کس کا فون آ گیا ہے ،دانت پیستے ہوے دل سے یہ الفاظ نکلے اور نہ چاہتے ہوئے بھی موبائل اٹھایا تو اعجاز گجر کا نام پڑھ کر فوراً کال آن کی اور موبائل کان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ایک غصہ بھری اونچی آواز کان کے پردہ سے ٹکراگئی،۔
” اہندی پین دی۔۔۔۔۔ خان فاٹا فٹ مسیتے آ ”
مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اور ہیلو ہیلو کرتا رہا لیکن دوسری طرف سے فون بند ہو چکا تھا، میں نے جلدی جلدی قمیض کے بٹن بند کیے اور باہر کی جانب لپکا، مگر دروازے سے فوراً واپس آیا اور بیگم سے پوچھا
” تمنچہ ” وہ بولی خیریت ہے ؟میں نے کہا شاید گجر کی لڑائی ہو گی ہے اسکا فون آیا ہے مسجد جانا ہے، پھر خود ہی سوچا کہ یار اسلحہ کا مسجد میں کیا کام ؟ویسے ہی باہر نکل آیا۔ اور بھاگم بھاگ مسجد کی طرف ۔راستہ میں ،اور محلہ دار موٹر سائیکل پر ملا اور قریب رکتے ہی بولا چل جلدی گجر کا فون آیا تھا کہہ رہا تھا کے خان کو لے کر جلدی پہنچو، پریشانی بڑھتی گئی جیسے ہی مسجد کے باہر پہنچے تو۔ پتہ چلا کے مسجد میں جماعت ہونے لگی ہے اور گجر اور اعوان دونوں نہایت غصہ میں باہر کھڑے اہل محلہ کو فون کئے جارہے ہیں، اسی اثناء میں اعوان نے اپنی گاڑی کی ڈگی کھولی اور مختلف اقسام کا اسلحہ نکالنا شروع کیا، اور گجر کی زبانی معلوم ہوا کے مسجد پر قبضہ کرنے کے لیے کوئی 25سے 30 لوگ آۓ ہوئے ہیں۔ اعوان نے ایک پسٹل میری طرف بڑھاتے ہوے کہا۔۔
” اہناں دی پین دی۔۔۔۔۔ اج بچ کے کوئی نہ جاۓ سالے وڈے بدمعاش بنے پھر دے نیں ”

قصہ مختصر کہ مسجد کے باہر تین آدمی اسلحہ اور ایک نوعمر لڑکا ڈانگ لئے کھڑا تھا اور اندر سانڈ جیسے کم از کم 25 مولوی لیکن جیسے ہی نماز ختم ہوئی وہ مسجد سے ایسے غائب ہوے جیسے کے کبھی ادھر آۓ ہی نہیں تھے، اس واقعہ کے بعد موقع پر موجود اور نمازیوں نے مل کر ایک عہد کیا کہ اس مسجد کو کسی مخصوص فرقہ کی مسجد نہیں بلکہ سوسائٹی کی مسجد بنایا جاۓ گا، کیونکہ اس سوسائٹی اور مسجد کے قرب و جوار میں تمام مسالک کے لوگ آباد ہیں، اس کے علاوہ مسجد کی کمیٹی بنائی جاۓ اور جلد از جلد مسجد کو رجسٹر کروا کے مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کر دی جاۓ،
چند بزرگوں کو مسجد سونپ دی گئی اور حفاظت کا ذمہ ہم چار لوگوں نے اٹھایا ۔کاغذی کارروائی پوری ہونے اور رجسٹریشن مکمل ہونے تک، لیکن جب بھی مسجد کی کمیٹی بنانے کی بات آتی ہے تمام بزرگ آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں، شروع شروع میں تو ان کے معاملات میں شامل ہوتے لیکن جب بزرگوں نے ہمارے ساتھ ہی بولنا شروع کر دیا تو آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ گئے اور مسجد کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے، جس بات کا ڈر تھا وہ پوری ہونی شروع ہو گی، مسجد کی تعمیر و آرائش کے لیے جو بھی فنڈ و چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے اسکا کوئی حساب کتاب نہیں۔ ڈبے میں سے جو نکلتا ہے وہ کسی کو معلوم نہیں ،بلکہ اب تو حالت یہاں تک آ گئی ہے کہ اگر کسی نے مسجد کے لیے کوئی چیز خریدنی ہو تو وہ خود خرید کر دیتا ہے، جیسے سیمنٹ ریت، یا پنکھے وغیرہ کیونکہ اب بہت سارے لوگوں کا اعتبار موجودہ لوگوں پر سے اٹھتا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ ہماری مسجد میں چل رہا  ہے،وہ ہے بچوں کا مسجد میں داخلہ، دو ہفتے پہلے جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے اپنے دونوں بچوں کے ساتھ  ، آخری صف میں تھا اور میرے ساتھ گلی کے اور کم سن بچے بھی تھے، قسم سے بے انتہا خوشی ہو رہی تھی کہ نئی نسل میرے دائیں بائیں نماز پڑھنے کے لیے ہے،۔ خدا ہماری مساجد کو اسی طرح ان بچوں سے ہرا بھرا رکھے اور ان کی کلکاریاں ایسے ہی قائم ودائم رکھے ،ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک پیش امام نے اعلان کرنا شروع کر دیا،” مسجد میں جو لوگ اپنے کم سن بچوں کو لے کر آتے ہیں ان کی وجہ سے مسجد کا تقدس پامال ہوتا ہے اور بچوں کی آوازوں سے نمازیوں کی نماز مکروہ ہو جاتی ہے، اللہ ایسے والدین کو ہدایت دے کہ وہ بچوں کو مسجد میں لانے سے پرہیز کریں اور اللہ ان نمازیوں کی نمازوں کو قبول فرمائے آمین “میں ایک عام سا مسلمان ہوں، اور مجھے مساجد کے مولوی صاحبان نے ہی بتایا اور سمجھایا کہ بچوں کو ساتھ لانا چاہیے تاکہ ان میں نماز کا شوق پیدا ہو اور ویسے بھی اسلام میں 7 سال کے بچے کو سختی سے نماز قائم کروانے کے بارے میں کہا گیا ہے، اور اس بارے میں ان ہی مولوی صاحب نے بارہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ریفرنس دیا۔لیکن خود اس طرح کے اعلانات کررہے ہوتے ہیں اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا اس سے پہلے بھی حضرت کافی دفعہ اس بات کو دہرا چکے ہیں۔
میرا تمام بھائیوں سے ایک سوال ہے کہ کیا ان حالات میں مسجد میں داخلے کے لیے عمر کی کم از کم حدنہ قائم کر دی جاۓ تاکہ اس طرح کے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جاے؟؟؟؟
ویسے کیا اسی طرح حج و عمرہ یا عام روٹین میں خانہ کعبہ و مسجد نبوی میں بچوں کا داخلہ بند ہے؟ کیونکہ میرے نزدیک ان دونوں مقامات کی حرمت دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔کیا ان مقامات پر بچے شور نہیں کرتے کیا ان مقامات پر بچے گندگی تک نہیں پھیلا دیتے؟اور آفرین ہے ان پہلی صف والے ہمارے بزرگوں پر جو کہ ایسی باتوں پر پھیپھڑے پھاڑ کر آمین کہتے ہیں اور زیر لب بڑبڑائے ہوئے قہر آلود نظروں سے پیچھے دیکھنا شروع کردیتے ہیں اور نماز کے بعد آپس میں باتیں کرتے ہیں یار،
” آج دی نسل تے مسیت چے آنا گناہ سمجھدی اے ”

اور کل شام تو تمام حدیں توڑ دی گئیں جب ایک صاحب شام کی نماز کے وقت اپنے بچوں کو مسجد لے آۓ اور مولوی کے کہنے پر صادق و امین  و جنت کے ٹھیکیدار قبضہ گروپ نے ان صاحب کے ساتھ  مسجد میں ہی لڑائی جھگڑا شروع کر دیا کہوہ بچوں کو مسجد میں کیوں لے کر آۓ۔چند دن پہلے ف ب پر ایک سوال پوچھا تھا کہ مساجد کی رجسٹریشن کیوں ضروری ہے اور لوگ مساجد کو رجسٹر کروانے میں ہچکچاتے کیوں ہیں اس کے جواب میں ہمارے بہت اچھے دوست ڈاکٹر عامر طاسین صاحب نے جو بات بتائی وہ درج ذیل ہے۔
پاکستان میں مساجد عمومی طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوا کرتی تھیں نیشنل ایکشن پلان کے بعد یہ طے پایا گیا ہے وہ مساجد جس میں بچوں کو دینی تعلیم دی جاتی ہیں انہیں مدرسہ کا درجہ دے کر رجسٹرڈ کیا جائے۔تاہم یہ عمل ابھی تک سست روی کا شکار ہے۔ مگر حتمی طور پر یہ واضح پالیسی ہے پاکستان کی تمام مساجد اور مدارس کو صوبے اپنی نگرانی میں رجسٹرڈ کرینگے۔ اکثر مساجد کے ذمہ داران اس لیے بھی رجسٹر کرانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کہ مساجد قبضہ کی زمینوں پر قائم اور ایک دوسرے مسالک سے چھینی ہوئی ہیں۔
لیکن باوجود اس کے میرے خیال میں پاکستان میں مساجد اصولی طور پر سرکار کی تحویل میں ہونی چاہیئے تاکہ مسالک کی جنگ و جدل سے آزاد ہو کر کام کر سکیں اور تمام مساجد سرکار کی نگرانی کے ساتھ امام مسجد کا تعین و تقرر بھی سرکار کرے اور تنخواہ بھی سرکار جاری کرے۔
تو جناب جن اصحاب کی دیہاڑیاں اسی طرح سے چلتی ہوں تو کس کافر کا دل کرے گا کہ وہ مسجد کو رجسٹر کرے اور اسکے تمام معاملات سرکار کے پاس چلے جائیں۔ویسے ایک معصوم سا سوال اپنے دوستوں سے ہے کیا کبھی کسی نے اس بات کے بارے میں سوچا یا سوال  پوچھنے کی جرات کی ہے ابتک کہ اللہ کے گھر کے نام پرآپ نے کتنا وصول کیا اور اسکی راہ پر کتنا لگا دیا، کیونکہ دینے والے کی نیت  خالص رب کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے لیکن لینے والے کی نیت؟؟؟؟؟؟ان  باتوں کے بعد تو میں ایک ہی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مسجد  کے گیٹ پر ایک تنبیہی بورڈ لگا دیا جاۓ جس پر جلی حروف میں لکھا ہو۔۔

” مسجد میں 18 سال سے کم عمر افراد کا داخلہ سخت منع ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو مسجد مافیا سے چھترول کے بعد حوالہ پولیس کیا جاۓ گا۔ بحکم مساجد قبضہ مافیا۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors

اور اس میں تمام قصور ہمارا اپنا ہے ہم نے ایک قبضہ گروپ کو بھگا کر مسجد ایک اور مافیا کے حوالے کر دی ۔۔۔

 

 

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply