افغانستان داخلی کمزوریوں پر قابو پائے

افغانستان داخلی کمزوریوں پر قابو پائے
طاہر یاسین طاہر
افغانستان کئی عشروں سے داخلی انتشار کے باعث خارجی قوتوں کے لیے اکھاڑا بنا ہوا ہے۔افغانستان کی موجودہ صورتحال کی کئی ایک تاریخی،تہذیبی،مذہبی و معاشی وجوہات ہیں۔ یہ امر درست ہے کہ جدید تاریخ میں ریاستیں اپنی بقا کی خود ضامن ہوتی ہیں اور اس حوالے سے وہ کئی اقدامات اٹھاتی ہیں،جن میں سے اہم ترین پڑوسی ،علاقائی و بین الاقوامی ممالک و طاقتوں کے ساتھ دفاعی ،معاشی و سائنسی معاہدے ہوتے ہیں۔افغانستان اس حوالے سے جدید ریاستی شعور سے کوسوں دور ایک قبائلی و رجعت پسند معاشرے کے طور دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔افغانستان اپنی ان کمزوریوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے اور یہ کہ اس کی سیاسی قیادت اپنا جھکاو بھارت کی طرف رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کو نہ صرف افغانستان میں قیام امن کی عالمی کوششوں میں کلیدی کردار نبھانا پڑ رہا ہے بلکہ پاکستان کو بھارت اور افغانستان کی ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کے باعث بلوچستان و کراچی سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کا بھی سامنا ہے ،اور اسی حقیقت کی جانب دفتر خارجہ نے بھی دنیا کی توجہ دلائی ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق افغانستان کی صورتحال کا ذمہ دار کسی دوسرے ملک کو ٹھہرانا مناسب نہیں بلکہ افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال کی جارہی ہے۔ترجمان دفترخارجہ نفیس ذکریا نے امریکہ کی جانب سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا اور نا ہی مخالفانہ بیان بازی کے سلسلے کا حصہ بنے گا اورہم دوسروں سے بھی ایسی ہی توقعات رکھتے ہیں۔ترجمان دفترخارجہ کا مزیدکہنا تھا کہ پاکستان کے ہزاروں افراد نے دہشت گردی میں اپنی جانیں گنوائی ہیںور پاکستان کو 100 ارب ڈالرز کے مالی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا جبکہ عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے ساتھمعترف بھی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ہم دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے تعاون کی پالیسی پر گامزن ہیں، ہم افغانستان میں امن و اعتدال چاہتے ہیں اور بہتر بارڈر منیجمنٹ میں مصروف ہیں جب کہ آپریشن ضرب عضب سے سرحدی علاقوں کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر ہمارے فوجی آپریشن کے نتائج کو دیکھا جا سکتا ہے امریکی کمانڈروں اور پارلیمینٹرینز نے ہماری ان کاوشوں کی تعریف کی ہے لیکن افغانستان میں قیام امن کے لئے ہماری سنجیدہ کوششوں کو بدنام کیا جارہا ہے۔ترجمان دفترخارجہ کے مطابق فغانستان کو بہت سی دہشت گرد تنظیموں نے متاثر کررکھا ہے عدم استحکام نے وہاں حقانی نیٹ ورک، تحریک طالبان، داعش، جماعت الاحرار اور القاعدہ کو جگہ دی اور چند غیرملکی عناصر اس تمام تر صورتحال کا فائدہ اٹھار رہے ہیں اور افغان سرزمین کو پاکستان سمیت خطے بھر کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان کو را اور افغان خفیہ ایجنسی کے گٹھ جوڑ اور سرگرمیوں پر تحفظات ہیں۔
یہ امر درست ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جاری اس عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے طور پر نیٹو میں شامل کسی بھی ملک سے نہ صرف زیادہ جانی قربانیاں دی ہیں بلکہ مالی خسارہ بھی پاکستان کو سب سے زیادہ برداشت کرنا پڑا ہے۔اسی طرح اس جنگ کے منفی اثرات پاکستانی معاشرت پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔یہ امر بھی لائق توجہ اور باعث تشویش ہے کہ افغانستان عالمی دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ تصور کیا جاتا ہے،جس کی بڑی وجہ افغانستان کے داخلی حالات و اس کی مخصوص طرز معاشرت و تہذیبی تاریخ ہے۔عالمی برادی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہتی بھی ہے اور ڈو مور کا مطالبہ بھی کرتی ہے جس سے سامراجی مقاصد اور داغلے پن کا اظہا ہوتا ہے۔پاکستان افغانستان سمیت دنیا بھر میں امن کا خواہاں ہے،پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نہ صرف دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن کا اتحادی ہے بلکہ خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے۔عالمی برادی پاکستان کو الزام دینے کے بجائے خطےمیںبھارت اور افغانستان کے کردار کو بھی دیکھے،مذکورہ دونوں ممالک کی ایجنسیاں مل کر پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کرتی ہیں، جبکہ افغانستان کی سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے کئی شواہد موجود ہیں۔افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کے کردار کو شک کی نظر سے دیکھنا،قابل تشویش ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی برادری افغانستان کے داخلی استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے خطے،دنیا اور افغانستان میں قیام امن کے لیے جاندار کردار ادا کرے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply