متوسط طبقہ…

چلیں آج آپ سب کو کہانی سناتے ہیں، ہر اس گھرانے کی جس کا تعلق کبھی "متوسط طبقے" سے ہو تا تھا۔ جہاں بہت زیادہ خو شحالی تو نہ تھی مگر ایک اچھی زندگی ضرور ہوتی تھی، جس میں سہولت کے ساتھ ایک فرد کی تنخواہ سے پورا کنبہ پل جاتا تھا، بہت مہنگے نا سہی، اچھے سکول میں بچے تعلیم حاصل کر تے تھے۔ خاتون خانہ اپنی عقل اور سمجھداری سے کمیٹیاں ڈال کر بچوں کو پڑهاتیں، اپنے لیے چھوٹے موٹے زیورات بناتیں، ساتھ ساتھ بچیوں کے لیے جہیز بھی جوڑتیں۔ تین ٹائم اچھا کھانا پکانا اس طبقے کا معمول تھا۔ ایک دوسرے کے گهر آنا جانا لگا رہتا۔ کوئی کسی پر بو جھ نہ تھا۔ پاکستان کا یہ طبقہ در اصل ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا، پھر ایسی ہوا چلی کہ مہنگائی نے کمر توڑ دی، ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر نے لگیں اور متوسط طبقہ ان میں گم ہو کر رہ گیا…

Advertisements
julia rana solicitors

کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اصل کردار یہی طبقہ ادا کر تاہے۔ یہ آگے بڑهنے کا خواہاں ہو تا ہے۔ اسی طبقے سے نکل کر لوگ ڈاکٹر، انجنئیر، صحافی بنتے ہیں۔ یہ طبقہ سوچ و فکر رکھتا ہے اور قو موں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ اسی کی بدولت سر زمین پاکستان کو ہر شعبہ میں کامیاب افراد ملے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہےکہ اب یہ طبقہ تیزی سے ختم ہو ررہا ہے کیو نکہ تین بنیادی طبقات میں بھی مزید درجہ بندی ہو گئی ہے۔ جو لوگ جائز یا ناجائز طر یقے سے دولت کما گئے وہ اپر مڈل کلاس کے درجے پر پہنچ گئے مگر زیادہ تر کو ایسے مواقع نہ مل سکے لہذا اب وہ لوئر مڈل کلاس میں تنزلی پاگئے۔ جو پہلے لوئر میں تھے، اب ان کی حالت مزید خستگی کا شکار ہے۔ جہاں تین ٹائم کا کھانا عیاشی بن گیا ہے۔ یہ سب بہت افسوس ناک بات ہے۔ عوام کی بڑی تعداد اس نظام سے عاجز آچکی ہے جہاں امیر، امیر سے امیر تر اور غریب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی کی گاڑی کو کھینچنے پر مجبور ہے۔ بیروزگاری نامساعد حالات سے تنگ آکر لو گوں میں خودکشی کا رحجان بڑھ رہاہے۔ مائیں بچوں کو زہر تک دینے میں مجبور ہو گئیں ہیں۔ سماجی ادارے افسوس کر نے میں لگے ہیں اور کہنے والے کہتے ہیں کہ لوگ بھوک سے تنگ آکر خود کشی کر ہی نہیں سکتے۔ ملک بھر میں جگہ جگہ فلاحی اداروں کے دستر خوان کی بھر مار ہے۔ کبھی جا کر دیکھا ہے وہاں زیادہ ترکون لو گ آتے ہیں؟ وہاں زیادہ تر روزانہ کے لگے بندهے لوگ آتے ہیں۔ کوئی سفید پوش اس طرف کا رخ شاذ و نادر ہی کر تا ہے۔ اگر پیٹ کی بھوک کچھ نہیں تو زندگی بہت آسان ہے۔ کیوں معصو م بچے مزدوری کے دلدل میں اپنا بخت سیاہ کر رہے ہیں؟ کیوں ناخواندہ لڑکیاں پڑهنے کے بجائے لوگوں کے گھروں کا گند صاف کر رہی ہیں ؟ کیوں ستر سالہ خاتون آرام کی عمر میں پرائے گھر کا کام کر تی ہے؟ ایک وقت تھا جب بلوچ طبقے میں خواتین کے کسی اور کے گھر میں جاکر کام کر نے کو عیب سمجھا جاتا تھا۔ آج اس طبقے کی خواتین بھی دیگر خواتین کی طرح گھروں میں جهاڑو پو نچھا لگا رہی ہیں… اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی سب سے بڑی وجہ عوام اور خواص کی دین اسلام سے دوری ہے۔ اسلام کے خلاف قلم اٹھانے والے تو اب ایک سے بڑھ کر ایک پیدا ہوگئے ہیں مگر اس کی اصل تعلیمات کو جھٹلا دیا گیا ہے…سورہ بقرہ آیت نمبر 43 میں ارشاد رب العزت ہے:
"نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور جو میرے آگے جھکے اسکے ساتھ تم بھی جھک جاؤ"
سورہ البقرہ کی ہی آیت نمبر 110 میں ارشاد ربانی ہے:
"نماز قائم کرو اور زکوۃ دو، تم اپنی عاقبت کے لیے جو بھلائی کما کر بھیجو گے اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے"
نماز کے ساتھ زکوۃ کا حکم اللہ پاک اس لیے دے رہے ہیں تاکہ معاشرے سے برائیاں ختم ہوں، ساتھ ہی غربت کا خاتمہ ہو۔
سورہ البقرہ کی آیت نمبر 177 اور 215 میں کچھ اس طرح ارشاد پاک ہے:
"لوگ پو چھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں، جواب دو جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر رشتے دار پر یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بهی بهلائی تم کرو گے اللہ اس سے با خبر ہے"
ان آیا ت میں مفصل بتا دیا گیا ہے کہ انسان کے مال کے صحیح حقدار کون ہیں۔ ریاست اگر اپنی ذمہ داری ٹهیک سے ادا نہیں کر رہی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انفرادی طور پر خود کو ہر فرض سے بری الذمہ سمجهیں۔ انسان کی کمائی کے سب سے زیادہ حقدار اس کے والدین ، رشتے دار ہیں مگر دیکها گیا ہے کہ جب دینے کی باری آتی ہے اندهے کی ریوڑیاں اپنوں کے بجائے خوشامدیوں کی جهولی میں چلی جاتی ہیں۔ بہر حال معاملات خراب تو ہو رہے ہیں مگر اب بهی وقت ہے اس ملک کو یہاں کی خستہ حالی کا شکار ہوتی قوم کو بچانے کے لیے ہم اپنا مثبت کردار قرآن و سنت کی روشنی میں ادا کریں۔

Facebook Comments

زرمینہ زر
feminist, journalist, writer, student

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply