مقروض امریکہ کے وزیر خارجہ کی پاکستان یاترا۔۔۔عمران خان

اسلام آباد میں چار گھنٹے سے بھی کم وقت گزارنے کے بعد امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن بھارت پہنچ گئے ہیں، جہاں انہوں نے پاکستان کے حسن سلوک پہ جی بھر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت اور امریکہ فطری اتحادی ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہیں، امریکہ کی افغان پالیسی میں بھارت کا اہم کردار ہے اور ہم خطے میں بھارت کے قائدانہ کردار کی حمایت کرتے ہیں۔ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، پاکستان میں بہت ساری دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، جو اب پاکستانی حکومت کی سلامتی کیلئے خطرہ بن گئی ہیں، پاکستانی حکومت کا غیر مستحکم ہونا کسی کے مفاد میں نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے بھارت کی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے بہترین دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ خطے میں بھارت کے قائدانہ کردار کی حمایت کرتا ہے اور خطے کی سیکیورٹی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے بھارت کی صلاحیتوں کو فروغ دے گا، ہم بھارتی فوج کو جدید بنانے کے لئے اپنی بہترین ٹیکنالوجی دینے کو تیار ہیں، جبکہ ایف 16 اور ایف 18 جنگی طیاروں کے معاہدے کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس موقع پر سشما سوراج نے کہا کہ امریکہ کی جنوبی ایشیا پالیسی صرف اس صورت میں کامیاب ہوگی، جب پاکستان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ پاکستان آنے سے قبل افغانستان میں بھی امریکی وزیر خارجہ نے کچھ اسی طرح کی بولی، بولی اور کہا کہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے کہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کیلئے کارروائی کرے اور پرامن افغانستان کیلئے طالبان سے مذاکرات کی کوششیں کی جائیں۔

ریکس ٹلرسن اس لحاظ سے خاصے بدنصیب امریکی وزیر خارجہ ثابت ہوئے ہیں کہ انہیں وہ عزت و توقیر پاک سرزمین پہ میسر نہ آئی جو اس سے قبل امریکی وزرائے خارجہ کیلئے لازم و ملزوم سمجھی جاتی تھی۔ ان کے دورے کے دوران نہ صرف حکومت، عسکری قیادت، میڈیا نے سرد مہری اختیار کی بلکہ ان کی خواہش کے باوجود مختلف وزراء اور اداروں کے سربراہان سے الگ الگ ملاقاتوں کا زیادہ تام جھام نہیں کیا گیا۔ امریکی سفارتخانہ کے شیڈول کے مطابق ریکس ٹلرسن نے آرمی چیف، وزیراعظم، وزیر خارجہ سے الگ الگ ملاقاتیں کرنی تھیں، مگر پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے مشترکہ ملاقات پہ ہی اکتفا کیا۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی امریکی وزیر خارجہ کے طے شدہ شیڈول میں تبدیلی میزبان پاکستان نے کی ہو۔ مشترکہ ملاقات کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، مگر کم از کم سول ملٹری تناؤ کے تاثر کے خاتمے میں بھی مدد ملی ہے اور امریکی سازشی تھیوریز ایجاد ہونے سے قبل ہی دم توڑ گئی ہیں۔ ویسے بھی امریکہ کی جانب سے اس تناؤ کو ہمیشہ گہرا کرنے کی ہی کوشش کی گئی ہے۔ یہ امریکی وزیر خارجہ کے افغانستان میں دیئے گئے بیان کا ردعمل تھا، یا کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقوم روکے جانے کا، ٹرمپ اور سی آئی اے سربراہ کے پاکستان مخالف بیانات یا امریکہ کی نئی افغان پالیسی میں بھارت کے بڑھتے کردار کا کہ ٹلرسن کی توقع سے بڑھ کر پاکستان نے روکھا رویہ اپنایا۔ یہاں تک ٹلرسن وہ پہلے امریکی وزیر خارجہ ثابت ہوئے ہیں کہ جن کے خیر مقدم کیلئے ایک بھی عوامی نمائندہ ائیر پورٹ پر موجود نہیں تھا اور حکومت کی علامتی نمائندگی کے طور پر وزارت خارجہ کے امریکہ ڈیسک کے ڈی جی، امریکی سفیر کے ہمراہ موجود تھا۔

پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت سے ملاقات کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے صدر ٹرمپ کا پیغام دیا کہ جس میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کی تعریف کی گئی تھی اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کرے۔ پاکستانی قیادت نے واضح کیا کہ حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان کو پاکستان کی کوئی حمایت حاصل نہیں ہے۔ پاکستان بلاامتیاز کارروائیاں کر رہا ہے، جس کا ثبوت ردالفساد، ضرب عضب اور دیگر آپریشنز کی صورت میں سامنے ہے۔ پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ کو ڈومور کے جواب میں نومور کا پیغام دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امریکہ کو پاکستان پہ اعتماد بحال رکھتے ہوئے کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم کا اجراء کرنا ہوگا، وگرنہ خطے میں امریکی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکہ کی نئی افغان پالیسی کے تحت افغانستان میں بھارت کا بڑھتا کردار کسی صورت قابل قبول نہیں، کیونکہ بھارت افغان زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ملک میں سول و ملٹری تعلقات مستحکم ہیں۔ پاکستان قابل بھروسہ انٹیلی جنس اطلاعات پر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے تیار ہے، مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ امریکہ بھی سرحد پار سے ہونے والی دراندازی کے خاتمے میں مخلصانہ کردار ادا کرے۔ پاکستان کی حدود میں صرف پاکستانی سیکیورٹی ادارے کارروائی کریں گے۔ امریکہ افغانستان میں ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے اور وہاں ان کے محفوظ ٹھکانے ختم کرے، جبکہ پاکستان کے جوہری اثاثہ جات پہ امریکی تحفظات غیر ضروری ہیں۔ ملاقات کے دوران پاکستان نے کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشتگردی پہ شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ وزیراعظم نے سیکیورٹی اور اقتصادی بہتری کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری کے ساز گار مواقع موجود ہیں۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ریکس ٹلرسن کی ملاقات کے دوران پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر بھی وزیراعظم کے ہمراہ موجود تھے۔ ملاقات کے بعد میڈیا کے مختلف اداروں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں موجود افغان طالبان کے خلاف کارروائی کی جائے، تاہم ملاقات کے دوران انہوں نے کسی بھی قسم کی جماعت یا گروپ کا نام نہیں لیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے بھی حکومت پاکستان کو کردار ادا کرنے کے لئے کہا ہے۔ پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ کو دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بھی قسم کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں، کیونکہ افغانستان کا 40 فیصد حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے اور انہیں پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کی ضرورت نہیں۔ گذشتہ عرصے کے دوران پاکستان کا افغان طالبان پر اثر ختم ہوچکا ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک طالبان کے زیادہ قریب ہیں، کیونکہ جب مری کے مذاکرات ہو رہے تھے، اس وقت لیک کر دیا گیا کہ ملا عمر دنیا میں نہیں رہے اور اسی طرح جب مذاکرات آگے بڑھ رہے  تھےتو تو ملا منصور کا واقعہ پیش آگیا، جس کے بعد پاکستان افغان طالبان پہ اپنا اثر کھو چکا ہے۔ وزیر دفاع نے یہ بھی بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے موقع پر انہیں بتایا گیا کہ امریکہ کو پاکستان سے برابری اور احترام کی بنیاد پر بات چیت کرنی چاہیے، اگر امریکی پاکستان کے ساتھ عزت کا برتا ئوکریں گے تو اس کے نتائج اتنے ہی بہتر آئیں گے، امریکہ جتنی سخت زبان استعمال کرے گا، سفارتی طور پر اتنے ہی زیادہ مسائل پیدا ہوں گے۔ امریکی وزیر خارجہ پر واضح کیا گیا کہ اگر افغانستان میں بھارت کوئی امداد کرے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن بھارت افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں دراندازی کر رہا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں، امریکہ بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے امریکہ سمجھتا ہے کہ بھارت پاکستان کے لئے خطرہ نہیں ہے۔

امریکی ہم منصب سے ملاقات کے بعد وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات میں اعتماد کا فقدان راتوں رات ختم نہیں ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر برف جم گئی ہے، جسے پگھلنے میں وقت لگے گا۔ دونوں ممالک کے مابین معاملات دھمکی سے نہیں صلح کی زبان سے طے ہوں گے۔ پاکستان امریکہ سے پرانی دوستی یاری کے نتائج پہلے ہی بھگت رہا ہے تو اب امریکہ ہمیں اور زیادہ برے نتائج کیا بھگتوائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 70 ہزار جانوں اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارا پرامن کلچر اور برداشت پر مبنی معاشرہ برباد ہو کر رہ گیا، تاہم اب قوم متحد ہے اور امریکہ سے دوستی کے نتائج کو ٹھیک کر رہے ہیں۔ افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنے گریبان میں جھانک کر افغانستان میں اپنے کارنامے دیکھے، کیونکہ افغانستان کے 45 فیصد حصے پر طالبان کا قبضہ امریکی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ پاکستان آنے سے قبل جس وقت افغانستان میں کھڑے ہوکر پاکستان پہ دباؤ بڑھانے کی بات کر رہے تھے۔ عین اسی وقت ملکی میڈیا کے معتبر ادارے نے رپورٹ جاری کی کہ بھارتی حکومت نے پاکستان سے ملنے والے تمام سرحدی علاقوں میں لگی فوج کو جوہری ہتھیاروں سے لیس کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ بھارت نے ریاست راجستھان، ریاست جموں و کشمیر اور بھارتی پنجاب کے سرحدی علاقوں میں لگی ریگولر آرمی کو جوہری ہتھیاروں سے لیس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بھارت نے یہ فیصلہ امریکی ایماء پہ کیا ہے اور موسم سرما سے پہلے بھارت فوج کو ایل او سی پر جدید اور معلوماتی سسٹم کے ساز و سامان سے لیس بھی کیا جائے گا۔

پاکستان میں چار گھنٹوں کا دورہ مکمل کرنے کے بعد بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس دباؤ کی ممکنہ صورت بھی واضح کر دی کہ جو بھارت کے ساتھ دفاعی اور معاشی تعاون کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھارتی کردار کو مزید وسعت دینے پر مبنی ہے۔ ساتھ ہی ایف سولہ اور ایف اٹھارہ طیاروں اور جدید انٹیلی جنسل سسٹم کی فراہمی کے اعلان کرکے اس رپورٹ کی بھی تائید کر دی ہے۔ ریکس ٹیلرسن کے دورہ پاکستان اور ان کے مطالبات و گفتگو سے چند باتیں پوری طرح واضح ہوچکی ہیں۔ اول پاکستان اور امریکہ اب تعاون کے نام پر بھی ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ دوئم، یہ کہ امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان میں طالبان سے عاجز آچکی ہیں اور تمام تر وسائل جھونکنے کے باوجود دنیا کے چالیس ملکوں پر مشتمل یہ مشترکہ فوج طالبان کو ختم کرنے میں ناکام و نامراد رہی ہیں۔ سوئم، امریکہ اور افغان حکومت ہر قیمت پر طالبان کو امن عمل میں شریک کرنے کیلئے مذاکرات چاہتے ہیں، تاہم انہیں اقتدار میں شریک کرنے پہ تیار نہیں، جس کے جواب میں طالبان امریکی انخلاء تک امن عمل میں شریک ہونے پر راضی نہیں، انہی طالبان کو مذاکرا ت کی ٹیبل تک لانے کیلئے امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔ بنیادی طور پر پاکستان سے یہ مطالبہ ہی افغانستان میں چالیس ملکی فوج بشمول امریکہ کا اعتراف ناکامی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

چہارم، جن طالبان کو امریکہ اور نیٹو افواج ملکر تمام تر قوت اور جنگی حربے آزمانے کے باوجود بھی ختم نہ کر پائے، پاکستان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان طالبان کو پاکستان ختم کرے، جو کہ درحقیقت پاک فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ چنانچہ پاکستان کو اپنے اسی اصولی موقف پہ قائم رہتے ہوئے امریکہ کے ساتھ یہی رویہ اپنائے رکھنا چاہیئے کہ جس کا سامنا ریکس ٹلرسن نے کیا ہے۔ ویسے بھی امریکہ نے ہمیں معاشی حوالے سے فائدہ سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ امریکی خواہش پر پاکستان جس جنگ میں امریکہ کا حلیف بنا، اس میں بالواسطہ یا بلاسطہ پاکستان کو 118 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ امریکہ نے پاکستان کو صرف 15 ارب ڈالر دیئے، اس لحاظ سے پاکستان کے 113 ارب ڈالر امریکہ کی جانب واجب الادا ہیں جبکہ کل امریکی قرضہ 83 ارب ڈالر ہے، چنانچہ امریکہ ہر لحاظ سے پاکستان کا مقروض ہے۔ چاہے یہ قرض جنگ میں ہونے والے انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں ہو، انفراسٹرکچر کی تباہی، معاشی یا پھر صحت و تعلیم کے متاثر ہونے کی صورت میں۔ پاکستان کو اب امریکہ سے اپنے بقایا جات کی وصولی کیلئے غور کرنا چاہیئے۔ ایوان بالا نے بھی امریکی وزیر خارجہ کے افغانستان میں دیئے گئے بیان کا نوٹس لیا ہے، چیئرمین سینیٹ کو اپنی ذمہ داری کا مزید احساس کرتے ہوئے ایوان بالا سے ایک بل بھی منظور کرنا چاہیئے کہ پاکستان میں امریکہ کے سفارتی عملے کی تعداد اتنی ہی ہوگی کہ جتنی امریکہ میں پاکستان کے سفارتی عملے کی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply