• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سانحۂ کوئٹہ: شہروں کے پھیلاؤ اور دہشتگردی میں تعلق کو سمجھنے کی ضرورت(حصّہ اوّل)۔۔۔۔ حمزہ ابراہیم

سانحۂ کوئٹہ: شہروں کے پھیلاؤ اور دہشتگردی میں تعلق کو سمجھنے کی ضرورت(حصّہ اوّل)۔۔۔۔ حمزہ ابراہیم

3 جنوری 2020ء کو بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کی رہائش گاہ پر مسلح افراد نے حملہ کر کے گیارہ ہزارہ مزدوروں کو الگ کیا، ان کے ہاتھ پشت پر باندھے اور ان کو ذبح کر کے ویڈیو بنا لی۔ اس واقعے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی کہ جس کے کارکنان ماضی میں خود کو لشکر جھنگوی یا سپاہ صحابہ کہتے رہے ہیں۔ کوئٹہ میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے کے وجہ سے ہزارہ برادری پر کئی خونین حملے ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ہزارہ برادری صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع کرم میں بھی پائی جاتی ہے جو کوئٹہ کی طرح ایک پختون اکثریتی علاقہ ہی ہے، لیکن وہاں ان پر اس قسم کے بے رحمانہ حملے نہیں ہوتے کیوں کہ کرم کی پختون اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دہشتگردی ہزارہ -پختون نسلی تصادم نہیں بلکہ اسکی نوعیت مذہبی ہے۔ کوئٹہ جیسی ہی صورت حال ڈیرہ اسماعیل خان کی شیعہ آبادی کو بھی درپیش ہے ۔ پاکستان میں گزشتہ ستر سال میں شیعہ شہریوں پر ہونے والے حملوں میں سے اسی فیصد حملے شہروں میں ہوئے۔ اکیسویں صدی میں مذہبی دہشتگردی میں اضافہ ہوا تو صوفیا کے مزارات کو شرک، کھیل کے میدانوں کو لہو و لعب اور تعلیمی اداروں کو کفر کے مراکز قرار دے کر اڑایا جانے لگا۔ معاشی سرگرمیاں معاشرے کو اختلاف رائےسے پاک کرنے کے تجربات کی بھینٹ چڑھ گئیں، شہروں کی افرادی قوت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان آئی ٹی انڈسٹری لگا کر یا کورونا جیسی بیماریوں کی ویکسین بنا کر معاشی خوشحالی کا سفر طے کرنے کے بجائے دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے کو ٹھنڈے ذہن سے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور تلخ حقائق کو قبول کرتے ہوئے اس خونریزی کے خاتمے کیلئے نئے راستے تلاش کئے جائیں۔ یہ مضمون ایسی ہی ایک کوشش ہے اور اس نئی راہ کی تلاش میں غلطیوں کا امکان بھی ہے۔ امید ہے کہ سماجی علوم کے ماہرین اس موضوع پر تحقیق کریں گے اور بہتر تجزیہ اور تجاویز پیش کریں گے۔

بلوچستان اور کوئٹہ

2017ء کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ تیئس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں سے بائیس لاکھ لوگ کوئٹہ میں رہتے ہیں۔ کوئٹہ کی آبادی میں پانچ لاکھ افراد ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو 1893ء میں افغان بادشاہ امیر عبد الرحمن خان کے مظالم سے تنگ آ کر اس شہر میں آنا شروع ہوئے جو اس وقت انگریزوں کے زیرِ انتظام ہونے کی وجہ سے اس شیعہ مسلم اقلیت کیلئے پناہ گاہ ثابت ہوا۔ بلوچستان کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے کا بیالیس فیصد ہے اور آبادی میں اس کا حصہ چھ فیصد تک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے بیچ دور دور تک آبادی کا کوئی نشان نہیں۔ بلوچستان کے اکثر علاقے تعلیمی اور معاشی اعتبار سے نہایت پسماندہ ہیں۔ بلوچستان کی چالیس فیصد آبادی پختون ہے جو دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ ساٹھ فیصد بلوچ آبادی اٹھارہ قبائل پر مشتمل ہے جس میں سب سے بڑے مری، بگٹی اور مینگل ہیں اور وہ قبائلی رسوم و رواج پر کاربند ہیں۔ پختون آبادی کی اکثریت کوئٹہ اور قندھار کے بیچ دیہاتی علاقوں میں رہتی ہے اور یہی دیہاتی علاقے افغان طالبان کی پناہ گاہیں بنے ہوئے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی کی طرح کوئٹہ بھی پختون بیلٹ سے بہتر مواقع کی تلاش میں شہر آنے والے دیہاتیوں کی منزلِ مقصود بن چکا ہے۔ پختون دیہاتوں سے ان شہروں کی طرف ہجرت کی پہلی لہر افغانستان پر روسی حملے کے دوران پیدا ہوئی اور دوسری بڑی ہجرت امریکا پر القاعدہ کے حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجے میں ہوئی۔ شومئی قسمت کہ ان دونوں بحرانوں کے دوران پختون دیہاتوں میں مذہبی علماء کی جہادی تبلیغ زوروں پر تھی اور وہاں جدید انسان دوست ثقافت کے بجائے سیاسی دیوبندیت کو لوگوں کی شناخت بنایا جا رہا تھا تاکہ انھیں جنگ میں کام لایا جا سکے۔ اس تبلیغ سے متاثر ہونے والے جو لوگ شہر آ گئے وہ یہاں جہاد کی تلاش میں نکل پڑے۔ دوسری طرف جو لوگ دیہاتوں میں رہ گئے تھے ان میں سیاسی دیوبندیت اپنی جڑیں مضبوط کرتی گئی اور نہ صرف وہاں مذہبی عسکریت پسندی پھیلی بلکہ انتخابات میں بھی ان علاقوں سے صوبائی اور وفاقی نشستوں پر دیوبندی علما  منتخب ہونے لگے۔

یہاں ایک غیر سیاسی مذہب اور سیاسی مذہب میں فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی مسلک یا مذہب سیاسی نظریہ بنا لیا جائے تو اس کا نتیجہ فاشزم ہوتا ہے، اور یہ بات کسی ایک مذہب یا مسلک تک محدود نہیں ہے۔ سیاسی دیوبندیت کی بنیادوں کو سمجھنے کیلئے 1831ء میں بالا کوٹ میں مارے جانے والے شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی کے افکار اور کردار کو سمجھنا ہو گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پختون علاقوں میں داعش طرز کی حکومت قائم کی۔ یہاں آنے سے پہلے انہوں نے اپنے آبائی علاقوں میں اہل تشیع پر حملوں کا آغاز کیا تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد اس ملک کو سید احمد بریلوی کی ریاست کی شکل میں ڈھالنے کا خواب دیکھنے والوں نے ہی ”تنظیمِ اہلسنت“ بنا کر نفرت پھیلائی اور پنجاب اور سندھ میں متعدد جلوسوں پر حملے کئے جن میں سب سے نمایاں 1963ء میں خیر پور کے گاؤں ٹھیری میں عاشورا کے دن 120 افراد کو قتل کرنے کا واقعہ ہےجن کی قبریں گنجِ شہیداں میں موجود ہیں۔ 1985ء میں تنظیمِ اہلسنت ہی کی کوکھ سے سپاہ صحابہ کا جنم ہوا۔
2006ء جنرل مشرف کے دور میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان میں بغاوت پھیل گئی اور پاکستان سکیورٹی اداروں کے محدود وسائل بلوچ بغاوت کو کچلنے میں صرف ہونے لگے جس کا فائدہ دیوبندی سیاسی تنظیموں نے اٹھایا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہزارہ برادری کے قتل عام میں تیزی آ گئی اور عالمی میڈیا میں کوئٹہ شوریٰ کا ذکر ہونے لگا۔ عالمی طاقتوں کے مسلسل دباؤ کے باوجود ہمارے سکیورٹی ادارے کوئٹہ شوریٰ کو ان دیہاتی علاقوں سے نکالنے کےلیے افغان طالبان کے میزبانوں کے خلاف آپریشن نہ کر سکے۔ کیونکہ حکومت ایک طرف بلوچ علیحدگی پسندوں میں الجھی ہوئی تھی تو دوسری طرف مفتی شامزئی صاحب کے جہادی فتوے کی وجہ سے وزیرستان اور سوات میں پھیلنے والی بغاوت کو کچلنے میں مصروف تھی۔
اب بلوچ علیحدگی پسندی کے خاتمے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا نہ ہی سکیورٹی ادارے کوئٹہ اور قندھار کے درمیان دیوبندی دیہاتوں میں آپریشن کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ مغرب مخالف جہاد ترک کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے جس سے افغانستان میں بھی دہشت گردی کی پناہ گاہیں بننے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ کوئٹہ اور ڈیرہ اسماعیل خاں جیسے شہروں میں رہنے والی شیعہ آبادی دیوبندی دیہاتوں سے ان شہروں کی طرف آنے والے گروہوں کے نشانے پر ہے اور موسمی تبدیلیوں کی بدولت دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت اگلی چند دیہائیوں میں مزید بڑھے گی۔ اب سیاسی قیادت اور انتظامیہ کیلئے ضروری ہے کہ ان حقائق کی روشنی میں نئی حکمت عملی ترتیب دیں۔

بڑے شہر اور تشدد

ماضی میں شہر وں کی آبادی چند ہزار افراد تک محدود رہتی تھی اور اکثر لوگ دیہاتوں میں رہتے تھے۔ پچھلے سو سال میں جدید ادویات کی ایجاد کی وجہ سے بچوں کی اموات کی شرح کم ہوئی جس سے دنیا کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ گئی۔ لیکن گاؤں میں زراعت کیلئے درکار زمین تو اتنی ہی تھی جو ماضی میں ہوتی تھی۔ سائنس کی بدولت شہروں میں جدید کارخانے لگے تودیہاتوں سے روزگار کی تلاش میں شہروں کی طرف ہجرت میں اضافہ ہوا۔ یوں آج کل کے شہروں میں کئی لاکھ لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور ماضی میں جس طرح کی آبادی کو شہر کہا جاتا تھا وہ اب قصبوں میں پائی جاتی ہے۔ جدید شہروں کی پیچیدہ زندگی کو سمجھنے اور اس سے جڑے مسائل کا حل کرنے کیلئے ماضی کے علوم کے بجائے جدید مغربی علوم سے رہنمائی لینا ہو گی۔ دنیا بھر میں سماجیات کے محققین اربنائزیشن ( یعنی شہروں کے پھیلاؤ) اور اسکے نتیجے میں ہونے والی وائلنس(یعنی تشدد اور دہشت گردی) کے درمیان تعلق پر مقالے لکھ رہے ہیں۔ ان مقالوں کی روشنی میں کوئٹہ اور ڈیرہ کے شہری شیعوں کے خلاف ہونے والے حملوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شہروں میں کمزور گروہوں کے خلاف تشدد کے کچھ اسباب یہ ہیں:
1. اکثریت سے تعلق رکھنے والی فسطائی جماعتوں، کہ جن کے پروگرام میں اقلیت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی، کو اقلیت غدار اور اپنے سیاسی عزائم کی راہ میں خطرہ معلوم ہوتی ہے۔ وہ اقلیت کو ختم یا کسی کونے میں محصور کر کے شہر کو مثالی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں۔ سماج کے مسائل کے اصلی محرکات تلاش کرنے کے بجائے اقلیت کی سازش کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ لوگوں کو اقلیت کے خلاف غصہ اور غیرت دلائی جاتی ہے۔ پاکستان کی فرقہ واریت کا یہ مادی و سیاسی پہلو اکثر تجزیہ نگاروں کی نظر سے اوجھل رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments