بے حسی، خوف اور ریاست

کتنا عجیب ہےکہ آپ کسی گمشدہ انسان کی تصویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لگا کر ساتھ میں گمشدہ انسان کے خاندان کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے چند الفاظ لکھیں، آپ اسکے ساتھ اپنی ایک پرانی تصویر لگا کر پھر سے افسوس کا اظہار کریں، آپکے بہن بھائی سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر آپکی اس سرگرمی کو دیکھ رہے ہوں اور تھوڑی دیر بعد آپکے فون کی گھنٹی بجے اوربہن بھائی یا والدین آپکو سمجھانا شروع کر دیں کہ آپ ایسا نہ کرو ، یہ نہ ہو آپ بھی اٹھا لئے جاؤ اور آپ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے شکوہ کرتے ہیں کہ میں گمشدہ فرد یا افراد کے لئے چند الفاظ بھی نہ کہوں ،تو بے حس کہلاؤں گا۔ والدین پھر سمجھاتے ہیں کہ دیکھو ہمیں آپکی جان عزیز ہے ایسا نہ کرو، آپ پھر مکا لمہ کرتے ہیں کہ نہیں یہ جبر ہے، ریاست کی نااہلی ہے، یہ غیر قانونی ہے، اگر کسی سے کوئی غلطی یا جرم ہوا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کرکے عدالت میں لے کے جانا چاہئے تھا۔
آپ گرامچی، سارتر ، پلیخانوف، ٹالسٹائی ، چیخوف، یونگ مو، مارٹن لوتھر کنگ ، احمد مختار، جمال الدین عبدالناصر، بھاشانی، البدر، مکتی باہنی ، ضیا الحق ، بھٹّو ، جمہوریت اور آمریت ایسے الفاظ کو جملوں میں استعمال کرتے ہوئے والدین کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جب جوش خطابت تھم جاتا تو آپکے والدِ گرامی آپکو نسبتاً دھیمے لہجے میں آپکی اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ چی گویرانہیں ہیں اور نہ ہی بھگت سنگھ جو کسی عقوبت خانے پر حملہ کر کے اپنے گمشدہ دوستوں کو آزاد کروا سکتے ہیں۔ آپکو ایسا لگتا ہے جیسے دو جہاں کی شفقت آپ کے والد میں عود آئی ہو۔ کیونکہ آج ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے وہ ایک حلیم لہجے سے آپ سے مخاطب ہوتے ہیں ، آج آپکا ہیرو آپکو بزدل لگتا ہے جو آپ کے لئے لڑنے کے لئے آپکو بچانے کے لئے تیار نہیں ، آپکو لگتا ہے آپکے والد کی تمام توانائیاں ختم ہو چکیں ، آج وہ کشادہ سینے اور مضبوط شانوں والا ایک بہادر انسان نہیں بلکہ ایک نہایت معمولی جسامت اور گرے شانوں والا ایک مجسمہ ہے، آج والد کی آواز مدھم ہے ، لگتا ہے آپکے والد کسی مصلحت کا شکار ہو کر کسی خفیہ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد اپنا قلم توڑ چکے اور نہیں چاہتے کہ آپکی کسی ایسی ویسی حرکت سے معاہدے کی کسی بھی شق میں طے کی گئی شرائط پر منفی اثر پڑے اور فریقین کے درمیان معائدہ قائم نہ رہ سکے۔
آپکی ماں آپ سے بات کرتے ہوئے روہانسی ہو جاتی ہے ، محبت کا سمندر جب ٹھاٹھیں مارتا ہے تو پانی اشکوں کی صورت آنکھوں سے باہر آتا ہے، شائد ماں آنے والے سانحے کے لئے تیار نہیں وہ تصوراتی آنکھ سے اپنے لخت جگر کو کسی عقوبت خانے میں پڑا دیکھتی ہے جہاں اسکے جسم پر تشدد کے داغ ہیں ، وہ اس کی آہ بکا کو سنتی ہے ، پیمانہ صبر لبریز ہو جاتا ہے ، ماں دھاڑیں مار کے رونا شروع کر دیتی ہے۔ فون بند ہو جاتا ہے۔
آپ اپنا موبائل ایک طرف رکھتے ہوئے اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپکے والدین کو کیا ہوا؟ کیا وہ بے حس ہو چکے؟ انہوں نے پہلے تو کبھی آپکو حق بات کرنے ، حق کا ساتھ دینے سے نہیں روکا، کیا وہ اپنے بیٹے کے لئے فطری شفقت کے پیش نظر ایسا کر رہے ہیں؟ یا کوئی خوف انہیں ایسا کرنے پر مجبو ر کر رہا ہے؟
خوف ؟ کونسا خوف؟ کس کا خوف؟ کیسا خوف؟
ریاست کا خوف؟ نہیں نہیں ریاست کا خوف کیوں؟ ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے؟ ماں جو اپنے حصے کا کھانا ، بچوں کو دے دیتی ہے، ماں تو خود گیلے بستر پر سوتی ہے مگر بچے کے آرام میں خلل نہیں آنے دیتی، ماں تو خدا کا اوتار ہے جس کو تخلیق کی صلاحیت عطا ہوئی اور ماں تو اپنے سب سے شریر اور نافرمان بچے کو بھی دل سے بددعا نہیں دیتی! کیا ریاست ایسی نہیں ہوتی ؟ ہاں اگر ریاست ماں جیسی ہوتی ہے تو مجھے ریاست اور ریاستی اداروں سے کوئی خطرہ نہیں ۔ آپ ٹھنڈی آہ بھر کے سوچتے ہیں کہ جو لوگ اغواء ہوئے ہیں ، اُن کا کیا قصور تھا؟
سلیمان حیدر تو ایک ریاستی ادارے کا ملازم تھا، اسٹنٹ پروفیسر، ایک دانشور ، ایک شاعر، ایک کالم نویس ، ایک ڈرامہ نویس اور ایک اداکار بھی۔ سلیمان حیدر کی کوئی بھی سرگرمی آپکو منفی نہیں لگتی، وہ تو انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے والا ایک کارکن تھا، جس نے کبھی بھی تشدد اور مارا ماری پر یقین نہیں رکھا ، وہ اکثر ایسے نغمے لکھتا تھا جو باضمیر انسانوں کو جھنجوڑتے تھے!
ہاں وہ پالیسیوں پر تنقید کرتا تھا ، وہ مسلک اور مذہب کے نام پر مرنے مارنے والوں کو آڑھے ہاتھوں لیتا تھا، وہ گمشدہ بلوچوں کے لئے شاعری کرتا تھا، وہ آمنہ مسعود جنجوعہ کے ساتھ پولیس کی ماریں کھاتا تھا ، وہ ماما قدیر کی مارچ میں اسکے ساتھ پیدل چلا تھا ، وہ ہزارہ برادری کے قتل عام کے خلاف پریس کلب کے سامنے بیٹھا تھا۔ آپ سوچتے ہیں کیا بلوچ ، آمنہ مسعود جنجوعہ ، ماما قدیر اور ہزارہ برادری اس ریاست کے شہری نہیں؟ کیا آرمی پبلک سکول کے بچوں کو تحفظ دینا ریاست کا کام نہیں تھا؟ کیا باچا خان یونیورسٹی کے طلباء اور پروفیسر باعزت شہری نہ تھے؟
ایک دم سے آپ کی سوچ سرحد کے اس پار پہنچ جاتی ہے، جہاں کشمیری 186 دنوں سے بھارتی ٖ فوج اور ریاستی پولیس کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں ، 200 سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں ، کتنے پیلٹ کی فائرنگ سے اندھے ہوچکے، آپ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ مائیں بیٹوں کی میت پر سینہ کوبی کرتی ہیں ، باپ گریہ زاری کرتے ہیں، بھارت دشمن ہے اسلئے اس کی پولیس نے انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کو گرفتار کر لیا تھا مگر پوری دنیا نے خرم پرویز کی گرفتاری کو بھارت کا بزدلانہ قدم قرار دیا۔ خرم پرویز رہا ہو گیا، یہ انسانی حقوق کےلئے کام کرنے والے انسانوں کی جیت تھی۔ آپ دیکھتے ہیں یٰسین ملک، علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق، شبیر شاہ، آسیہ اندرابی، فریدہ بہن جی اور کئی دوسرے کشمیری قائدین گرفتار ہو کر مقامی تھانے یا جیل میں جاتے ہیں یا انہیں نظر بند کیا جاتا ہے، آپ سنتے آئے تھے کہ بھارتی فوج کشمیری نوجوانوں کو اغواء کر کے قتل کر دیتی ہے، کیا سلیمان حید ر اور باقی ساتھیوں کو بھی پاکستانی فوج نے اغواء کیا ہو گا؟ نہیں نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا پاکستانی فوج اپنے ہی شہریوں کو کیوں اغواء کرے گی، فوج تو شہریوں کی محافظ ہو تی ہے اور پاک سر زمیں کی پاک فوج جو سرحدوں اور شہریوں کی حفاظت کا حلف دیتی ہے انہیں نقصان کیسے پہنچا سکتی ہے؟ اور فوج تو سیاسی حکومت کو جوابدہ ہوتی ہے۔۔۔ حکومت اور فوج کا آپس میں تعلق بھی تو سوالیہ نشان ہے۔۔۔۔۔ خیر جو بھی ہو ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔ پھر داحد بلوچ کو کس نے اغوا کیا تھا؟ کیا پتہ کیا معمہ ہے، واحد بلوچ بتا بھی تو نہیں رہے۔ بلوچی کیوں مر رہے ہیں؟آپ سر کو جھٹکتے ہیں اور اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سی پیک اور گوادر کی وجہ سے بھارت بلوچیوں کی مدد کر کے انہیں اکسا رہا ہے، اچھا تو بلوچی کیوں بھارت کی بات مان رہے ہیں؟ وجہ جاننے کی ضرورت نہیں !
آپکا خیال پھر والدین کی باتوں کی طرف جاتا ہے ،کیا وہ کوئی معاہدہ ، ارے نہیں کیسا معاہدہ ؟ ہاں تو پھر بے حس ہوچکے ، صرف اپنے لئے جینا چاہتے، اب کیا جئیں گے، ہاں اب ہی تو جی سکتے تما م بیٹے تعلیم یافتہ ، باروزگار اور بیٹیاں بھی ماشا اللہ پڑھ لکھ گئیں ، سلجھی ہوئی سگھڑ۔۔۔۔ پوتے پوتیوں کی فصل ، محنت اب بھی کرتے ہیں لیکن اتنی نہیں، اپنی مرضی سے جتنا کر سکیں ! آپ کو بے ساختہ خیال آتا ہے کہ آپکے والدین آپکو کھونے سے خوفزدہ ہیں انہیں خاندان کی ایک شاخ کٹ جانے کا خوف ہے۔ لیکن یہ خوف کیوں؟ ریاست کا نافذالعمل دستور تو ریاست کے باشندوں کی حفاظت اور بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔دستور کی رو سے ملزم پر جرم ثابت کرنے کے لئے قانون ملزم کو اپنی صفائی کا پورا حق دیتا ہے پھر خوف کیوں؟

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”بے حسی، خوف اور ریاست

Leave a Reply