مسلم لیگ نون کا مرد

میرے بہت سارے دوستوں نے اعتراض کیا کہ لاہور کے حلقے این اے ایک سو بیس سے نااہلی کے بعد میاں نواز شریف نے ٹکٹ اپنی اہلیہ، بیگم کلثوم نوازشریف کو جاری کیوں کر دیا ہے، یہ دوست خاندانی سیاست کے خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم نسل در نسل غلامی نہیں کر سکتے ( شاید ایک نسل کی غلامی ان کے لئے قابل قبول ہے ) اور یہی وجہ ہے کہ انہیں میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے ساتھ میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ بھی اچھی نہیں لگتی تھی مگر شہباز شریف کی پرفارمنس نے ان کے منہ کسی حد تک بند کر رکھے تھے، یہ منہ اسی حد تک بند ہیں جب تک کوئی غلطی کوئی سانحہ نہیں ہوجاتا، شریف خاندان کی قسمت بہت اچھی ہے کہ دولت اور اقتدار کی دیوی ان پر مہربان رہتی ہے ورنہ ان کے مخالفین کی تعداد بھی کوئی کم نہیں ہے۔ میں تقدیر کے اس کھیل کو حیرانی سے دیکھ رہا ہوں کہ شریف خاندان اقتدار میں ہونے کے باوجود پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہے، یار لوگ ا س خاندان پر تنقید تو بہت کرتے ہیں مگر اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ کیا یہ پاکستان کا واحد خاندان ہے جس پر الزامات ہیں؟

بات بیگم کلثوم نواز شریف کو لاہور کے اس حلقے سے ٹکٹ دینے کی ہے جس میں میاں نواز شریف اگر کھمبے کو بھی ٹکٹ دیں گے تو وہ کامیاب ہوجائے گا، یہ بات درست کہ 2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس حلقے سے پچاس ہزار سے زائد ووٹ لئے تھے مگر یہ بات بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان ووٹوں کا فرق چالیس ہزار کا تھا۔ یہاں میں ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس کسی نے بھی عام انتخابات میں شیر پر ٹھپہ لگایا تھا وہ اب تک شیر کے نشان کے ساتھ ہے مگر دوسری طرف ہمیں بہت سارے ایسے لوگ مل سکتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا مگر اب نہیں دیں گے۔ اس حلقے کے ووٹر اپنے آپ کو وی آئی پی سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جس بھی سرکاری ادارے میں جائیں، انہیں سلیوٹ ،کرسی اور چائے پیش کی جائے، ووٹروں اور سرکاری اداروں میں تعلق ارکان اسمبلی کے ذریعے ہے۔ مسلم لیگ نون کے فیصلہ سازوں کے پاس عام انتخابات سے پہلے ہی یہ رپورٹیں پہنچ چکی تھیں کہ اس حلقے کے علاقے مزنگ سے رکن پنجاب اسمبلی آجاسم شریف ووٹروں اور کارکنوں کو دستیاب نہیں ہوتے۔

مسلم لیگ نون کی مقامی اور مرکزی قیادت کے ساتھ میاں شریف کے اختلافات بڑھتے چلے جا رہے تھے اور صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ آجاسم شریف کو پارٹی ٹکٹ نہیں ملے گا۔جب ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو آجاسم شریف کا حلقہ حمزہ شہبازشریف کے قریبی ساتھی اور کمٹڈ کارکن ماجد ظہور کو دے دیا گیا، آجاسم شریف نے توقعات کے عین مطابق تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی، بلال یٰسین دوبارہ این اے ایک سو بیس کے نیچے صوبائی حلقے سے اکاموڈیٹ ہو گئے، خواجہ عمران نذیر کوراوی پار شاہدرہ بھیج دیا گیا مگر اس نوجوان نے اف تک نہ کی اور اسے انعام یہ ملا کہ وہ پارٹی کے گڑھ صوبائی دارالحکومت کا جنرل سیکرٹری بھی بنایا گیا،اسے پہلے پارلیمانی سیکرٹری ہیلتھ اور اس کے بعد اسی محکمے کے ہی ایک حصے کا وزیر بنا دیا گیا،مکمل صوبائی وزیر۔بات ٹکٹ پر اعتراض سے شروع ہوئی ہے ۔

پاناما کیس کا عدالتی فیصلہ آنے کے فوری بعد فیصلہ تھا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف یہاں سے الیکشن لڑیں گے اور وزیراعظم کا عہدہ سنبھالیں گے مگر پھر وہ فیصلہ تبدیل ہو گیا۔ میاں نواز شریف نے جس طرح شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تھا بالکل اسی طرح انہوں نے بیگم کلثوم نواز کو اپنا حلقہ دینے کا فیصلہ بھی کیا۔ اب مسلم لیگ نون کے ایک مرکزی رہنما اور اپنے تئیں کرشمہ ساز قیادت سمجھے جانے والے چودھری نثار علی خان کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف مشاورت کے بغیر فیصلے کر رہے ہیں،انہیں پاناما کیس کے بعد پارٹی کی قائم مقام صدارت سمیت بہت سارے معاملات پر تحفظات ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کی ٹکٹ پر اعتراض کرنے والوں کو چوھدری نثار علی خان کے بیانات بہت اچھے لگ رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ چوھدری نثار علی خان اور ان کے ہم نوا عین اس وقت اختلاف کیوں کرتے ہیں جب ان کے قائدین مشکل میں ہوتے ہیں چاہے اس وقت فوجی مارشل لاء ہو یا کسی قسم کا عدالتی مارشل لاء۔مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ پرویز مشرف کے مارشل لاء میں جس وقت بیگم کلثوم نواز آمریت کا مقابلہ کر رہی تھیں اس وقت چوھدری نثار علی خان اپنے گھر بلکہ موٹر وے پر انجوائے کر رہے تھے، شریف خاندان کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ جب بیگم کلثوم نواز اٹک قلعے میں اپنے اسیر شوہر سے ملنے جایا کرتی تھیں تو موٹر وے پر کس کی گاڑی ریسٹ ایریا میں ملا کرتی تھی۔ جب میٹھا میٹھا ملتا ہے تو سب کھانے آجاتے ہیں جب کڑوا کڑوا ہوتا ہے تو کم ظرف تھو تھو کرنے لگتے ہیں۔

میں بھی بیگم کلثوم نواز کو ٹکٹ دینے کی مخالفت کرتا اگر میں نے ان کی جدوجہد نہ دیکھی ہوتی، ہاں میں نے بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی ضیاء الحق کے خلاف تحریک نہیں دیکھی مگربیگم کلثوم نوازکی دھواں دھار مزاحمت کا ضرور گواہ ہوں،میں نے دیکھا کہ ایک نہتی عورت نے بندوقوں والے غاصب آمر کو ناکوں چنے چبوا رکھے تھے ۔میں ان دنوں ایک اردو اخبار کا چیف رپورٹر ہوا کرتا تھا کہ ہمارے سپیشل کارسپانڈنٹ جو بیوروکریسی میں بہت اچھے تعلقات رکھتے تھے، اس وقت کے چیف سیکرٹری حفیظ اختر رندھاوا کو اخبار کے دفتر میں لے آئے تھے، ان کی خواہش تھی کہ بڑی بڑی مونچھوں والے چیف سیکرٹری کا بڑا سا انٹرویو کیا جائے، بہت بولنے والے حفیظ اختر رندھاوا کبھی شریف خاندان کے پسندیدہ افسر نہیں رہے وہ پرویز مشرف کے چیف ایگزیکٹو بنتے ہی پنجاب کے چیف سیکرٹری مقرر ہو گئے تھے، میرے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے اقرار کیا تھا کہ ان کی نظر میں مسلم لیگ نون میں دو ہی مرد ہیں، ایک بیگم کلثوم نواز اور دوسرے تہمینہ دولتانہ۔

یاد رہے کہ اس وقت تک تحریک تحفظ پاکستان میں نہر کنارے کرین سے محترمہ کلثوم نواز شریف کی گاڑی اٹھائے جانے کی ایپی سوڈ ہو چکی تھی۔جن کو وہ واقعہ یاد نہ ہو ان کے لئے دہرائے دیتا ہوں کہ بیگم کلثوم نواز شریف ، تہمینہ دولتانہ ، چودھری صفدر اور دیگر کے ساتھ اپنے گھر سے احتجاجی جلوس کی قیادت کرنے کے لئے نکلی تھیں، پولیس کی بھاری نفری انہیں گھر سے نکلنے میں روکنے سے ناکام رہی تھی، ایک وقت یہ آیا کہ کینال روڈ پر بیگم کلثوم نواز شریف کی گاڑی کو کرین کے ذریعے اٹھا لیا گیا ور جی او آر منتقل کر دیا گیا مگر ان دونوں خواتین نے ہتھیار نہ ڈالے، پولیس گاڑی کو کھولنے، انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہی حتیٰ کہ دن ڈھل گیا اور رات گہری ہو گئی تو آخرکار اس گاڑی کو ماڈل ٹاون منتقل کرنا پڑا۔ یہ ایک عجیب و غریب صورتحال تھی جسے آج برسوں کے بعد اس طرح بیان نہ کیا جا سکے جس شدت اور جذباتیت کے ساتھ ایک آمر کے خلاف یہ اس وقت وقوع پذیر ہوئی تھی۔

 

مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ اگر بیگم کلثوم نواز شریف کی مردانہ وار جدوجہد نہ ہوتی تو شائد اس وقت کا آمر ، منتخب وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے اور زنداں میں پھینکنے کے بعدموت کی سزا دینے میں بھی کامیاب ہوجاتا مگر بیگم کلثوم نواز نے اپنی سیاست سے اس حد تک دباؤ کا شکار کر دیا کہ وہ جلاوطنی کا آپشن قبول کرنے پر تیار ہوگیا، میری نظر میں اس آمر کا آئی کیو لیول بہت کم تھا مگر اسے کم از کم اتنی سمجھ ضرور آ گئی تھی کہ اگر اس نے اپنے ارادے پر عمل کر لیا تو یہ نواز شریف اس کے لئے ایک ڈراونا خواب بن جائے گا مگر شائد اب اس سے بھی کم آئی کیو والے فیصلے کر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیگم کلثوم نواز کی جدوجہد کا دورانیہ بہت زیادہ طویل نہیں تھا مگر تھوڑے عرصے میں بہت زیادہ اثرات کا حامل رہا۔میں نوجوان، کارکن صحافی کے طور پر ماڈل ٹاون کے گھر میں ڈرائنگ روم میں اپنے دو سینئر ساتھیوں کے ہمراہ بیگم کلثوم نوازکی باتیں سنا کرتا تھا، وہ کہتی تھیں کہ وہ مکمل ہاوس وائف ہیں، میاں نواز شریف کی اسیری کی وجہ سے سیاست میں ہیں، جب میاں نواز شریف رہا ہوجائیں گے تو ہم لوگ انہیں سیاست میں نہیں دیکھیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ اب ایک مرتبہ پھر میاں نوازشریف پر حملہ ہوا ہے تو بیگم کلثوم نواز شریف ایک مرتبہ پھر میدان میں نکلنے کے لئے تیار ہیں جو ہماری باوفا مشرقی خواتین کی فطرت کا خاصہ ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ میں نے بیگم کلثوم نواز کو اس آمر سے لڑتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی یہی کہتا کہ میاں صاحب ٹکٹ اپنی اہلیہ کو دینے کا کیا جواز ہے مگر میں تاریخ کا شاہد ہوں، جانتا ہوں کہ ان سے زیادہ میرٹ کسی کا نہیں بنتا۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply