• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اتحاد امت کا فروغ اور علمائے دین کی ذمہ داریاں ۔مولانا صاحبزادہ احمد ہادی

اتحاد امت کا فروغ اور علمائے دین کی ذمہ داریاں ۔مولانا صاحبزادہ احمد ہادی

فرقہ وارانہ دہشت گردی پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ہزاروں افراداس فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں جن میں پروفیسر، دانشور، علماء ، وکلاء ، تاجر، ڈاکٹر ، انجینئر، سول و عسکری آفیسرز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاوہ نوجوان، طلبہ، بچے، بوڑھے اور خواتین شامل ہیں جن کو محض مسلکی وابستگی کی بنا پر نشانہ بنایا گیا ۔اس تشدد اور انتہا پسندی کی وجہ سے ایک طرف خوف اور منافرت کی فضا عام ہو رہی ہے اور دوسری طرف اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ رجحان عالمی سطح پر پاکستان کے وقار اورتشخص کونقصان پہنچا رہا ہے ۔

اختلاف رائے میں کوئی عیب نہیں مگر آج بعض مقامات پر ہمارے مسلکی اختلافات دشمنی وعناد، الزام تراشی، کذب و افتراء یہاں تک کہ ایک دوسرے کی تکفیرسے بڑھ کر خون ریزی کی حد کو پہنچ گئے ہیں۔مذہبی حلقوں میں باہمی عداوتوں کے نتیجے میں دین اسلام کو بدنام اور مورد الزام ٹھہرایا جارہاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری سماجی و سیاسی زندگی پر بھی بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔مسلکی اختلاف کی اس دلدل میں مذہب کی اعلی اقدار اور اخلاقیات کومکمل نظر انداز کر دیا گیاہے۔
فرقہ واریت صرف مذہبی طبقے میں نہیں مگر دیگر طبقات میں بھی پائی جاتی ہے۔زیرنظر کالم میں فرقہ واریت کے خاتمے اور بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لئے چند تجاویز اور لائحہ عمل پیش خدمت ہے ، یہ تجاویز علماء کے لئے ہے،اس لئے کہ علماء معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ایک بنیادی کردار ادا کررہے ہیں لہٰذا اگر وہ اس طرف متوجہ ہوئے تو معاشرہ بہت جلد امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

اتحاد امت کا فروغ اور علمائے کرام و مذہبی سکالرزکی ذمہ داریاں
1: اتحاد واتفاق کے بیانیہ کو خطبات جمعہ، تقاریر اور درس و تدریس کا حصہ بنائیں۔
2: بحیثیت وکیل امن اس جیسے دستاویز کوفروغ دینے کے لئے بذات خود بین المسالک مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کر سکتے ہیں۔
3: شدت پسند عناصر کی جانب سے بطور دلیل استعمال کی جانے والے مذہبی اصطلاحات اور فتاویٰ کی عصری تناظر میں تعبیر نو کی کوشش کریں۔
4: نہی عن المنکر، فتنہ اور جہاد کے احکام، اصطلاحات کی تشریح کے لئے تمام مسالک کے علما کی جانب سے متفقہ تحقیقی و توضیحی مواد کی تیاری ۔
5: اہم مسائل پرکسی ایک عالم سے فتویٰ لینے کی بجائے تمام مسالک کے مذہبی سکالرز مل بیٹھ کر اعلامیہ جاری کریں ، شورائی تحقیق اجتہاد جس میں کسی مسلک کی چھاپ نہ ہو اس مسئلہ کا حل ہے۔

6: مختلف مسالک کے مابین باہمی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوئی عملی صورت بنائیں جس میں دوسروں کے دلائل اور موقف سے براہ راست آگاہی ہو۔
7: عقیدے اور کلامی مباحث پر مناظروں سے حتی الامکان اجتناب کریں اورمختلف مسالک کے طلبہ اورعلما کے لیے ایک دوسرے کے یہاں آنے جانے کے مواقع پیداکیے جائیں۔
8: ہر ایک مسلک اپنے نمائندہ علماء پر مشتمل ایک متفقہ کونسل بنائے جو اس مسلک کے موقف کی وضاحت کرے اور اختلافات دور کرنے میں معاون ثابت ہو۔ جو لٹریچر کسی مسلک کی معتبر شخصیات کی جانب سے اجتماعی حیثیت سے سامنے آیا ہو اس کا اعتبار کیا جائے، کسی مسلک کے کسی ایک عالم کی فرقہ واریت پر مبنی انفرادی رائے یا قول کا اعتبار نہ کیا جائے۔
9: منبر و محراب سے اخلاقیات (رواداری، احترام انسانیت، قانون کا احترام، انسانی و شہری حقوق و عمومی اخلاقیات)کی تعلیم و تربیت کو لازمی بنائیں۔ حفاظت دین کی بجائے اشاعت دین کی حکمت علمی اپنائیں۔
10: عوامی سطح پر بین المسالک باہمی رواداری کی مثالوں کو فروغ دیں۔ اکابرین علماء بغیر کسی خوف کے ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کام کریں اور انتشار پھیلانے والوں کی گرفت کریں۔مختلف مسالک کے علمائے کرام دوسرے مسالک کے مدرسے میں جا کر گفتگو کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

11: تمام مسالک کے علماء پر مشتمل ایک کونسل قائم کی جائے جو خطبات جمعہ کے لئے مشترکہ موضوعات تیار کر ے۔
12: بین المسالک سماجی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے کئی طرح کی سرگرمیاں متفقہ طور پر ترتیب دیں جیسے قرات، نعت خوانی اور تقاریر کے مقابلے، کھیلوں کے مقابلے وغیرہ۔
13 علمائے کرام کو ان اسباب کا بھی جائزہ لینا ہو گا جو تکفیر کا باعث بنتے ہیں۔ اور تمام مسالک کے علماء کو یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ کسی بھی اختلافی موضوع پر غیر محتاط بیانات سے گریز کریں۔ بالخصوص شان الوہیت، شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ، عظمت صحابہ و اہل بیت کے متعلق غیر محتاط الفاظ و بیانات سے پرہیز کریں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply