• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • لوگوں میں بڑھتی ہوئی بے یقینی اور ہمارا فرض ِ منصبی۔۔۔اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

لوگوں میں بڑھتی ہوئی بے یقینی اور ہمارا فرض ِ منصبی۔۔۔اسانغنی مشتاق احمد رفیقیؔ

دنیا جس تیزی سے ترقی کی طرف بڑھ رہی ہے ،اسی تیزی سے اپنا اعتبار بھی کھوتی جارہی ہے۔ ہر چیز پر بے یقینی کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ انسان اپنی زندگی کو پُر کیف بنانے کے لئے آرام و آسائش کے ممکنات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوتا جارہا ہے لیکن زندگی کی بے یقینی کو یقین سے بدلنے میں ٓج بھی ناکام ہے۔ آسمان پر کمندیں ڈالنے والا، چاند اور ستاروں کو فتح کر لینے کا دعویدار، سمندر کی تہہ کو چھو آنے والا، خلاؤں کو اپنے وجود کا احساس دلانے ولا انسان، جب ایک جرثومے سے ڈر کر چوہوں کی طرح اپنی بلوں میں چھپنے لگتا ہے، تو حیرت ہی نہیں، اپنے آپ پر اپنی نام نہاد صلاحیتوں پر اُس کی بے یقینی نمایاں ہوتی ہے۔

تعجب ہوتا ہے جب یہ بے یقین انسان ایک ایسی دنیا کے لئے جس کے موسم کا، اگلے پل کا کوئی اعتبار نہیں،رنگ و نسل، مذہب اور خدا  اور اپنے قائم کردہ نام نہاد جغرافیائی حدود کے نام پر اپنے ہی جیسے انسانوں کا بے دریغ خون بہاتا ہے، اُن کے ساتھ جانوروں کے جیسا سلوک کرتا ہے، اُنہیں کتے کے پلّے سے تشبیہ دے کر اُن کی ذلیل کرتا ہے، اُن کے لباس پر اُن کے طرز معاشرت پر اُن کے کھانے پینے کی  عادات میں دخل دے کر اُن پر اپنی رائے مسلط کرتا ہے اور اُنہیں غلام ہونے کا احساس دلا کر خوش ہوتا ہے۔ حالانکہ خود اُس کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ رنگ ونسل، ذات پات، مذہب، جغرافیائی حدودسب اُسی کے جیسے بے یقین انسانوں کے قائم کردہ نظریات ہیں جن کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ ہزاروں سالوں سے ان پر لڑ کر کروڑوں انسان مر کھپ گئے، قومیں تباہ وبرباد ہوگئیں، تہذیبیں ملیامیٹ ہوگئیں لیکن کسی کو ان نظریات کی  بنیاد پرپائیداری نصیب نہیں ہوسکی۔ پھر بھی ایسا کیوں ہے کہ ہر آئے دن کوئی نہ کوئی ان فرسودہ نظریات کو نیا چوغہ پہنا کر دنیا جیتنے کے لئے نکل پڑتاہے اور اپنے قول و فعل سے شر و فساد، جنگ و جدال، تباہی و بربادی کی داستانیں رقم کرنے لگتا ہے۔

در حقیقت یہ اُس کے اندرون میں چھپی اپنی ذات اور نظریات پر بے یقینی ہے جو اُسے اپنے ہی جیسے انسانوں پر تشدد کرنے کے لئے اُکساتی ہے۔ بے یقینی کا کرب سچ مچ بہت اذیت ناک ہوتا ہے، وہ انسان کو جنونی، متشدد ذہنی مریض بنادیتا ہے۔ جب اس بے یقینی کے ساتھ زندگی کے وسائل پر بھی اُس کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے، اُس کا اعتماد مجروح ہونے لگتا ہے تو وہ بے قابو ہوجاتا ہے، اُس سے ایسے ایسے افعال صادر ہونے لگتے ہیں جن پر حیوانیت کو بھی شرم آجائے۔ مذہبی ٹھیکیدار اور سرمایہ دار طبقہ انسانوں کی  اس نفسیات سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور اپنے مفاد کے لئے ان کا کامیاب استحصال کرتے رہتے ہیں۔ وہ جب یہ دیکھتے ہیں انسانوں کا ایک بڑا طبقہ بے یقینی کا شدت سے شکار ہوچکا ہے تو اُس پر زندگی کے وسائل تنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس کی وجہ سے جب یہ عامی طبقہ بے قابو ہونے لگتا ہے تو اُس کا رخ اپنے دشمنوں کی طرف موڑ کر اپنے مفادات کے تحفظ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے صفحات اس کی مثالوں سے بھری پڑے  ہیں۔

اگر انسانوں کے درمیان امن و امان قائم کرنا ہے تو پہلے ان میں بے یقینی کی فضا کو ختم کرنا ہوگا۔ ایک ایسے نظریے کو رواج دینا ہوگا جس کی بنیاد رنگ و نسل، مذہب و خدا، ذات پات، دولت و ثروت پر نہیں بلکہ انسانی مساوات پررکھی گئی ہو، جس کے سائے تلے انسانوں کو آزاد زندگی گزارنے کا حق ملے اور اُس کے جان و مال کو تحفظ فراہم ہو۔ کسی بھی درجے پر کسی بھی بات کو لے کر اُس کے ساتھ بھید بھاؤ نہ کیا جائے۔ لیکن یہ نظریہ کسی انسان کا نظریہ نہ ہو، جس کے تجربات ہر آنے والے دن خود اُس کے قائم کردہ اصول وضوابط کی نفی کرتے ہوں۔ انسانی تاریخ گواہ ہے ایسا نظریہ صرف اور صرف اسلام فراہم کرتا ہے۔ اسلام کوئی مذہب نہیں بلکہ خالق کائنات کی جانب سے انسانوں کے لئے ایک رہنمائی ہے جو اُسے بے یقینی کی دوزخ سے نکال کر یقین کی جنت میں داخل کراتی ہے، جہاں پہنچ کر وہ قول و فعل کی  صداقتوں سے سرشار ہوکر، اپنی ذات کا ایقان حاصل کرتا ہے۔اُسے یقین کی ایک ایسی آگہی حاصل ہوتی ہے جس کے آگے نار نمرود بھی فردوس بریں نظر آتی  ہے، اُس کا سفینہ وقت کے طوفانوں کو شکست دے کر امن کے کوہ   پر لنگر ڈالتا ہے، جو جانی دشمنوں کو اور اس کو سخت اذیت میں مبتلا رکھنے والوں کو اُن پر اختیار حاصل ہونے کے  بعد اُنہیں معاف کرنے کی قلبی کشادگی دیتا ہے۔

لیکن افسوس، خالق کائنات کی  اس عظیم نعمت کے حاملین، اپنے فرض منصبی سے غافل، بے یقینی کے اس بڑھتے ہوئے اندھیرے کے آگے دعوتِ یقین کی مشعلیں روشن کرنے سے نہ صرف کترا رہے  ہیں بلکہ گھبر ا بھی رہے  ہیں۔ دنیاوی آرام و آسائش میں پھنس کر اپنا اعتبار کھو رہے  ہیں۔ لایعنی بحثوں میں الجھ کر، انانیت، ہٹ دھرمی اور اندھی تقلید جیسی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوکراپنے مقام سے ہٹ رہے ہیں۔اُنہیں اس  بات کی فکر بڑی شدت سے ہے کہ آنے والے دنوں میں اُن کا کیا ہوگا،مستقبل میں اُن کی  نسلوں کا کیا ہوگا؟ لیکن اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ اُن کے فرض سے غفلت کے نتیجے میں انسانیت پر جو تباہی وارد ہورہی ہے اس کا مداوا کیسے ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

بے یقینی کے صحراؤں میں بھٹکتی،العطش العطش پکارتی انسانیت کو جب تک یقین کا جام نہیں پلایا جائے گا، جب تک بے یقینی کے ناسور کے کرب میں مبتلا انسانوں کو یقین کی آگہی کا مرہم نہیں لگایا جائے گا، دنیا میں امن و امان قائم نہیں ہوسکتا۔ اسکی راست ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ یہ ہم میں سے ہر ایک کو  سوچنا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply