“جی آیاں نو تے ست بسم اللہ” — بلال شوکت آزاد

ایک تلخ سچ ہے, مجھے بابے کوڈے سے ملانے کی کوشش نہ کی جائے, نہ ہی یہ کوئی نسل پرستی اور عصبیت کا شاخسانہ ہے۔

بس ایک کڑوا سچ ہے جو غیر جانبداری سے لکھ رہا ہوں لہذا غیر جانبداری سے ہی پڑھیئے گا اور سمجھیئے گا۔

پختون اٹھے پنجابی کی ماں بہن برابر کردے, بلوچ اٹھے پنجابی کی ماں بہن برابر کردے, بلتی اٹھے پنجابی کی ماں بہن برابر کردے, کشمیری اٹھے پنجابی کی ماں بہن برابر کردے, سندھی اٹھے پنجابی کی ماں بہن برابر کردے, مکرانی اٹھے پنجابی کی ماں بہن برابر کردے, مہاجر اٹھے پنجابی کی ماں بہن برابر کردے, سرائیکی اٹھے پنجابی کی ماں بہن برابر کردے اور پہاڑی اٹھے پنجابی کی ماں بہن برابر کردے لیکن ان سب کے انفرادی یا اجتماعی طور پر پنجابی کی ماں بہن برابر کرنے سے نا تو پنجابی کو فرق پڑتا ہے نا ہی غصہ آتا ہے بلکہ ترس آتا ہے کہ کس طرح ان کو شعور, تعلیم اور ترقی سے انہی کے وڈیروں, سرداروں اور لیڈروں نے دور رکھا سالوں تک پر یہ اس کا ذمہ پنجابی پر ڈال کر پاکستانیت کو بیچ چوراہے نیلام کررہے ہیں (میرے مخاطب پوری تحریر میں نسل پرست ہیں ہر صوبے اور زبان کے نا کہ سارے پاکستانی) جبکہ ایک پنجابی ہے جو پختون, بلوچ, بلتی, کشمیری, سندھی, مہاجر, سرائیکی اور پہاڑی کو ہر حال میں صرف پاکستانی سمجھتا, بولتا اور لکھتا ہے اور ان کی ماں بہن کو اپنی ماں بہن سمجھتا ہے کہ نسل پرستی اور عصبیت کا ادھر کوئی ٹھکانہ نہیں, اور تو اور اگر پنجابیوں میں کوئی نسل پرستی کا بیج بونے اور عصبیت کا جھنڈا لہرانے کی کوشش کرے تو محب وطن پنجابی خود اس کا قلع قمع کردیتے ہیں۔

بڑی بات کرنے جارہا ہوں پر آج کروں گا کہ جس دن پنجابی اٹھے اور پختون, بلوچ, بلتی, کشمیری, سندھی, مہاجر, سرائیکی اور پہاڑیوں  والا رویہ اپنانے پر آئے   عصبیت, لسانیت اور جہالت کے دم پر تو چراغوں میں روشنی نہیں رہنی یہ بات مورخ بہت اچھے سے جانتا ہے, اب تک پاکستان کی بقاء پنجابیوں (خواہ یہ بزدلی اور ذہنی غلامی شمار ہو یا حب الوطنی) کے دم پر ہے کہ یہ خود بھی وحدانیت کے خلاف نہیں اور دیگر صوبوں کی ہر طرح کی ظاہری و باطنی نفرت کو برداشت کرکے پاکستانیت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔

پختون, بلوچ, بلتی, کشمیری, سندھی, مہاجر, سرائیکی اور پہاڑی ہمارے بھائی ہیں اسلام کی رو سے اور پاکستان کی وجہ سے لہذا ان کی جائز خواہشات پوری کرنا اور ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہمارا فرض ہے لیکن پختون, بلوچ, بلتی, کشمیری, سندھی, مہاجر, سرائیکی اور پہاڑی بھائی بھی ماں بہن سانجھی سمجھ کر اپنے سوکالڈ وڈیروں, سرداروں اور لیڈروں کی جاہلانا روش مت اپنائیں کہ اپنی نااہلیوں اور مفاد پرستی کی وجہ سے ہوئے نقصانات کا ذمہ پنجابیوں پر ڈال کر پاکستانیت کا گلا گھونٹیں۔

امید ہے کہ بات کی گہرائی کو سمجھا جائے گا اور اس تحریر کو عصبی و لسانی رنگ دے کر سطحیت کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا کہ الحمداللہ  برسوں سے میرا قلم اسلام اور پاکستان کے لیئے چلا ہے پوری جانبداری اور محبت سے لیکن آج اس موضوع پر میرا قلم غیر جانبداری سے چلا ہے جس میں ایک درد اور خلش ہے جو میں باوجود بار بار خود کو روکنے کے روک نہیں پایا کہ بحث بڑھتی ہی جارہی ہے پنجابیوں کا نام لیکر, جس کا ٹکے کا فائدہ نہیں کہ پنجابیوں کا دل بڑا ہے ہمیشہ کی طرح کہ جس نے پنجاب میں آنا ہے آئے, جائیدادیں بنائے, کاروبار سجائے, شادیاں کرے, تعلیم حاصل کرے, ادھر ہی نوکری کرلے اور ہمیشہ کے لیئے یہیں کا ہوجائے۔

میرے دو کولیگ نسلی پختون ہیں پر ان کے دادا وغیرہ ادھر آئے اور ادھر کے ہورہے تو ان دو کو بس نام کی حد تک معلوم کہ وہ خان ہیں پر زبان ٹھیٹھ پنجابی ہے انکی جبکہ ان کے سبھی رشتہ دار کے پی کے میں رہتے ہیں جن کو پنجابی نہیں آتی بلکہ وہ اردو اور پشتو ہی جانتے ہیں, بتانے کا مقصد یہ کہ ایسا ہے پنجاب جہاں دوسرے صوبے والوں سے محبت اور انسیت کا لیول یہ ہے کہ اپنی زبان تک دیدی کہ لو “جی آیاں نوں” اور “ست بسم اللہ جی ست بسم اللہ”۔

پاکستان سب کا ہے اور سب صوبے پاکستان اور پاکستانیوں کے ہیں۔

اور ہاں کیا یہ اچھی اور لائق تعریف بات نہیں کہ پنجابیوں نے کسی پنجابی منظور پشتین, ہربیار مری, الطاف حسین اور جی ایم سید کو پنجاب میں تحریک کھڑی کرنے تو دور بلکہ پیدا ہی نہیں ہونے دیا؟

بات بہت گہری ہے ذرا دل سے غور کرکے سمجھنا اور سوچنا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سب سے پہلے اسلام اور پاکستان۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply