امی جان کے نام۔۔سید عمران علی شاہ

انسان کو کائنات کی تمام مخلوقات پر فضیلت اور فوقیت عطاء کی گئی، اس کو دنیا جہان کی تمام تر نعمتوں سے نوازا گیا، انسان کے اس عطاء کردہ رتبے کا احاطہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ، پروردگار نے اسے یہ عزت و توقیر اس بنیاد پر عطاء فرمائی تاکہ، انسان دنیا میں اپنے ساتھ منسلک رشتوں، لوگوں اور دیگر مخلوقات کے لیے محبت، احساس اور درد دل سے بھرپور جذبات سے سرشار ہوکر، ان کے لیے راحت و آسانی کا باعث بنے۔

ویسے تو ہر ایک انسانی رشتہ اپنی ذات میں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا، چاہے وہ دوست کا رشتہ ہو، بہن، بھائی، شوہر، بیوی، بیٹی، بیٹے یا ماں باپ کا  ، ہر ایک رشتہ مقدم اہم اور نہایت ضروری ہوا کرتا ہے،لیکن دنیا کے تمام رشتوں میں سب  سے پیارا اور عظیم رشتہ ماں کا ہوتا ہے۔

ماں کے رشتے کی چاشنی ہر ایک رشتے سے الگ اور بڑھ کر ہوا کرتی ہے، ماں کی محنت کا احاطہ کرنے کے لیے شاید الفاظ کم پڑ جائیں مگر پھر بھی اس رشتے کی محبت کا اندازہ تک نہیں لگایا جا سکتا، اسے کسی طور بھی الفاظ کی بندش میں محصور نہیں کیا جا سکتا، ماؤں کی بھوک اتنی عجیب ہوتی ہے کہ جب تک اس کے سب بچے اپنا پیٹ نہ بھر لیں، ماں کو بھوک ہی نہیں لگتی، بچوں کی پیدائش سے لے کر ان کی تعلیم، تربیت حتیٰ کہ ان کی شادیوں کے بعد اپنے بچوں کے بچوں کی بھی خدمت پوری محبت اور ذمہ داری سمجھ کر کرتی ہیں  اور سب سے بڑی بات ماؤں کی زندگی میں چھٹی کا تصور ہی نہیں ہوتا
، بقولِ شاعر
ایک بس خدا نہیں ہوتی
ورنہ ماں کیا نہیں ہوتی

میں  نے جب باقاعدہ طور پر لکھنا شروع کیا تو میں نے اپنے قلمی نام “اعجازِ قلم” کو اپنے پیارے ابو جان، سید اعجاز حسین بخاری، حبیب بنک منیجر (ریٹائرڈ) کے نام سے منسوب کیا، جس پر ان کے بہت سارے دوست احباب نے مجھے بے تحاشا  محبت سے نوازا، اسی قلمی نام کے ذریعے سے میں نے بہت سارے اہم مسائل پر اپنا قلم اٹھایا مگر میری یہ  تحریر کافی ذاتی نوعیت کی اور میری مرحومہ امی جان کے لیے ہے۔

میری والدہ سید عذرا پروین رضوی نے اپنے دور  میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور رئیس اعظم لیہ ڈاکٹر سید فضل حق (مرحوم) کے گھر آنکھ کھولی، ڈاکٹر فضل حق رضوی شاعر، ادیب، سماجی اور سیاسی راہنماء تھے، بہت ساری کتب کے مصنف بھی رہے، ڈاکٹر سید فضل حق رضوی کی تین ازواج سے 17 بچے تھے، 6 بیٹے اور 11 بیٹیاں، جنوبی پنجاب میں سب سے قدیم ہومیوپیتھک ہسپتال اور ہومیوپیتھک میڈیکل کالج بنوایا، ڈاکٹر صاحب خود اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اسی لیے اپنے بچوں کو بھی تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے،ان کی اولاد میں سید اسد رضا رضوی الائیڈ بنک میں افسر رہے، ان کے  ایک بیٹے سید غلام پنجتن رضوی نے CSSکا امتحان پاس کرکے سول سروس کو جوائن کیا اور ڈائریکٹر جنرل پاکستان پوسٹ آفسز کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور بیٹیوں میں سب سے بڑی بیٹی سیدہ اقتدار النساء، سیدہ بشریٰ زریں، سیدہ شذرہ شاہین اور میری والدہ سیدہ عذرہ پروین رضوی نے اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کی۔

والدہ صاحبہ ایم سے  ہسٹری، ایم اے اردو اور بی ایڈ کی تعلیم حاصل کرکے شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئی تھیں۔
ڈاکٹر سید فضل حق رضوی ریٹائرڈ تحصیلدار تھے اسی بناء پر انہوں نے  اپنی بیٹی (میری والدہ) کا رشتہ اپنے دوست سید محمود شاہ بخاری صاحب جو کہ ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر تھے ان کے فرزند سید اعجاز حسین بخاری سے کیا اور اپنی دوستی کو رشتہ داری میں بدل دیا ، والدہ ہمیشہ سے صابر و شاکر کم گو اور اصول پرست رہیں، اتنے رئیس والد کی اولاد ہونے پر کبھی غرور و تکبر کو اپنے قریب تک نہ آنے دیا بلکہ ہمیشہ عجز و انکساری کا مظاہرہ کیا۔

اپنے پیشے سے  ان کو شدید لگاؤ اور محبت تھی،ہم پانچ بہن بھائی ہیں، میں والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں اور میری چار ہمشیرگان ہیں، میرے والدین نے ہم بھائی بہنوں میں کبھی کسی بھی قسم کا فرق روا نہ رکھا، بلکہ میری بہنوں کو ہمیشہ زیادہ پیار اور شفقت ملی اور یہ بات ہمیشہ سے میرے  لیے باعثِ فخر ہے  اور رہے گی۔

میں تمام بھائی بہنوں میں نہایت شرارتی اور پڑھائی کے معاملے میں قدرے لاپرواہ تھا، ایک بار میری ایک ٹیچر نے امی سے کہا کہ” باجی آپ کا “عمران” شاید میٹرک بھی نہ کر پائے”، تب امی جان نے مجھے آکر کہا ، آپ کی ٹیچر کہہ رہی ہیں کہ عمران محنت کرے تو اچھے نمبروں سے کامیاب ہوجائے گا،اسی بات سے مجھے تھامس ایڈیسن کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ، تھامس ایڈیسن مشہور عالم سائنسدان تھا۔۔
اپنے بچپن میں بخار کے باعث وہ قوت گویائی سے محروم ہو گیا تھا۔جب وہ چھوٹا تھا تو ایک دن وہ سکول سے آیا اور ایک سر بمہر لفافہ اپنی والدہ کو دیا کہ استاد نے دیا ہے کہ ” اپنی ماں کو دے دو .”
ماں نے کھول کر پڑھا۔۔
اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.پھر اس نے با آواز بلند پڑھا۔۔
” تمہارا بیٹا ایک جینئس ہے، یہ سکول اس کے لئے بہت چھوٹا ہے، اور یہاں اتنے اچھے استاد نہیں کہ اسے پڑھا سکیں سو آپ اسے خود ہی پڑھائیں۔ “ اس کے بعد اس کو پڑھانے کی ذمہ داری اس کی والدہ نے لے لی۔
سالوں بعد جب تھامس ایڈیسن ایک سائنسدان کے طور مشہور عالم ہو گیا تھا،اور اس کی والدہ وفات پا چکی تو وہ اپنے خاندان کے پرانے کاغذات میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ اسے وہی خط ملا۔
اُس نے خط کو کھولا تو پر اس پر لکھا تھا۔
” آپ کا بیٹا انتہائی غبی ( کند ذہن ) اور ذہنی طور پہ ناکارہ ہے۔۔ ہم اسے اب مزید اسکول میں نہیں رکھ سکتے.“
اسی دن ایڈیسن نے اپنی ڈائری میں لکھا۔۔
” تھامس ایلوا ایڈیسن ایک ذہنی ناکارہ بچہ تھا۔۔پر ایک عظیم ماں نے اسے صدی کا سب سے بڑا سائنسدان بنا دیا، میری امی جان نے مجھ جیسے ناکارہ انسان کو زندگی میں آگے بڑھنے کے قابل بنا دیا،
میری امی جان نے میری بہت حوصلہ افزائی کیے رکھی، ایک بار FSc کے امتحانات کے دوران ایک سپریٹنڈنٹ مجھے ذاتی عناد کی بنیاد پر ایک پپر سے غیر حاضر کردیا تو میں بہت دلبرداشتہ ہوگیا اور میں نے تہیہ کیا کہ اب آگے نہیں پڑھوں گا اس وقت میری امی جان میری بہنوں ، میرے دوست بابر سلطان اور مسرور عالم نے میری حوصلہ افزائی کی اور ہمت بندھائی میں نے ان کے کہنے پر ایک بار پھر سے امتحان دیا اور FSc پاس کر گیا۔

میری امی جان نے ہر ایک منزل پر میری راہنمائی کی اور میری انگلی پکڑ کر مجھے اس قابل بنا دیا کہ میں معاشرے میں اپنی پہچان خود سے بنا سکوں، پروردگار کے کرم سے اور میرے والدین کی محنت، محبت اور خاص طور پر میری امی جان کی شبانہ روز کاوشوں نے مجھے اس قابل بنا دیا کہ میں نے قومی اور بین الاقوامی اداروں میں شاندار اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر اپنے فرائض انجام دیے، اس وقت بھی ایک معروف ادارے میں بطور سینئر مینجر اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہوں ، ایک بار 2016 میں جب میں ایک بین الاقوامی ادارے پلان انٹرنیشنل پاکستان کا ڈسٹرکٹ مینیجر لیہ تھا تو، اس ادارے نے پراجیکٹ کو کامیابی سے مکمل کرنے پر مجھ سمیت تمام ٹیم ممبران کے اعزاز میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا، جس میں ڈپٹی کمشنر، اعلیٰ افسران اور منتخب نمائندے موجود تھے، جب میرے ایوارڈ کی باری آئی تو میں نے مہمان خصوصی سے کہا کہ مجھے میرا ایوارڈ میری امی جان کے ہاتھوں سے چاہیے، مہمان خصوصی نے نے بہت خوش دلی سے اجازت دی، اس بات کا امی جان کو پتہ ہی نہیں تھا جب اچانک میرے دوست اور تقریب کے میزبان غلام رسول اصغر نے ایوارڈ کے لیے میرا نام پکارا اور ساتھ ہی امی جان سے گزارش ہے کی کہ اپنے بیٹے کو ایوارڈ آپ دیں، تقریب میں اس لمحے کے دوران بہت جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے، مجھے گھر آکر امی جان نے کہا کہ “عمران بیٹے آپ نے سیکڑوں لوگوں کے سامنے میرا سر بلند کردیا، مجھے اپنے بیٹے پر بہت فخر ہے”۔۔
میرے لیے یہ الفاظ زندگی کا سب سے بڑا اعزاز بن گئے۔۔
امی جان نے ہم بچوں کے لیے ساری زندگی شدید محنت کی سردی اور گرمی برداشت کی،

بقول شاعر۔۔
روک لیتا ہے بلاؤں کو وہ اپنے اوپر،

ماں کا آنچل مجھے جبریل کا پر لگتا ہے۔۔

میرٹ پر ہونے اور سینئر گریڈ پر ہونے باوجود ساری زندگی لیہ شہر سے باہر محض اسی وجہ سے نوکری کی کیونکہ ان کے پاس شہر میں پوسٹنگ کروانے کے لیے کوئی سفارش نہ تھی اور نہ ہی وہ کسی کی سفارش پر یقین رکھتی تھیں، ان کی ایمانداری ان کے لیے بارہا مشکلات کا باعث بنی، ایک وقت میں *امیر شہر* نے ان کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا اور ہم زندگی کا بدترین وقت دیکھا مگر میری امی جان نے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا، اور ڈٹ کر ان جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا، اور آخر کار عدالت نے باعزت بری کیا۔

ہم سب بھائی بہنوں کو امی جان اور ابو نے مل کر بہت محنت اور مشقت سے پروان چڑھایا،ہم سب کی شادیوں کے بعد ہمارے بچوں کو بھی ان کے حصے کی بے تحاشا محبت دی۔
میری امی جان بہت پر عزم اور باہمت تھیں 2009 میں بحیثیت سینئر ہیڈمسٹریس گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کروڑ لعل عیسن سے ریٹائر ہوئیں، وہاں کے سٹاف نے محبت کے آنسوؤں کے ساتھ امی جان کو پھولوں کی بارش کرکے رخصت کیا۔

انکی ہمیشہ خواہش تھی کہ وہ کس پر کبھی بوجھ نہ بنیں اور ساری زندگی انہوں نے ایسا ہی کیا اور 20 دسمبر 2018 کو اچانک ہی کچھ طبیعت ناساز ہوئی اور وہ خالقِ حقیقی سا جاملیں۔
اور میرے سر سے میری امی جان کی محبت کا سایہ اٹھ گیا، یہ غم میرے لیے دائمی ہے، اس نقصان کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا اور سب سے بڑھ کر اس رشتے کا کوئی نعمل البدل بھی نہیں ہوسکتا، مگر ان کی عطاء کردہ محبت میرے سینے میں دھڑکن بن کر چلتی ہے۔

سب مائیں پیاری اور عظیم ہوتی ہیں، لیکن شاید کچھ مائیں لازوال اور امر ہوجاتی ہیں،میری امی جان کے مجھ پر بیش بہا احسانات ہیں، لیکن سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے *میرے دل کو، میری چاروں بہنوں کے لیے بے پناہ عزت اور محبت سے بھر دیا میری سب بہنوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرکے با عزت گھرانوں میں شادیاں کروائیں،میری امی جان نے مجھے خودداری اور وقار سے جینا سکھایا*، مجھے اپنی پہچان اپنے زور بازو اور محنت سے بنانے کا لازوال سبق دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں جب بھی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ لیہ جاتا ہوں تو وہاں پر موجود افسران اور عملہ, امی جان شاندار الفاظ میں یاد کرتا ہے کہ باجی عذرہ ہماری نہایت ایماندار، رحم دل اور خدا ترس افسر ہوا کرتی تھیں، یہ سب سن کر میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے، جن لوگوں کی مائیں سلامت ہیں پروردگار ان کو عمر خضر عطاء فرمائے اور
پروردگارِ عالم اپنے پاک حبیب اور ان کی پاک آل کے صدقے سے تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کے طفیل میری امی جان کی مغفرت فرمائے آمین یارب العالمین!

 

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”امی جان کے نام۔۔سید عمران علی شاہ

Leave a Reply to Maryam Cancel reply