• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بھارت  میں بڑھتااسلاموفوبیا: اسباب اور سد ِّباب(قسط1)۔۔عبد ا لرحمٰن عالمگیر

بھارت  میں بڑھتااسلاموفوبیا: اسباب اور سد ِّباب(قسط1)۔۔عبد ا لرحمٰن عالمگیر

پوری دنیا میں اسلام دشمنی زوروں پر ہے۔ مسلمانوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ گاہےبگاہے ان پر بلاوجہ کے الزامات لگائےجارہے ہیں۔ بےقصور نوجوانوں سے جیل کی کوٹھڑی بھری جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ اسلاموفوبیا کے زیر اثر ہو رہا ہے۔اسلاموفوبیا یہ دو لفظ اسلام اور فوبیا کا مرکب ہے۔  جس کا معنی اسلام اور مسلمانوں سے خواہ مخواہ خوف زدہ ہونا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کو جنم دیتا ہے۔[1]

یہ لفظ اسلام کے ساتھ مل کر پچھلی کئی دہائیوں سے استعمال ہو رہا ہے البتہ اس کا عام استعمال 11/9کے بعد سے کثرت سے ہونے لگا ہے۔[2]

لیکن اسلامی تہذیب سے ڈرنا، مسلم گروہوں سے ہراساں ہونا، اسلام کے خلاف دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی ذہن سازی کرنا، ان کے قلوب و  اذہان میں ایسا ڈر پیدا کرنا جو لوگوں کو مسلمانوں سے نفرت و عداوت پرابھارے، مسلمانوں کو غلط الزامات سے متہم کرنا اور اورپروپیگنڈہ کرنے کی تاریخ لفظ اسلاموفوبیا سے کافی قدیم ہے۔

اسلام کے روز اول سے چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی کی کشمکش جاری رہی ہے۔ چاہے وہ دارالندوہ کی میٹنگ ہو، صلیبی جنگیں ہوں، یا برما میں مسلمانوں کی نسل کشی اور بھارت میں مابلنچنگ؛تمام کی بنیادی وجہ مسلمانوں کا اللہ کی وحدانیت پر اقرار ہے۔ جب تک مسلمان اسلام پر قائم رہیں گے ان سے کسی نہ کسی صورت میں دنیا برسرِ پیکار رہے گی۔[3]مسلمانوں سے شدید درجہ کی دشمنی کرتی رہے گی[4]الا یہ کہ یہ ان کی تہذیب و ثقافت میں ضم ہو جائیں۔[5]اس طرز عمل کو چاہے کوئی بھی نام دے دیا جائے۔ اسے اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا ردعمل کہا جائے، یا مسلمانوں کی تاریخی غلطیوں کا نتیجہ سمجھا جائے یا اسلاموفوبیا کا مظہر تصور کر لیا جائے۔ بہر کیف مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر مغلوب کرنے اور ان کی تعداد کو کم کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔

بھارت میں اسلاموفوبیا

ہندوستان شروع سے ہی ذات پات کے طبقاتی نظام سےجکڑا ہوا تھا۔ جس میں اعلی ذات کے لوگ نچلی ذات کے لوگوں کو غلام سمجھتے تھے۔ ان پر ظلم و ستم کرنا اور بغض و عداوت عام بات تھی۔ وہ چاہ کر بھی ترقی نہیں کر سکتے تھے۔ عبادت یا مذہبی کتابوں کا مطالعہ ان کے لیے ممنوع تھا۔ ویدوں کے مطابق انسان پورے ایک جسم کی مانند ہے۔ اس کا سر برہمن ہے۔ اس کے بازو چھتری ہیں۔ اس کے ران ویشو اور پاؤںشدر ہیں۔[6]اسی ترتیب کے لحاظ سے ان کا معاشرے میں مقام و مرتبہ تھا اس لیے ہندوستان کے لوگ قدیم دور سے آپس میں ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے۔ اعلیٰ ذات والے اپنے سے کمتر لوگوں سے اور نچلی ذات کے لوگ اعلیٰ ذات کے ظلم و ستم کی وجہ سے انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔ جب ہندوستان میں اسلام آیا اور اس کے نظام عدل میں سب کے لیے یکساں مقام و مرتبہ دیکھ کر ہندوستانیوں کو یہ انوکھی چیز معلوم ہوئی۔ جس کے بعد بہت سارے لوگ مشرف بہ اسلام ہو کر اس کی ٹھنڈی چھاؤمیں آ کر سکون محسوس کرنے لگے۔ ایک بڑی تعداد کے تبدیلئ مذہب سے ’’مہابھارتی‘‘ آگ  بگولہ ہوگئے اور ان نچلی ذات سے نفرت کرنے کے ساتھ ساتھ  مسلمانوں سے بھی اسی نوعیت کی عداوت رکھنے لگے۔ یہیں سے ہندوستان میں اسلاموفوبیا کی شروعات ہوتی ہے۔ یعنی جب سے مسلمانوں نےہندوستان میں قدم رکھا ہے اسی وقت سے ان سے نفرت و عداوت کی فضا  بن گئی تھی۔ میں ان لوگوں سے ہرگز متفق نہیں ہوں جو اسلاموفوبیا کا سرا 2014 سے جوڑتے ہیں۔ ایسے لوگ سیاسی جانبداری کے شکار ہیں۔ انڈیا کی اونچی ذاتوں کی فطرت میں اپنے علاوہ دوسروں سے نفرت کرنا تھا۔ گاندھی جیسے شخص بھی اس مرض سے محفوظ نہ رہ سکے۔ [7]البتہ 1915سے بتدریج   اسلاموفوبیا بڑھا ہے۔ 1915 میں ہندو سبھا کا قیام، 1923 میں ساورکر کی ہندوتو نامی کتاب کی اشاعت، 1925 میں آرایس ایس کا گٹھن، اور 1939 میں گولوالکر کی تصنیفWe or Our Nationhood Defined سے مسلم دشمنی ایک نئے رنگ و روپ میں شروع ہوئی۔ جس میں قومیت اور حب الوطنی کا پیمانہ ہندومت سے وابستگی ہے۔[8]اور ہندو نہ ہونا ملک سے غداری کی علامت ہے۔ گولوالکر لکھتا ہے:

Those  only  are  nationalist patriots,  who, with the  aspiration  to  glorify the  Hindu  race  and Nation next to  their  heart,  are  prompted  into activity  and  strive  to  achieve  that  goal.  All others are either  traitors  and  enemies  to  the National cause, or,  to  take  a  charitable  view,  idiots. [9]

اس کے مطابق ہندوستان میں ہندوؤں کے علاوہ اگرکوئی رہنا چاہتا ہے تو وہ اس وقت تک ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ سکتا ہے جب تک یہ ا سےحقوقِ شہریت سے محروم رکھ کر غلام کی طرح رکھنا چاہیں یا پھر دوسری صورت یہ کہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت کو ہندوؤں کی تہذیب و ثقافت میں ضم کر لے۔[10]گولوالکر وہ شخص ہے جس سےنریندر مودی سب سے زیادہ متاثرہیں۔مودی نےگجراتی زبان میں ایک کتاب جیُوتی پنج نامی ان سولہ اشخاص کے بارےلکھا جن سے وہ متاثر تھے اور اس میں گولوالکر کی سوانح عمری کو سب سے زیادہ تفصیل سےذکرکیا ہے۔[11]جو شخص ایسےآدمی سے متاثر ہو اس کے اسلاموفوبیا کے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

نریندرمودی یاپورےہندوستان کی عوام یوں ہی اچانک Radicalize نہیں ہوگئی بلکہ سالوں سے نفرت کرنے کی‘مختلف شعبوں میں کھیتی کی گئی ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں مختلف النوع لوگوں کی الگ الگ انداز                 میں مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کی گئی ہے۔ اگرآپ صرف آرایس ایس کی قائم کردہ تنظیموں  کی لسٹ اور ان میں دی جا رہی تعلیم و تربیت پر نظر ڈالیں گے تودنگ رہ جائیں گے۔ اگلے چند سطور میں کچھ تنظیموں کے نام سن قیام کے ساتھ ذکر کیے جا رہے ہیں:

1936 راشٹریہ سیویکاسمیتی :آرایس ایس کا خواتین ونگ[12]

1949اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی ):طلبہ ونگ[13]

1952 سرسوتیش شومندر:نر سری اسکول[14]

1954ون واسی کلیان آشرم دلتوں کی تربیت اور ان کی ذہن سازی کے لیے قائم کیا گیا تھا [15]

1955 بھارتیہ مزدور سنگھ[16]

1964وشو ہندو پریشد:گولوالکر کی ہندو مذہب کی حفاظت کے لیے قائم کردہ تنظیم ہے۔ آرایس ایس کی آفیشل ویبسائٹ کے مطابق اسے لوگوں کے مذاہب کو تبدیل کرکے ہندو بنانے کے لیے قائم کیا گیاتھا۔[17]یہ تنظیم گئورکھشا کے نام پر قتل وغارت گری کرنے اور بابری مسجد کے انہدام میں پیش پیش رہ چکی ہے۔ [18]اسے CIAامریکا نے 2018 میں مذہبی جنگجو تنظیم قرار دیا تھا۔[19]

1972 اکھل بھارتیہ گراہک پنچایت[20]

1977 ودھیا بھارتی: 2016 کی رپورٹ کے مطابق اس کے تحت 12,000 اسکول 250 انٹرمیڈیٹ کالج، 25 اعلیٰ تعلیمی مراکز اور کئی سارے تعلیمی ادارے ہیں۔ جن میں ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب خصوصاً مسلمان طلبہ بھی پڑھتے ہیں۔[21]

1978 اکھل بھارتیہ اتہاس سنکل یوجنا:  ہندوستانی تاریخ کو نئے سرے سے ہندوتوا بنیادوں پر مرتب کرنے کے لیے قائم کیا گیا ۔[22]

1982 ہندو جاگرن منچ: ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بدظن کرنے کا کام کرتی ہے۔ 2014 میں 50 مسلم خاندانوں کو جبراً تبدیلئ مذہب کے لیے سرخیوں میں رہ چکی ہے۔[23]

1986 راشٹریہ سکھ سنگت: سکھوں کی ذہن سازی کے لیے قائم کیا گیا۔  [24]

1986 آر ایس ایس کے اصولوں اور اس سے انسپائر’’سنکلپ ‘‘ کے پورے انڈیا میں 11 کوچنگ سینٹر ہیں۔ اس کا دراصل قیام انٹرویوگائیڈنس کے طور پر ہوا تھا پھر 2001 سے باضابطہکوچنگ دی جانے لگی، آج بھی ان کے کوچنگ کے علاوہ دوسرے طلبہ بڑی تعداد میں انٹرویو کی ہدایت لینے آتے ہیں۔ یہ اگرچہ خود کو کسی تنظیم سے وابستہ نہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں لیکن اسکے تمام ذمہ داران آر ایس ایس اور بی جے پی سے منسلک ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنما ان کے پروگراموں میں مہمانان خصوصی کی حیثیت سےتشریف لاتے ہیں، موقع بموقع کوچنگ سینٹروں پر ایسے لوگوں کے بیانات ہوتے رہتے ہیں۔یہاں سے ہر سال بڑی خاموشی سے سینکڑوں افراد بیوروکریسی میں جا رہے ہیں۔ 2019 میں 466 طلبہ جو کل تعداد کی 61.39٪ تھی۔ اور 2018 میں 651 طلبہ جو کل تعداد کی 65.75٪ فیصد تھی۔ اسی توازن سے سالہا سال بچے آئی پی ایس اور آئی اے ایس بن رہے ہیں۔ [25]

1988 اکھل بھارتیہ راشٹریہش کچھک مہا سنگھ:  اس تنظیم کی ماتحتی میں اساتذہ کی ایسی تربیت کی جاتی ہے تاکہ یہ اپنے عملی زندگی میں بچوں کو ہندوانہ طور طریقے کے مطابق ڈھال سکیں۔ ویسے تو اس سے جڑے ہوئے اساتذہ ہندوستان کے تمام مرکزی اداروں میں پھیلےہوئے ہیں۔ لیکن ان کی کوشش ہے کہ ابتدائی کلاسوں سے لے کر اعلیٰ  تعلیمی درجات کے ہر شعبہ میں ان کا اپنا ایک سینٹرہو۔ جس کے لیے ان کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے کئی ریاستوں کے وزرائے اعلی کے ساتھ کلوسڈ ڈور میٹنگیں بھی کی ہیں تاکہ ان کے مقاصدسرکاری سرپرستی میں مکمل ہوں۔ جیساکہ 23 اگست 2018 کی اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ  کے ساتھ میٹنگ کی خبریں موضوع بحث بنی تھیں ۔[26]

1991 درگا واہنی: وشو ہندو پریشد کا خواتین ونگ[27]

1992 اکھل بھارتیہ ادِھوکتاپریشد: وکلاء کی تنظیم[28]

1993 اکھل بھارتیہ پوروَ سینک سیوا پریشد: ریٹائر فوج کی خدمات حاصل کرنے کے لیے[29]

2002 مسلم راشٹریہ منچ: مسلمانوں کو ہندوتوادی فکر کا ہم خیال بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔[30]

2012 بھارتی گئو رکھشا دل[31]

2020 رجّوبھیّاسینیک ودھیا مندر: یوں تو  آرایس ایس اپنی شاکھاؤں میں ہتھیاروں کی ٹریننگ دیتی رہی ہے۔ البتہ اب باقاعدہ اپریل 2020 سے ان کا آرمی اسکول شروع ہو چکا ہے۔ کرونا کی وجہ سے اب تک ایڈمیشن کی کارروائی جاری ہے۔[32]

اوپر صرف چند ایسی تنظیموں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کا براہ راست آر ایس ایس سے تعلق ہے۔ جن میں تنظیم کے عنوان پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ممبران کے ذہن میں مسلم دشمنی کو اتارا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے معاشرے کے ہر فرد کے لیے اس کے معیار کے مطابق کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ریڑھی والے سے لے کر اعلیٰ عہدیداران تک تمام لوگ اسلاموفوبک ہیں۔ آج جو قانون رہتے ہوئے قانون نہ رہااورعدالت مجبور و بے اثر  ہوگئی یہ اسی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

بھارت میں بڑھتے اسلاموفوبیا کے مظاہر

انڈیا میں اسلاموفوبیا معاندانہ رویہ اختیار کر چکا ہے۔ مسلمانوں کی شناخت سے لے کر ان کے وجود کے خاتمہ کی سعی کی جارہی ہے۔ ان کی تاریخ سے لے کر ذاتی زندگی تک داؤ پر ہے۔ مسلم پہچان کو کھرچ کھرچ کر مٹایا جارہا ہے۔ دہلی کی میونسپل کونسل نے 2 ستمبر 2015 کو وہاں کے اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کرکےعبدالکلام روڈ کردیا۔[33]یوپی حکومت نے 5 اگست 2018 کو مغل سرائے جنکشن کا نام آر ایس ایس کے رہنما کے نام پر پنڈت دین دیالاپادھیائے جنکشن،[34] 16اکتوبر 2018 کو الٰہ باد کا نام پریاگ راج[35] اور 6 نومبر 2018 کو فیض آباد کا نام ایودھیا سے تبدیل کر دیا۔ [36]اسی طرح ہریانہ میں 2 فروری 2016 کو مصطفیٰ باد کا نام سرسوتی نگر رکھ دیا گیا۔ [37]اسی طریقے پر گجرات، مہاراشٹر اور دیگر صوبوں میں جگہوں کے نام بدل دیےگئے ہیں۔ اور بہت سارے تبدیل ہونے کے لیے ’’شبھ مورت‘‘کے انتظار میں ہیں۔

باریش مردوں اور باپردہ عورتوں کو ملازمت سے بے دخل کر دیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو سوسائٹی اور اپارٹمنٹ میں گھر دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ [38]ان کو ٹوپی اور داڑھی کی وجہ سے ہوٹلوں سے نکال دیا جاتا ہے۔[39] انڈین ائیر فورس کے انصاری آفتاب احمد نے عدالت میں 24 فروری 2003 سے 10 دسمبر 2016  تک داڑھی رکھتے ہوئے ملازمت کے لیے پیروی کی لیکن انڈین ایئر فورس نے سپریم کورٹ کو یہ کہتے ہوئے ملازمت کی اجازت نہیں دی کہ’’ صرف ان لوگوں کو داڑھی رکھنے کی اجازت مل سکتی ہے جن کے مذہب میں واضح طور پر بال کاٹنے سے منع کیا گیا ہو، جبکہ اسلام میں یہ ایک اضافی معاملہ ہے اور دنیا کے مسلمان کی اکثریت داڑھی نہیں رکھتی ہے‘‘۔[40]بعینہٖ علی گڑھ یونیورسٹی کی سابق کیبنٹ ممبر غزالہ احمد کو 2 ستمبر 2020 کو ایک ہندی نیوزپورٹل میں اینکر کی ملازمت دینے سے انکار کرتے ہوئے اس سے کہاگیاکہ’’یہ ہندوستان ہے۔ یہاں کسی بھی براڈکاسٹ میڈیا میں حجابی صحافی کام نہیں کرتی۔ اگر نوکری چاہیے تو حجاب اتارناہوگا‘‘[41]۔ اس قسم کے کئی معاملے روز بروز پیش آتے رہتے ہیں۔ کتنوں کو جمعہ کی دو رکعت نماز پڑھنے کی وجہ سے کالج سے نکال باہر کردیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں جیسا کہ 4 مئی 2018 کو سَنیُکت ہندو سنگھرش سمیتی نے دس کھلی جگہوں پر ہورہی جمعہ کی نماز کو رکوا دیا تھا۔ جب یہ لوگ گڑگاؤںسیکٹر 53 میں نماز رکوانےآئے تو مسلمانوں کی نماز مکمل کرنے کی درخواست پر مارنے پیٹنے پر آمادہ ہوگئے۔[42]

آج کل بم دھماکوں کی آوازیں بعد میں آتی ہے۔ پہلے یہ الزام لگتا ہے کہ یہ کسی مسلمان نے کیا ہوگا۔ جب معلوم چلتا ہے کہ کوئی بم دھماکا ہوا ہی نہیں تھا تو اشتعال انگیزی، ملک مخالف اور غیر قانونی ایکٹویٹی کے مفروضہ جرم میں معصوم نوجوانوں کو جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے پھر ان معصوموں کی بازیابی کے لیے احتجاج و مظاہرے بھی دہشت گردی کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔ جبکہ کھلے عام ’’دیش کے غداروں کو گولی مارو۔۔۔‘‘ کی تلقین کرنے والوں پر کچھ نہیں ہوتا۔ 23 فروری 2020 کو کپل مشرا کے ڈپٹی کمشنر پولیس نارتھ ایسٹ وید پرکاش سوریہ کی موجودگی میں دہلی دنگا کی الٹی میٹم دینے کو نظر انداز کردیا گیا۔ [43]یہی پولیس ایک روز بعد  24 فروری کو دنگائیوں کو اکساتے ہوئے کہتی کہ’’جو چاہو کر لو‘‘ اور خود وہاں تماشائی بنی کھڑی رہتی ہے۔ [44]بلکہ بنفس نفیس دنگا میں شریک رہتی ہے۔ جب نگہبان ہی انتہا پسند ہو جائے تو پھر کیا کہنے۔ کچھ نے تو جنسی درندگی کا بھی مظاہرہ کیا اور پولیس ان کے ساتھ مل کر اپنے جنسی اعضاء کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ [45]اس طرح ریاست کے زیر اہتمام دہشت گردی میں 55 لوگوں کی موت، 14 مساجد جن میں سے چند ایک کے ساتھ مشترک مدرسہ بھی تھا، 4 مستقل مدارس، ایک درگاہ اور ایک قبرستان کو شدید نقصان پہنچایا گیا[46] اور قرآن کریم کے نسخوں کو جلایا گیا۔[47] اس کے علاوہ مابلنچنگ کا طویل سلسلہ ہے۔ جس میں چھوٹی چھوٹی ناچاقیوں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کا قتل کیا گیا۔ چوری، بچہ کے اغوا، گائے کا گوشت کھانے، بین المذاہب شادی اور جے شری رام کا نعرہ نہ لگانے کے الزام میں 200 سے زائد مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے بچہ کے اغوا اور چوری کے الزامات جھوٹے ہیں۔ بفرض محال یہ واقعات سچے بھی ہوئے تو یہ دو اشخاص کے آپسی معاملات تھے جسے دو قوم کا فرقہ وارانہ مسئلہ بنا کر معصوموں کی جان لی گئی ہے۔اس طرح اور بھی ایشوز ہیں جیسے مدارس، علماء اور دعاۃ کے ساتھ ناروا سلوک، ان کو دہشت گرد کہنا، ان کی تہذیب و ثقافت پر زبانی حملہ کرنا،ان کے تہواروں کو نشانہ بنانا ، مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹکرنا،ان کی شرعی معاملات جیسے چار شادیاں، طلاق اور خلع وغیرہ پر بھدےتبصرےکرنا۔مسلم بادشاہوں کو ظالم وجابر ٹھہرانا، ان کے تعمیری کارناموں کو مشکوک بتلانا، مسلم ہیروز کے سوانح حیات کو نصاب سےخارج کر دینا، شریعت کی پامالی کو اظہار رائے اور اسلامی احکامات کی پاسداری کو مذہبی جبر کہنا،اسلام پر عمل کرنے والوں کو طنزیہ ملّا و مولوی سے بڑھ کر بنیاد پرست اور انتہا پسند کہنا اور انہیں اپنی مرضی کے اسلام پر چلنے کے لیے ابھارنا جیسے صوفی اسلام، معتدل اسلام اور لبرل اسلام کی نئی نئی اصطلاحات کی ایجادکرنا۔ ان مستقل اعتراضات کی بوچھاڑ کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ پہلے سے اسلام سے برگشتہ تھے وہ تو تھے ہی لیکن ان جھوٹے الزامات کی وجہ سے دوسرا صاف شفاف ذہن بھی پراگندہ ہو رہا ہے۔ اس کی زد میں صرف غیر مسلم ہی نہیں آرہے ہیں بلکہ مسلمانوں کی نئی نسل بھی اس سے متاثر ہو رہی ہے۔ پہلے صرف غیر مسلمین اسلام کے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔ اب ان کا ساتھ دینے کے لیے ماڈرن مسلموں کی نئی کھیپ تیار ہو چکی ہے۔ پہلے ایک سلمان رشدی تھا۔ اب سلمان رشدیوں کی قطار لگ چکی ہے۔ یہ تمام چیزیں اس بدلتے سماجی عارضہ کا مظہر ہیں جسے اسلاموفوبیا کہا جاتا ہے اگر اب بھی لوگوں کو خطرے کا طبل سنائی نہیں دیتا تو وہ بہرے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عبد الرحمن عالمگیر کلکتوی
ایک ادنی سا طالب علم جو تجربہ کار لوگوں کے درمیان رہ کر کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے