بھارتی فلمیں اور سیاسی حقائق۔۔۔محمد اسد شاہ

الحمدللہ ، فلمیں یا ڈرامے وغیرہ دیکھنے کا مجھے شوق نہیں ہے – حالانکہ ہمارے دیس میں پاکستانی ڈرامے اور بھارتی فلمیں بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں – فلمیں اور ڈرامے ہمارے ہاں حقیقی زندگی میں بھی بہت کامیابی سے چلتے ہیں – ایسی ایسی فلمیں اور ڈرامے ، کہ گزشتہ 72 سالوں سے عوام دیکھ بھی رہے ہیں، سمجھ بھی رہے ہیں ، لیکن نشہ ایسا کہ شادی کے مصنوعی منظر پر خوش ہو جاتے ہیں اور دکھ کے غیر حقیقی منظر پر آنسو بہانے لگتے ہیں – جانتے بھی ہیں کہ انہیں بے وقوف بنایا اور مصروف رکھا جا رہا ہے تا کہ پردے کے پیچھے سے انہی کا سامان لوٹ لیا جائے – لیکن پھر بھی اس فلم یا ڈرامے میں ایسا جادو ہے کہ دماغ سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں – 72 سال سے جاری اس فلم میں نادیدہ انگلیاں کٹھ پتلیوں کو نچاتی ہیں ، گراتی ہیں ، اٹھاتی ہیں ، لٹاتی ہیں ، ننگا کرتی ہیں ، دیدہ زیب لباس پہناتی ہیں یا مار گراتی ہیں —– ہم جیسے بے وقوف دیدے پھاڑ پھاڑ کے محوِ تماشا ہیں – جب کہ نادیدہ انگلیوں والے ، پردے کے پیچھے بیٹھ کے الٹا ان بے وقوفوں کا تماشا دیکھتے ہیں ، ہنستے ہیں ، مذاق اڑاتے ہیں اور نئے سکرپٹ لکھنے میں مصروف ہو جاتے ہیں – چنانچہ گزشتہ 72 برسوں سے چہرے بدلتے ہیں ، ہیرو بدلتے ہیں ، ولن بدلتے ہیں ، سائیڈ ہیرو بدلتے ہیں ، کہانی اور سکرپٹ بدلتے ہیں – البتہ ہدایت کار اور سکرپٹ رائٹر نہیں بدلتے –

خیر میں یہ بتا رہا تھا کہ مجھے فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کا شوق نہیں ہے – جس طرح بہت سی چیزیں اور بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا ہمیں شوق نہیں ہوتا ، لیکن کبھی نہ کبھی ، کسی نہ کسی وجہ سے ہم وہ چیز استعمال بھی کرتے ہیں ، اور وہ کام بھی کرتے ہیں – اس کی مثال یوں سمجھ میں آ سکتی ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں خود قانون کی پابندی کرنے ، یا قانون کو نافذ کرنے کا شوق نہیں ہوتا —– لیکن روزی کمانے کی مجبوری میں وہ قانون نافذ کرنے والی وردی پہن کر پھرتے ہیں –

اسی طرح میں بھی شوق نہ رکھنے کے باوجود بعض اوقات کسی فلم کا کچھ حصہ یا کسی ڈرامے کی ایک ادھ قسط دیکھ بیٹھتا ہوں –

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ دنوں انٹرنیٹ پر کام کرتے کرتے اچانک ایک نعت سننے کی سعادت نصیب ہوئی – آواز تھی محمد عزیز مرحوم اور لتا منگیشکر کی – بہت دلچسپ بات لگی کہ دونوں کا تعلق بھارت سے ہے ، بلکہ لتا منگیشکر تو ہندو مذہب کی پیروکار بھی ہیں – نعتیہ کلام تو یوں بھی دل پہ اثر کرتا ہے اور دل کو تسکین اور راحت کا احساس ہوتا ہے – پھر اگر آواز بھی دل کش ہو تو محویت مزید  بڑھ جاتی ہے -میں نے انٹرنیٹ پر مزید کرید کی تو معلوم ہوا کہ وہ نعت ایک بھارتی فلم میں شامل تھی – فلم کا نام تھا “حنا” – مرکزی کردار رشی کپور اور زیبا بختیار کا تھا – یہ معلومات بھی دلچسپ تھیں کہ فلم کی ہیروئن پاکستانی خاتون ہیں – اب تجسس ہوا کہ بھارتی فلم ، نعت رسول مقبول (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم) اور پاکستانی اداکارہ ،بے ساختہ خواہش پیدا ہوئی کہ فلم دیکھی جائے – چنانچہ انٹرنیٹ سے ہی فلم ڈاؤن لوڈ کی گئی اور فرصت کا انتظار شروع ہو گیا – زندگی کی مصروفیات ایسی ہیں کہ دو ، اڑھائی یا تین گھنٹے صرف فلم دیکھنے کے لیے نکالنا بہت مشکل ہے – خیر تین چار دنوں میں مختلف اوقات میں تین قسطوں میں فلم دیکھی جا سکی –
فلم میں یہ دکھایا گیا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کا ایک شہری کسی حادثے کا شکار ہو کر دریائے جہلم میں جا گرا اور دریا کے ساتھ بہتا ہوا آزاد کشمیر میں پہنچ گیا – یہاں لوگوں نے اسے زخمی اور بے ہوش دیکھا تو انسانی  ہمدردی کے تحت ایک مسلمان خاندان نے اس کی رہائش اور علاج کا انتظام کیا – اسی گھر کی ایک لڑکی کے ساتھ اس کا رشتہ ازدواج طے ہوا – لیکن اس نے اپنا ہندو ، اور مقبوضہ علاقے کا رہائشی ہونا بتایا تو ایک پولیس افسر نے ناجائز طریقوں سے اسے بھارتی جاسوس قرار دینے  کی کوشش کی – تب انھی مسلمان دیہاتیوں نے اسے فرار ہونے میں مدد دی – راستہ دکھانے کے لیے وہی مسلمان لڑکی اس کے ساتھ جا رہی تھی ، جس کے ساتھ اس کی شادی طے ہو رہی تھی – مذکورہ پولیس افسر نے ان دونو ں کو ہر صورت قتل کرنے کے لیے ان کا پیچھا کیا اور آخر کار عین لائن آف کنٹرول پر اسی پولیس افسر کی گولی سے وہ لڑکی جان سے گزر گئی- اس موقع پر دونوں  ممالک کے باوردی افسران کی موجودگی میں مقبوضہ علاقے کے اسی شخص نے بہت درد مندانہ قسم کی تقریر کی اور دونوں  ملکوں کے درمیان امن ، محبت اور بھائی چارے کی ضرورت پر زور دیا –
فلم یہاں ختم ہو گئی ، لیکن میری سوچوں کا ایک نیا سلسلہ یہاں سے شروع ہو گیا –
یہ فلم بھی اسی بھارت میں بنی جہاں بہت سی فلمیں پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کی غرض سے بنتی ہیں – بھارت ہی وہ ملک ہے جہاں بی جے پی اور وی ایچ پی جیسی جماعتیں صرف پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پرچار کر کے الیکشن جیتتی ہیں اور بار بار حکومت بناتی ہیں – ایسی فلمیں وہاں کیسے کامیاب بزنس کر سکتی ہیں کہ جہاں نفرت کا کاروبار عروج پر ہو – 72 سالوں سے کشمیر اور جموں کی مقبوضہ وادی میں بھارتی حکمرانوں نے خون کے جو دریا بہائے ہیں ، ان کے سامنے دریائے جہلم کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی بھی آنسو بہاتا ہے ،حال ہی میں بھارتی آئین میں تبدیلی کر کے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر کی جو نئی لہر شروع کی گئی ہے ، اس کا توڑ ایسی فلمیں کیسے کر سکیں گی ؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply