ہمارا خاندانی سیکورٹی گارڈ۔افشاں بنگش

یہ کیسا انوکھا لاڈلا سیکورٹی گارڈ ہےکہ اس کےاخراجات پورےکرنےکےلیےہم نےاپنےبچوں کےپاؤں کےجوتےاور ماں کےکانوں کی بالیاں تک بیچ ڈالی ہیں،مگر جیسےہی ہم اس کی رائے سے متصادم کوئی بات کرتے ہیں یہ اپنی بندوق کا رخ ہماری جانب کر دیتا ہے-خاندان کی سربراہی چچا جان کودینا چاہیں تو کہتا ہےنہیں وہ میرےفرمانبردار نہیں، سربراہی صرف تایا جان کو ملےگی، لیکن اگرکبھی یہ منتخب شدہ تایا جی ذرا اپنی صوابدید استعمال کرناچاہیں جس سےسیکورٹی گارڈ کے مفادات یا کسی مخصوص نظریے پرضرب پڑتی ہوتویہ ان کوگولی مارنےاورسولی پرچڑھانےسےبھی دریغ نہیں کرتا- کبھی ان کے منہ پر کالک مل کر گدھے پر پھراتا ہے، کبھی کہتا ہے نہیں نہیں یہ تو آپ کا راشن چوری کر رہا ہےحالانکہ خاندان کے اندر ہونے والی خرد بردپکڑنا اس کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہاں ہرایک کامخصوص دائرہ کار ہے،جس سے تجاوز کا نتیجہ ہمیشہ بے چینی وعدم استحکام کی صورت میں سامنےآتا ہے-

گو یہ سیکورٹی گارڈ بھی خاندان کا ایک اہم فرد ہے اوراس کی خدمات سب کو یاد رہتی ہیں مگر بہرحال یہ خدمات اس کے پیشہ ورانہ فرائض میں شامل ہیں جن کی اس کو تنخواہ ملتی ہے-خاندان میں خبر گرم ہےکه سیکورٹی گارڈ خود بھی ایک بہت بڑا  چور ہےمگراس کیخلاف تحقیق تو درکنارہم اگراس کی طرف نظر بھرکربھی دیکھیں گےتووہ ہماری آنکھیں نکال دے گا- ہم کہتے ہیں،بھائی جان ہمیں ذرا چھری تلے سانس تو لینے دو، تایا جی کو ہم نے اور آپ نے چنا ہے، اگر معاملات ٹھیک نہ ہوۓ توہم انہیں دیکھ لیں گے،اگلی بار آنے نہیں دیں گے،ان کو خاندان کے بڑوں کی پنچایت میں لےجائیں  گے،مگر یہ سیکورٹی گارڈ پنچایت کو بھی ہر بارلالچ ،خوف یا دبدبے کےشیشے میں اتار لیتا ہے اوراوہ اپنا ہر بڑا فیصلہ سیکورٹی گارڈ کے ایماء پر دیتے ہیں-

ہمارے اس انوکھےلاڈلےسکیورٹی گارڈ کے خاندان پر جابرانہ تسلط کا سب سے بڑا نقصان ذہنی و نفسیاتی  ہے خاندان کی ایک پوری نسل کے بیشتربچے بڑے نہیں ہوسکے، وہ شاہ دولے کے چوہے کے سروں والے بن کررہ گئے ہیں ، ان کی سیاسی سوچ بلوغت سے محروم اورنظریاتی نشوونما پولیو زدہ ہے، نہ انھیں خاندان کاسربراہ چننا آتا ہے، نہ ہی بدعنوان سربراہوں سے حساب لینےکووہ اپنی  ذمہ داری سمجھتےہیں- انھیں آتا ہے تو صرف ایک کام ، اپنی توتلی زبان میں سیکورٹی گارڈ کو آوازیں دینا اوراس کےآجانےپرمٹھایاں بانٹنا-

گھرکا ایک بااصول اورذہین بیٹا باہرکے ملک میں زیر تعلیم ہے، جو خاندان کے تمام افراد کو اکٹھا کرنےاورانتظامی معاملات درست کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس کو ایسا کرنے سے ایک بڑاخوف روکتا ہے، سیکورٹی گارڈ کا خوف ۔۔وہ جانتا ہےکہ سب خطرات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہےمگر گارڈ کے اسلحےاورپروپیگنڈا کا مقابلہ ناممکن ہے- وہ جانتا ہےکہ اگرکوئی نیک نیت اورباصلاحیت بیٹا سکیورٹی گارڈ کی سرپرستی قبول کیے بغیر اپنےطور پراس خاندان میں سیاسی مقبولیت حاصل کرگیا توسیکورٹی گارڈ کی پوزیشن کمزور ہو جائی گی،اس لیے وہ اپنی پہلی فرصت میں اس با صلاحیت بیٹے یا بیٹی کو خرید کر اپنا غلام بنانےکی کوشش کرے گا ،بصورت دیگر اس کی کردار کشی کرے گا، محلے کی بی جمالنوں کو لفافے بھیج کراس کےمنہ پر کالک ملے گااور اگر ضرورت پڑی تو گولی مار دے گا-

Advertisements
julia rana solicitors london

خدارا کوئی اس سیکورٹی گارڈ کو سمجھائے کہ اس گھرکو چلانا خاندان کے ہرفردکاحق ہے،خاندان کےافراد کےخلوص پر شک نہ کرے، لوگوں پرچھومنتر پڑھ کر انھیں غائب نہ کرے، ان کی سوچ اور زبان پر پہرے نہ بٹھائے، خود کو عقل کل نہ سمجھے، اپنی غلطیوں سے سیکھے اوراس کا زبانی نہیں عملی ثبوت دے کریہ سترسالہ کھیل بند کر دے- نیک نیتی سے صرف اپنا کام کرے یعنی گھر کے مکینوں کی حفاظت اور دفاع کا کام، وہ مقدس کام جس کے لیے خاندان کا بچہ بچہ اس پر جان چھڑکتا ہے-کوئی اس کوبتائےکہ اس کا اصل مقام بھی اتنا بلند ہےکہ خاندانی سیاست، عدالتی ، خزانہ اور خارجہ معاملات میں مداخلت اس کو زیب نہیں دیتی-کوئی اس کو سمجھائےکہ اس خاندان کی موجودہ نسل کوشاہ دولےکا چوہا بنانےکی کوشش نہ کرے کیونکہ اس دور میں ایسا ممکن نہیں، وہ شاہ دولے کے چوہے تو نہیں بنیں گے ہاں مگر وہ چوہےضرور بنتے جا رہے ہیں جو جہاز کو ڈوبتے دیکھ کروہاں سے بھاگنےکاسوچتےہیں-کوئی ہمارے اس انوکھےاورلاڈلے کو سمجھائے کہ خاندان کی موجودہ نسل کے یہ نوجوان بہت باصلاحیت ہیں،انھیں آزادانہ سوچنے، بولنےاورلکھنے کا.حق دے، تاکہ وہ ذہنی بلوغت حاصل کرکےاپنی نظریاتی اساس متعین کر سکیں، متفقہ قومی بیانیہ تشکیل دے سکیں، قومی اخلاقیات کا احتساب کر سکیں، پڑوسیوں سےروابط پر نئے زاویوں سے نظر ثانی کریں -اگر ایساہوا تو دیکھنا یہ نوجوان خود ہی چند دہائیوں میں سب ٹھیک کر لیں گے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ہمارا خاندانی سیکورٹی گارڈ۔افشاں بنگش

  1. بہت خوب الفاظ کی قلت کے باعث تعریف سے قاصر ہوں۔۔. زارا صاحبہ لگتا ہے یہ بات خود ڈنڈوں والوں نے پھیلائی ہے۔۔۔۔

  2. اس پوری کہانی کی دلیل میں ایک بہت آسان سا سوال ہے ؟؟ اگر بینک کے ملازمین ہی مدہوش و غافل پڑے ہوں اور منیجر خود خائن، چور اور نااہل تو پھر گارڈ کی کیا ذمہ داری ہے ؟ چوری ہونے دو یا ملازمین کو جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کرے، یا پہلے منیجر کو پکڑے ؟

    اور اگر گارڈ پر چوری کا الزام ہے، تو اس کا کیا مطلب ہے کے بینک میں چوری کی سب کو اجازت دے دے ؟ بینک خالی ہوتا رہے پہلے وہ خود اپنے الزام کی وضاحت کرے ؟؟

    اور شائد صاحب تحریر، ملک کے دفاع و حفاظت کرنے کی ذمہ داری کو عام پشہ ور سرکاری نوکری سمجھ بیٹھی ہیں !! یہ نوکری سے بڑھ کر جنون و عشق کا جذبہ ہوتا ہے، جان کا خطرہ تو ہر جگہ ہوتا ہے مگر جان کو خطرے میں ڈالنا صرف ہر مہینہ کی تنخواہ کا شوق یا مراعات کا حصول نہیں ہوتا

Leave a Reply