اور سلمان حیدر بھی گمشدہ ٹھہرے

یہ مملکتِ خدادا ہے یہاں سچ بولنا منع ہے کہ یہاں سنگ و خشت کو مقید کردیا گیا ہے اور سگ آزاد پھرا کرتے ہیں۔ یہاں سچ اپنا منہ چھپا کر روپوش ہوگیا ہے اور جھوٹ، تفرقے اور ظلم کا ہر جگہ راج ہے۔ اگر آپ فیض کی نظم سے متاثر ہیں اور “بول کے لب آزاد ہیں تیرے” کو سچ سمجھ کر سچ بولنے کی غلطی کر بیٹھے ہیں یا آپ نے “حلقۂ زنجیر میں زباں ” رکھ دی ہے تو آپ کا ٹھکانہ مملکتِ خداداد نہیں ہوسکتا۔ جلدی کیجئیے نابینا شہر میں آئینہ لے کہ پھریں گے تو لوگ آئینے کا ساتھ آپ کو بھی کرچی کرچی کردیں گے کہ انہیں آئینہ دکھایا جانا بالکل پسند نہیں۔

سلمان حیدر کو بھی بہت بری بیماری لاحق تھی ناقابل علاج قسم کی وہ سچ بولتے تھے بِنا خوف کے اور بِنا کسی کو خاطر میں لائے۔ ہم دوست ان کو مرشد سمجھتے تھے اور تھوڑا تھوڑا حوصلہ ادھار لے لیا کرتے تھے۔ سچ بولنے کے لئیے نہیں
بلکہ صرف ان کے سچ کا ساتھ دینے کے لئے۔

میں بھی کافر تُو بھی کافر
پھولوں کی خوشبو بھی کافر
لفظوں کا جادُو بھی کافر
یہ بھی کافر وہ بھی کافر
فیض بھی اور منٹو بھی کافر

یہ وہ نظم ہے جو سلمان حیدر کا ایک تعارف ایک حوالہ ہے اگر آپ نے ان کی یہ نظم پڑھی ہے تو آپ اتنا سچ لکھنے والے پہ لمحہ بھر کے لئے رشک ضرور کرتے ہیں ۔ ہر حساس دل کا المیہ اتنی بے باکی سے بیان کرنا ہر اہلِ قلم کا خاصہ نہیں ہوتا۔

وہ سلمان حیدر ہی تھے جن کی وجہ سے ہمیں
بلوچ بھائیوں پہ ہوئے مظالم کی تصویریں دیکھنے کو مل جاتی تھیں۔ ہم ان بلوچ بھائیوں کو جاننے لگے تھے جن کا نام لینا مملکتِ خداداد میں گناہِ عظیم سمجھا جاتا ہے۔ میں نے واحد بلوچ کا نام بھی پہلی مرتبہ انکی وال پہ پڑھا۔ صرف واحد بلوچ ہی نہیں بلکہ سمی بلوچ، ظفر بلوچ اور پیردھان بلوچ سے میرے تعارف کی وجہ وہی تھے میں اپنے ان بلوچ بہن بھائیوں کو نہیں جانتی لیکن اگر میرے چند حرف تسلی اور ناتواں آواز میرا اس فرض کفایہ میں حصہ ڈال سکتی ہیں تو میں نے وہ حصہ سلمان حیدر کی وجہ سے ڈالہ۔ یہ مِسنگ پرسنز کی لمبی فہرست کے چند نام ہیں جن میں ہر روز نہیں تو ہر چند دنوں میں ایک نام کا اضافہ ہوجاتا ہے اور سلمان حیدر اس ملک میں ہر مِسنگ پرسن کی آواز رہے ہیں۔ بلوچوں سے ان کی محبت خاص تھی، ہے اور رہے گی۔ اس سے زیادہ اظہارِ یکجہتی کی جرات کس میں ہے کہ آج وہ خود بلوچوں کے قافلے کے مسافر بن چکے ہیں۔

ان کی انسانیت سے محبت کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ وہ ہر ظلم کے خلاف بولنے اور لکھنے کا ایسا حوصلہ رکھتے ہیں جس کے بارے میں اہلِ قلم صرف آہ بھر کے رہ جاتے ہیں۔ ہزارہ کی شیعہ کمیونٹی کی نسل کشی کا معاملہ ہو یا امجد صابری کے بیہمانہ قتل کا، اسلام پرستوں کے کفر کے فتوے ہوں یا قتل کے فتوے، احمدی ہوں یا کوئ اور اقلیت ۔ سلمان آپ کی آواز ہیں کوئ بولے نہ بولے لکھے نہ لکھے سلمان حیدر کے قلم نے کبھی سچ لکھنا نہ چھوڑا ۔ وہ بزدلی کی چادر کو مصلحت اور سمجھوتے کا نام کبھی نہ دے سکے۔ انہوں نے نا معلوم افراد کے خلاف بہت لکھا اور آج معلوم شدہ نامعلوم افراد کے کسی نامعلوم ٹھکانے میں پسِ زنداں ہیں۔

“تھیٹر والے” تھیٹر گروپ کا روحِ رواں انسانیت کے ترانے سکھانے اور پڑھانے والے کی آواز کہیں قید کر دی گئ ہے۔ لیکن قید کرنے والوں کو معلوم نہیں سلمان حیدر اندھیرے راستوں میں اتنے چراغ جلا گئے ہیں اور اپنے پیچھے اتنی آوازیں چھوڑ گئے ہیں کہ اس روشنی اور آواز سے دامن بچانا ان معلوم شدہ نامعلوم لوگوں کے لئیے بہت مشکل ہونے والا ہے۔

بائیس دسمبر شاہجہاں سالف کی گمشدگی کی بارے میں لکھنے والے سلمان حیدر آج خود گمشدہ ہیں مِسنگ پرسن کے ناموں میں آج ہمارے ایک دوست بھی شامل ہوگئے ہیں۔ چند ماہ پہلے یہ نظم سلمان حیدر کی وال سے پڑھتے یہ علم نہ تھا کہ چند دن بعد یہ نظم حقیقت بن کر ہمیں ایک اذیت سے دو چار کر جائے گی۔ آئیے سلمان حیدر کی آواز بن جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اور اگلی گمشدہ فائل کہیں ہمارے اپنے ہی نام کی نہ ہو۔

صفحے سے باہر ایک نظم…

Advertisements
julia rana solicitors

ابهی میرے دوستوں کے دوست لاپتہ ہو رہے ہیں
پهر میرے دوستوں کی باری ہے
اور اس کے بعد…
میں وہ فائل بنوں گا
جسے میرا باپ عدالت لے کر جائے گا
یا وہ تصویر جسے میرا بیٹا صحافی کے کہنے پر چومے گا
یا وہ چپ جو میری بیوی پہنے گی
یا وہ بڑبڑاہٹ جو میری ماں تصویر پر پھونکنے سے پہلے گنگنائے گی
یا وہ عدد جس سے میں کسی قید خانے میں پکارا جاؤں گا
یا وہ گناہ جو کبهی سرزد نہیں ہوا
یا وہ اعتراف جس پر میں نے اغوا ہونے سے پہلے دستخط کر دیے تهے
یا وہ فیصلہ جو اس اعتراف سے پہلے لکها جا چکا تها
یا وہ سزا جو مجھ پر اور میرے لوگوں پر برابر تقسیم کر دی گئی
یا وہ قانون جس کی بساند سے تہذیب یافتہ نتهنے گهن کهاتے ہیں
یا وہ کمیشن جو اس قانون کا پرفیوم چهڑک کر میز پر بیٹھتا ہے
یا وہ نظم جو میرے دوست کا دوست کل لکهے گا
ہاں میں ایک نظم ہوں
میرے سامنے والے صفحے پر ایک تصویر قید ہے
جس کے اده کھلے ہونٹوں کی ایک باچه پر بوسہ کهلا ہوا ہے اور دوسری گنگناہٹ سے لتهڑی ہوئی ہے
اس کے برابر فریم میں ایک فائل ہے اور ساتھ والی دراز میں؟؟؟
شاید گناہ اعتراف اور سزا رکهے گئے ہوں
میں وہ دراز نہیں کھول سکتا
اس کے لیے مجهے اپنے صفحے سے نکلنا پڑے گا
نظموں کا صفحوں سے باہر نکلنا جرم ہے
کتابوں کو الماریوں سے رہا کروانے کی طرح سنگین…
(سلمان حیدر)

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply