حریت رائے پر متمدن قوموں کا دوہرا موقف۔۔شاکر عادل عباس تیمی

پیغمبر اسلام ﷺکے کارٹون یا خاکے کی اشاعت کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ،بلکہ ماضی میں بھی اس قسم کی بیہودگیاں اور ہرزہ سرائیاں اخبارات میں ہوتی رہی ہیں۔Heiko Henkel جو کہ Copenhagen،ڈنمارک یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں،انہوں نے ایک رپورٹ شائع کی،جس میں کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے ۳۰ ستمبر۲۰۰۵پیغمبر اسلام ﷺ کے ۱۲ خاکے کی اشاعت ڈنمارکی  روزنامہ Jyllands-Poste  نے اپنے اداریے میں کی۔اخبار کا ماننا تھا کہ اسلام پر تنقیدی بحث میں شریک ہونے کی ایک کوشش ہے۔

چارلی ہیڈو(Charlie Hebdo) نے ۲۰۰۶ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو ناراض کرتے ہوئے ان خاکوں  کی دوبارہ اشاعت کی۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق نومبر ۲۰۱۱ کوچارلی ہیڈو(Charlie Hebdo) میگزین کے دفاتر میں جو آگ لگی تھی،وہ اسی کا نتیجہ تھی کہ اس نے “چارلی ہیڈو” کے عنوان سے پیغمبر اسلام (ﷺ) کا اشتعال انگیز کارٹون شائع کیا تھا۔

۲۰۱۳میں پھر سے چارلی ہیڈو(Charlie Hebdo) نے ایک خصوصی ایڈیشن شائع کیا تھا،جس میں کارٹون نمایاں تھے۔

آگے اخبار لکھتا ہے کہ ’’چارلی ہیڈو فرانسیسی صحافت میں ایک قابل مذمت روایت کا ایک حصہ ہے، جس نے فرانسیسی انقلاب کی دوڑ میں ماری اینٹونیٹ کی مذمت کی تھی۔ اس روایت میں بائیں بازو کی بنیاد پرستی کو اشتعال انگیز دھندلاپن    کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے جو اکثر فحاشی کی سرحدوں پر ہوتا ہے‘‘۔

اس طرح سے دیکھیں تو ماضی میں بارہا یہ کوشش کی گئی کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے خاکو ں کی اشاعت کے ذریعے مسلم برادری کے جذبات کو چوٹ پہنچائی جائے اور ان کے ردّ ِعمل کو جو کہ فطری ہیں، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا رنگ دے کر اسلام کو بدنام کرنے کی ناپاک سعی کی جائے ،اور اس میں ان ناہنجاروں کو بہت حد تک کامیابی بھی ملی۔

ان تما م کے باوجود گذشتہ دنوں فرانس میں تاریخ کے استاد سیموئل پیٹی کے ذریعے پیغمبر اسلام ﷺ کی خاکہ نگاری اورفرانسیسی صدر کی جانب سے اس کے دفاع  کو لے کر جو کچھ منظر عام پر آیا، واقعی یہ اخلاق باختگی  اور دریدہ دہنی کی آخری حد تھی۔خاکہ نگار  ایک۱۸ سالہ چیچن نزادکے ہاتھوں انجام کو پہنچا۔پھر فرانسیسی سکیورٹی نے موقع واردات پرہی اس لڑکے کو گولی ماردی۔

انگریزی اخبارFirstsoptکی رپورٹ کے مطابق مذکورہ  استادحریت اظہار راے کے نام پر کلاس میں بچوں کو پیغمبر اسلام ﷺ کے خاکے دکھلاتا تھا،اور نکتہ چینیاں کرتا تھا۔

یہ درست ہے کہ آزادی اظہارِ رائے ہر فرد کا بنیادی حق ہے ،لیکن اسے آزادیٔ صحافت یا آزادی اظہارِ رائے کے طور پر کیوں کر جائز قرار دیا جا سکتا ہے،جب کہ اس سے ایک بڑی آبادی کے جذبات مجروح ہوتے ہوں اورانہیں قلبی وروحانی تکلیف پہنچتی ہو، جس کے بعد تشدد پر مبنی رد ِ عمل کا اظہار فطری امر ہے۔اور پیغمبر اسلام ﷺکے خاکوں کی اشاعت اور اس پر متنازع نکتہ چینی کرکے فرانسیسی استاد نے مسلمانوں  کی دل آزاری کی ،اوران کے مذہبی جذبات کومجروح کیا ،جس پر نہ تو خاموشی برتی جاسکتی تھی  اورنہ ہی اس کی  اس مذموم حرکت کو برداشت کیا جاسکتا تھا۔

دی وائر اردو (The Wire Urdu)نے گذشتہ سال ایک رپورٹ شائع کی تھی ،جس کے مطابق یور پی یونین نے اپنے رکن ملکوں کے لیے باضابطہ ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہوا ہے ،چنانچہ اگر کوئی ادیب یا مصنف  یہودیوں کے خلاف    کوئی بات لکھتا ہے،یا ان کی مخالفت کرتا ہے ،یا ہولوکاسٹ کو مفروضہ قراردیتاہے تو اسے انتہائی سنگین جرم شمارکیا جائے گا اور ایسے شخص کے لیے سخت سے سخت سزا متعین  ہے،جس میں ایک سے تین سال کی قید بامشقت سزابھی شامل ہے۔ بلکہ ۲۰۰۳ میں اس حکم نامے میں ایک اضافی پروٹوکول شامل کیا گیا ،جس میں ہولوکاسٹ کے خلاف انٹرنیٹ پربھی کچھ    لکھنا قابل گردن زدنی جرم قرار پایا ہے۔ ۱۹۹۸سے لے کر ۲۰۱۵کے درمیان ،ان سترہ برسوں میں تقریباًاٹھارہ ادیبوں اور مصنفین کو اظہار رائےکی آزادی کے علم برداروں کے عتاب کا شکار ہونا پڑا ۔

یہ دوہرا معیار کیوں؟ جب ایک ایسی شخصیت کو نشانہ بنایا جاتاہے ،جس سے دنیا کی ایک بڑی آبادی کے جذبات منسلک ہیں ،بلکہ دیگر ادیان واعتقاد کے لوگ بھی ان سے عقیدت ومحبت رکھتے ہیں،تو علم برداران حریت  اس کے جواز پر’’اظہار رائے کی آزادی‘‘ کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔لیکن جب بات ان کی ذات پر بنتی ہے تو اسے سنگین جرم شمارکرتے ہیں،اور جرم کرنے والا گردن زدنی قرارپاتا ہے۔واقعی یہ تعصب پرستی اور ذہنی دیوالیہ پن کا واضح ثبوت ہے کہ جب آپ پر گفتگو ہوتو اسے ہتک آمیزی کانام دے دیں اور جب مجھ پر کلام کریں تو وہ اظہار رائے کی آزادی ہوجائے۔

آج اس تاریخ کے استاد کی بیہودگی  اور فرانسیسی صدر کی حمایت نے عالمی مسلم برادری میں غم وغصہ کا ماحول پیدا کردیا ہے۔پورا عالم اسلام سراپا احتجاج ہے۔فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ ہورہا ہے۔مذہبی رہنماؤں نے  اس قابل نفریں عمل  کی مذمت کی ہے،بلکہ ٹوئٹر پر Prophet for all ہیش ٹیگ سے ایک ٹرینڈ بھی چلایا گیا ہے۔اس کی سنگینی پر اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا اور دین ومذہب سے متعلق کسی قسم کی بھی رائے  زنی پر اپنے تحفظات پیش کیے،جوکہ لائق ستائش قدم ہے۔اسی طرح کینیڈا کے وزیر اعظم  نے بھی  اظہار رائے کی  حدود متعین کرنے کی بات کہی ہے،جس پرعمل درآمد ضروری ہے۔ورنہ نفرتوں میں اضافہ ہوگا،اضطراب وبے چینی بڑھے گی،جذباتوں کی پامالی ہوگی،احترام انسانیت مٹ جائے گا،تہذیبیں متصادم ہوں گی،نسلی تعصب پروان چڑھے گااورامن وسلامتی اور صلح وآشتی کی راہ معدوم ہوتی چلی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پیغمبر اسلام ﷺکی شان میں جو گستاخیاں ہوئیں ،وہ واقعی ناقابل معافی جرم ہے۔لیکن اس کے رد عمل میں تشدد اورمعصوم جانوں کا اتلاف،ایسی کارروائیاں  ہیں،جوپُرامن بقائے باہمی کے ساتھ ساتھ سماجی اور بین المذاہب ہم آہنگی کی راہ میں روکاوٹ کا باعث بن سکتی  ہیں۔ اس لیے جذبات وانفعالیت  اور تشدد پر مبنی رد عمل کی بجائے سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے جو بھی قانونی ذرائع حاصل ہیں ان کے ذریعے ہمیں اپنا احتجاج درج کرائیں۔

Facebook Comments

shakiradiltaimi
محمد شاکر عادل بن محمد عباس بی ۔اے،جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ ہائر ڈپلوما ان کاؤنسیلنگ اینڈ گائیڈنس(جامعہ اسلامیہ ،مدینہ منورہ) استاذ جامعہ الہدی الاسلامیہ،ہورہ،کولکاتا،مغربی بنگال

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply