کہاں تک روؤں اس کے خیمے کے پیچھے

ہم کیا اور ہمارا رونا کیا؟ چلیں ذرا شروع سے ہی رو لیں۔ ہم یہ کہتے ہیں علاؤالدین خلجی کے بیٹے شہنشاہ ہند کو جب ترک سرداروں نے برج سے گرایا تو مقبول عام روایت یہی ہے کہ گجراتی گھوڑے کے ساتھ گھوڑی بنا ہوا تھا۔ جی ہاں یہی ہے ہماری مشترکہ تاریخ اور تہذیب۔ نہرو کی کتاب کی تلاش ہند جسے ہم ہند اور انڈیا کہتے ہیں اس کی تاریخ ایسی ہی ہے۔
مزیدار سوال یہ ہے کہ ہند کے لوگوں نے جنسی مریض شہنشاہ سے جان چھڑا کے کس کو اگلا شہنشاہ منتخب کیا؟
کیا ایک بادشاہ جس کے دربار میں بے پناہ برہمن کائستھ بھی تھے کوئی اگلا مقامی ہندو شہنشاہ بھی تخت پہ بیٹھا؟ راجپوت ہی سہی؟ اگر نہیں تو حسرت کو تاریخ بنانا کیا؟ اور خواہش کو خبر بنانے کا مقصد؟
کیوں نہ ہم زندہ حقائق کی دنیا میں رہیں؟ اگر ہم ملا کے خبط عظمت کو مسترد کرتے ہیں تو برصغیر کی عظمت کے خبط کو مسترد کرنے میں خوف کیسا؟
ہمیں برصغیر کی بے انتہا جہالت اور پسماندگی کا اعتراف کرنے میں احساس کمتری محسوس ہوتا ہے لیکن حقائق حقائق ہی ہیں ۔دوستو اپنی جہالت اور پسماندگی کا اعتراف کرنے میں ہی کامیابی ہے۔
آئے کیوں نہ اس زمینی حقیقت کا اعتراف کریں کہ برصغیر ایک چھوتا براعظم ہی تھا ایک جغرافیائی طور پہ۔ باقی دنیاسے بہت حد تک کٹا ہو اجس طرح یورپ ایشیا سے کٹا ہوا تھا؟
ہمیں اس بات کو ماننے سے خوف کیوں کہ ہمارا سیاسی ارتقا سرے سے ہوا ہی کبھی نہیں؟
ہم کیوں اس بات کو ماننے سے یکسر انکاری ہیں کہ ایشیا کے بہت سے خطوں میں قوم اور قومی ریاست کا تصور وقت کے ساتھ ارتقا پذیر ہوا لیکن ہم پسماندہ ہی رہے؟ ہم اپنی پسماندگی اور جہالت کا اعتراف کرنے کی بجائے اس پہ پردہ کیوں ڈالتے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ یورپی اقوام کے ایشیا میں آنے سے بہت قبل ،ایشیا میں ہی قومی ریاستوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ ایران ، چین، جاپان، برما اور تبت تک قومی ریاستیں بن چکی تھیں اور اس میں ڈھل چکی تھیں۔ لیکن چانکیہ کا دیس اس سے محروم تھا۔ سیاست کی تاریخ کا دلچسپ سوال ہے کہ کیسے کوئی سلطنت ایک قومی ریاست بناتی ہے یا کوئی قوم اپنی ریاست بناتی ہے۔
سلطنتیں قومی ریاستوں کو تشکیل دیتی رہیں۔ ایران کی سلطنت پنجاب سے ترکی تک پھیلی ہوئی تھی لیکن اس کا ہارٹ لینڈ فارسی بولنے والا علاقہ بالآخر ایران کی قومی ریاست ٹھہرا جس نے عربوں کی بے پناہ یلغار میں بھی خود کو قائم رکھا حالانکہ حضرت عمر کی فتوحات میں باقی تمام علاوہ جات عرب بن گئے اور آج بھی عرب ہیں لیکن ایران عرب نہ بنا۔
اسی طرح جاپان، کوریا اور چین میں مغربیوں کی آمد اور بعد کی کشمکش ہے۔ لیکن کیا انڈیا ایک قومی ریاست تھا ؟ کیا ایک انڈین قومیت کا احساس انگریز سے قبل بھی تھا ؟ اس سوال کا جواب واضح طور پہ نفی میں ہے۔ کیا ٹیپو سلطان کی کوئی نماز جنازہ شمالی ہند یا ہندی بیلٹ میں پڑھائی گئی؟ البتہ ٹیپو سلطان کی پڑپوتی پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں کے لئے فرانس میں جاسوسی کرتے قتل ہوئی اور سلطنت کی بے حد وفادار تھی۔ سوال یہ ہے کہ جس برصغیر میں سرے سے قومیت کا کوئی سیاسی تصور موجود ہی نہ تھا اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟
قومیت کے سیاسی تصور کی ابتدا شاہ ولی اللہ سے ہوتی ہے جنہوں نے افغان احمد شاہ ابدالی کو بلایا تاکہ انڈیا میں مسلمانوں کی حکومت قائم رہ سکے۔ یہ دو قومی نظریہ تھا۔ اس کے بعد ایک نیا قومی نظریہ بعد میں انیسویں صدی کے اواخر میں پیش ہوا جب انگریز اے آر ہیوم نے ہندوستانیوں کی سیاسی زندگی کو منظم کرنے کا عہد کیا اور آل انڈیا کانگریس کی بنیاد ڈالی ۔کانگریس بیسویں صدی کے اوائل سے اس بات کی قائل تھی کہ برٹش انڈیا کے باسی ایک قوم ہیں اور ہندوستانی کا مطلب ہندی بیلٹ کے لوگ نہیں بلکہ تمام برٹش انڈیا ہے۔ اس طرح برٹش سلطنت نے ہندوستانی یک قومیت کا نظریہ آگے بڑھایا جس کو مولانا حسین احمد مدنی و دیگر مذہبی رہنماؤں نے نہرو اور گاندھی کے ساتھ مل کے مہر تصدیق ثبت کی۔ دو قومی نظریہ اپنے طور پہ جدوجہد کرتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم دو قومی نظریہ کو مسترد کرتے ہیں تو یہ کس طرح فرض کرلیتے ہیں کہ یک قومی نظریہ درست تھا؟
نیشن سٹیٹ یا قومی ریاست کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جب قوم میں قومیت کا احساس ہی نہ ہو تو اس کو خود پہ وارد کرنا بے معنی ہے۔ انگریز کے آنے سے قبل جب کوئی ایسا احساس موجود ہی نہ تھا تو یک قومی نظریہ کی ہمیشہ موجودگی کس طرح عقل تسلیم کرے؟
ہمیں یہ ماننے میں عار کیوں کہ برصغیر سیاسی سوچ میں باقی ایشیا سے بہت پسماندہ تھا اور اب ارتقا کے دور سے گزر رہا ہے۔ اور دوقومی نظریہ سے اس ارتقا کا آغاز ہوا ہے۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply