قصّہ شہر بدر کا(قسط3)۔۔شکور پٹھان

پچھلے دو دن سے بحرین میں نے صرف رات میں دیکھا تھا۔ آج جمعہ تھا ۔ آج چچا کے ساتھ ذرا ڈٹ کر ناشتہ کیا۔مراد یہ کہ کچھ وکھری ٹائپ کا ناشتہ کیا۔ کراچی میں تو ہمارا تقریباً ہرروز ایک سا ناشتہ ہوتا یعنی امی کے ہاتھ کے تر تراتے پراٹھے اور گول پیالیوں میں چائے۔ اتوار کو ذرا عیاشی ہوجاتی تھی کہ کبھی کبھار بازار سے نہاری یا حلوہ پوری لے آتے لیکن یہ بہت ہی کم ہوتا البتہ امی کوئی نئی چیز ضرور بناتی تھیں۔ہماری امی کو طرح طرح کی چیزیں بنانے میں ملکہ حاصل تھا۔ ان کی اس جدت پسندی کے سبب غربت میں بھی ہمیں مزیدار چیزیں کھانے مل جاتیں۔ اب ان کی تفصیل بہت طویل ہے۔
یہاں ذرا انگریزی قسم کا ناشتہ تھا یعنی فرائیڈ ایگ ، ٹوسٹ، بٹر اینڈ جام ( اگر اسے تلا ہوا انڈہ، ڈبل روٹی، مکھن اور جام کہوں تو وہ بات نہیں بنتی)۔ یہ آغاز تھا آئین نو کو اپنانے اور طرز کہن کو الوداع کہنے کا۔ وہ طرز کہن جسے کئی سال بعد یاد کرکے اب آہیں بھرتے ہیں۔ کچھ دیر بعد چچا نے کہا چلو ذرا بازار چلتے ہیں۔ میں توبس منتظر تھا کہ گھر سے نکلوں اور زمیں دیکھوں،فلک دیکھوں اور فضا دیکھوں۔ اب تک تو صرف نیم اندھیری گلیاں ہی دیکھی تھیں۔

بحرین میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ میں آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا جیسے کوئی دیہاتی پہلی بار شہر آکر حیران و پریشان دیکھتا ہے۔ بلکہ بحرین تو ہمارے کھارادر اور میٹھا در سے بھی زیادہ پرانا اور ٹوٹا پھوپھا نظر آتا تھا۔ ہاں اگر کوئی فرق تھا تو یہ کہ یہاں لوگ ذرا مختلف نظر آتے۔ زیادہ تر تو اپنے ہی لوگ تھے لیکن ساتھ ساتھ قندورہ پہنے عرب، عربی اور فارسی بولتے، پتلون قمیض میں ملبوس ایرانی ( اور یہ عربوں سے زیادہ تھے) اور ان سب کے درمیان گورے اور گوریاں۔ لیکن سب سے بڑا فرق جو تھا وہ انسانوں اور مکانوں کا نہیں بلکہ چیزوں کا تھا۔ یہاں کی دکانوں میں وہ کچھ تھا جو ابھی ہمارے ہاں اس وقت اتنا عام نہیں تھا یا عام لوگوں کی دسترس میں نہیں تھا۔ اوّل تو یہاں کوئی چیز مقامی نہیں تھی۔ دکانوں میں سارا مال درآمد شدہ تھا۔ اور یہ کہ یہ ہر ایک کی دسترس میں تھا۔ جو چیزیں ہم کراچی میں صرف امیر ترین طبقے کے تصرف میں دیکھتے وہ یہاں ایک مزدور کے پاس بھی نظر آتی۔

ہم ایک سپر مارکیٹ میں گھس گئے جہاں چچا نے میرے لئے جلیٹ کے بلیڈ، اولڈاسپائس کے شیونگ فوم اور آفٹر شیو لوشن، ایک دو اچھے پرفیوم اور باڈی اسپرے، ٹوتھ پیسٹ اور برش وغیرہ خریدے۔ میرے چچا ہمیشہ معیاری چیزیں خریدنے کے عادی رہے، معیاری لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے اور معیاری باتیں کرتے۔ لیکن یہ سب مشاہدات تو ابھی ہونے تھے۔

یہاں سے نکل کر مجھے ملبوسات کی دکانوں میں لے گئے اور کئی قمیضیں، ٹی شرٹ اور ریڈی میڈ پتلونیں ، ایک سوئیٹر ، رومال ، موزے وغیرہ خریدے۔ مجھے کراچی میں بھی چچا کی وجہ سے ہمیشہ اچھے کپڑے ملتے رہے۔ میں ان کا لاڈلا ترین بھتیجا تھا۔ میرے لیے درجنوں “ ایگل ارتھ” کی قمیضیں اور دوسری چیزیں آیا کرتی تھیں۔ نویں جماعت میں تھا تو مجھے میری پہلی گھڑی “ فیور لوبا” دی ۔ میٹرک میں پہنچا تو رولڈ گولڈ کی نب اور کلپ والا “پار کر پین” کا تحفہ دیا۔ میرے لیے ڈنلپ کے ٹیبل ٹینس اور بیڈمنٹن کے ریکٹ لائے جنہیں میں کالج میں اتراتے ہوئے کتابوں کے ساتھ لیے پھرتا۔

اس طرح کی چند ایک ضروری اشیاء کی خریداری جاری تھی کہ مجھے خیال آیا کہ آج جمعہ ہے۔ گھڑی دیکھی تو بارہ سے اوپر کچھ وقت تھا۔
“ اب گھر چلیں۔ نماز کی تیاری کرنا ہوگی” میں نے توجہ دلائی۔
“ اوہ۔۔۔اب کون سی نماز؟” چچا چونکے۔
“ جمعہ کی۔۔ کتنے بجے ہوگی؟”
“ ہوگی نہیں ہوچکی۔ آج کل ساڑھے گیارہ بجے جمعہ ہورہی ہے”
“ کہیں اور جماعت مل جائے شاید “
“ نہیں یار۔۔گڑبڑ ہوگئی۔۔یہاں ایک وقت میں اذان اور نماز ہوتی ہے۔ پھر یہاں قریب میں کوئی اور جامع مسجد بھی نہیں”
فیصلہ ہوا کہ گھر چل کر ظہر پڑھ لیں گے۔

یہ دوسرا فرق تھا جو بحرین اور کراچی میں تھا۔ کراچی میں نماز جمعہ ہمارے محلے کی مختلف مساجد میں مختلف اوقات میں ہوتی تھی۔ ہمارے محلے کی اہلحدیث مسجد میں سوا ایک بجے جماعت ہوتی تھی اور جس دن ہمیں نئی فلم کا پہلا شو دیکھنا ہوتا تھا تو ہم اسی مسجد میں نماز پڑھتے اور سلام پھیرتے ہی سنیما کی جانب دوڑ لگاتے۔ لیکن میرے دوسرے محلے یعنی کوکن سوسائٹی میں جو اہل حدیث مسجد تھی وہاں جمعہ ڈھائی بلکہ پونے تین بجے ہوتا۔ کبھی کالج سے آنے میں دیر ہوجاتی تو ہمیں یہاں اطمینان سے جماعت مل جاتی۔

شام ہوئی تو چچا ، چچی مجھے میری ماموں زاد بہن سے ملو انے لے گئے جو قریب ہی رہتی تھیں۔ ان کا تعلق انڈیا سے تھا۔ ان کے شوہر میرے ابا کے چچا زاد بھائی تھے۔ کچھ دیر یہاں بیٹھ کر منامہ سے کافی دور ایک فارم ہاؤس نما گھر چلے گیے ۔ یہاں انہی رشتہ دار یعنی چچا زاد بھائی کی بہن۔ یعنی ہماری رشتے کی پھوپھی رہتی تھیں۔ یہاں بھی زیادہ دیر نہیں بیٹھے ۔ کافی پی اور واپسی کے لیے منامہ لوٹ گئے۔
چچا شہر میں مختلف جگہ گھومتے رہے۔ کہیں ان کے کوئی دوست مل جاتے۔ کچھ دیر رک کر گپ شپ کرتے اور آگے بڑھ جاتے۔ ایک ریستوران “ شاہ ساز” کے باہر رکے تو ہمیں دیکھ کر ایک اسمارٹ اور خوش پوش سے صاحب باہر آئے۔ یہ چچا کے دوست “ پاشا بھائی” تھے۔ پاشا بھائی کراچی کے تھے لیکن ان کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا اور دکن کے مخصوص لہجے میں بات کرتے تھے۔ یہ اس ریستوران کے مالک تھے۔ چچا نے میرا تعارف کروایا۔ میں نے نہایت احترام سے انہیں سلام کیا اور ایک جانب خاموش کھڑا ہوگیا۔ کچھ دیر میں پاشا بھائی اندر لوٹ گئے۔
“ یار اتنا زیادہ با ادب بننے کی ضرورت نہیں “ چچا نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
“ یہاں سب اپنے بے تکلف دوست ہیں۔ ہر ایک سے اطمینان سے اور کھل کر ملو”

چچا نے تو یہ کہہ دیا لیکن شاید بعد میں وہ کبھی اس پر پچھتائے بھی ہوں۔ میں اس وقت بڑا شرمیلا تھا لیکن کم گو نہیں تھا۔ ایک بار جو حجاب اٹھ گئے تو پھر میرا رکنا مشکل ہوجاتا ۔ چچا کے دوستوں سے کچھ زیادہ ہی بے تکلف ہوگیا۔ بعض اوقات چچا حیرانی سے مجھے دیکھتے کہ یہ وہی کراچی والا بونگا اور بے وقوف سا بابو ہے۔
“ چل تجھے شاورما کھلاؤں “ الحمرا سنیما کے سامنے کار روکی۔
یہ “ شکری” کا شاورما تھا۔ بڑے سے کمرے میں صرف ایک شاورمے کی مشین لگی تھی۔ ایک سو فلس یعنی ایک روپے کابڑا سارا شاورما تھا۔ میں نے اس کے بعد بہت شاورمے کھائے۔ اب بھی اکثر شام کو کہیں باہر جاؤں تو شاورما کھاتے ہیں۔ اب ایک درہم کا شاورما کہیں نہیں ملتا۔ پانچ بلکہ کہیں کہیں دس درہم کا بھی ملتا ہے۔ لیکن شکری کا شاورما پہلے پیار کی طرح آج تک نہیں بھولتا۔ جب تک بحرین میں رہا اور شام میں جب کبھی الحمرا اور النصر سنیما کے آس پاس ہوا، (اور اکثر وہیں ہوا کرتا تھا) تو شکری کے شاورمے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا۔

ہم کاظمی بھائی کے گھر آگئے۔ کاظمی بھائی بھی کراچی کے تھے اور انتہائی دلچسپ اور ملنسار انسان تھے۔ کاظمی بھائی کی بیگم بھی ان کی طرح بہت نفیس، شفیق اور منکسر مزاج تھیں۔ چچا، چچی اور کاظمی بھائی اور بھابھی مزے مزے کی باتیں کرتے رہے۔
“ بھئی نیا سال مبارک ہو” کاظمی بھائی اچانک بولے۔
باہر گاڑیوں کے ہارن سنائی دے رہے تھے۔ ساری گاڑیاں ایک ساتھ ہارن بجا رہی تھیں۔ چچا نے گھری دیکھ کر اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن کاظمی بھائی نے روک دیا۔
“ ابھی کچھ دیر ٹھہر جائیں۔ کمبخت ابھی بہت ہنگامہ مچائیں گے” ۔

کچھ دیر بعد جب ہم اٹھنے لگے تو کاظمی بھائی اور بھابی نے بہت ساری نصیحتیں کیں کہ دیکھ کر گاڑی چلائیں۔ اس وقت یہ سب پی کر “ آؤٹ” ہوچکے ہوں گے۔ آپ سنبھل کر جائیے گا۔
یہ تیسرا فرق تھا جو بحرین اور کراچی میں تھا۔ اس وقت تک پاکستانی اتنے زیادہ کرشٹان نہیں بنے تھے۔ عام آدمی کو تو خبر بھی نہیں ہوتی تھی کہ کل سے نیا سال شروع ہوگا۔ اس کے لیے سارے دن ایک جیسے تھے۔ البتہ مغرب زدہ اور کھاتے پیتے لوگ میٹروپول، بیچ لگژری اور گرانڈ وغیرہ میں جمع ہوتے ۔ مسخروں جیسی تکونی ٹوپیاں پہنتے، راک اینڈ رول، ٹوئسٹ اور رمبھا سمبھا کی دھنوں پر مٹکتے، جھومتے اور اپنے ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت دیتے۔ اگلے دن کے ڈیلی نیوز اور ایوننگ اسٹار میں ان کی تصویریں چھپتی ان جنہیں ہم یوں دیکھتے جیسے کسی غیر ملکی اخبار کو دیکھ رہے ہوں۔

کچھ دیر بعد ہم سڑک پر دوسری جانب جانے کے لیے کھڑے تھے جہاں چچا کی گاڑی پارک تھی۔ میری گود میں چچا کا شیر خوار بیٹا تھا۔ بیٹی بھی سو چکی تھی اور چچی کی گود میں تھی۔ باہر شدید ٹھنڈ تھی۔ میں سڑک پار کرنے کے لیے دائیں جانب دیکھ رہا تھا اور سڑک خالی دیکھ کر قدم آگے بڑھایا۔
“ شائیں” میری بالکل قریب سے ایک کار فراٹے بھرتی ہوئی گذری۔ خوف کی عجیب سی لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں دوڑگئی۔
یہ چوتھا فرق تھا جو بحرین اور کراچی میں تھا۔ یہاں ٹریفک سڑک کے بائیں جانب سے چلتی تھی ۔ میں مخالف سمت میں نظریں گاڑے ہوئے سڑک پار کررہا تھا۔ اور میرے کاندھے سے میرا شیرخوار چچا زاد بھائی لگا ، گہری نیند سو رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply