بول،کہ لب آزاد ہیں تیرے

پھر انہوں نے میرا رخ کیا ___مگر اس وقت بچا ہی کوئی نہیں تھا جو میرے لئے آواز اٹھاتا.
گیتا ہری ہرن نے اپنے ناول in times of siege میں ایک جرمن پادری ریورنڈ مارٹن نیمولر کا حوالہ دیا ہے،جسے نازیوں نے سزائے موت دے دی تھی.
موت سے پہلے اس پادری کا کہنا تھا کہ،جرمنی میں پہلے وہ کیمونسٹوں کے خلاف حرکت میں آئے اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ میں کیمونسٹ نہیں تھا.
پھر انہوں نے یہودیوں کے خلاف اقدام کیا اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ میں یہودی نہیں تھا.پھر انہوں نے ٹریڈ یونینوں کا قلع قمع کیا اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ میرا تعلق کسی ٹریڈ یونین سے نہیں تھا.پھر انہوں نے ہم جنس پرستوں کو نیست و نابود کیا اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ میں ہم جنس پرست نہیں تھا.پھر انہوں نے کیتھولکس پر ظلم وستم کئے اور میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ میں پروٹسٹنٹ تھا.پھر انہوں نے میرا رخ کیا ،مگر اس وقت کوئی بچا ہی نہیں تھا جو میرے لئے آواز اٹھاتا۔
پادری مسٹر نیمولر مع آپکا قصہ تمام ہوتے آپکی مدافعانہ ضمیر کی متاخر آواز کا قصہ ہم سن چکے.ویسے تو ہمارے جھنڈے کے بانی چوہدری رحمت علی خان اور آپ کے نازی قائد ہٹلر کی ملاقات مرحوم ایس ایم ظفر صاحب موت کے بعد ایک مضطرب سیارے پر ایک مکالمہ کی صورت اپنے ایک کالم میں کروا چکے ہیں.آپ پادری ہیں اور یقیناً آپ کی بات بھی بلحاظ مرتبہ ہی ہے ،مگر میں چونکہ ایک عامی ہوں اور تعلق بھی ایک نہ صرف تیسری دنیا بلکہ اب تو طفیلیت کے سفر پر گامزن ریاست سے ہےاور میری مختصر سی تاریخ بھی کوئی زیادہ نمائش کے لائق شے نہیں ہے،تو اس لئے میری گفتگو عامیانہ اور مسائل فقط جی لینے دینے کی رخصت کے حصول تک ہی محدود ہیں۔تو جناب آپ سے ہمارا براہ راست مکالمہ تو ممکن نہیں تب کے دنوں میں فضا خاصی پر امن تھی آجکل فضا میں خاصا بارودی رش ہے تو اس حد کو پار کر کے آپ سے کسی مضطرب سیارے پر ملاقات تو ممکن نہیں.تاہم فضا میں وجود رکھتی ان لہروں پر ایک مراسلہ محو پرواز ضرور ہے.تو حضور میرا قصہ یہ ہے کہ ،
مجھے پتہ ہے کہ میرے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ڈاکٹرز اور انجینئر بے روزگار ہاتھ میں ڈگریاں لئے در بدر ہیں،مگر میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ نہ ڈاکٹر نہ میں انجینئر.ایک اندازہ ہے کہ 5 کروڑ عوام خط غربت سے نیچے سسک رہی ہے ،میں نے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ مجھے تینوں وقت کی روٹی کی عیاشی میسر ہے ___!کروڑوں افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ،مجھے کوئی پرواہ نہیں، میں تو منرل واٹر کی بوتل خرید سکتا ہوں ،پھرکیوں آواز اٹھاوں ؟
کوئی بے روزگار پنکھے سے جھول جائے ،یا کوئی فاقہ زدہ وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے خود سوزی کر لے ،میری بلا سے.کسی وڈیرے کے ہاتھوں کسی غریب کی بیٹی کی زندگی تاریک ہوتی ہے ہو جائے یا 10 ہزار روپے سود کے عوض جرگہ کسی ہاری کی معصوم بیٹی کو زمیندار کے حوالے کر دے،کوئی پنچائیتی سرپنچ بھائی کی غلطی پر اسکی حافظ قرآن بہن کو سر عام 10 نوجوانوں کے حوالے کر دے،کوئی شاہ زیب قتل ہو جائے،مگر کسی جتوئی سے بچنے کے لئے کوئی ماں کہے میرے گھر میں جوان بیٹیاں ہیں،مگر میری آواز نہ نکلے گی۔
روٹی کے بدلے عصمت ،سکول بیگ کے بجائے معصوم بچے کے کندھے پر کچرے کا تھیلا اور ہاتھ میں کسی ورکشاپ میں کام کرتے ننھے ہاتھوں میں اوزار رہیں،ہسپتال کی ایمرجینسی وارڈ میں ٹھیلے پر لدے مریض دیکھوں ،بیرون ملک جاتے 5 کروڑ ڈالر کا تھیلا پکڑنے والے کسی ایف آئی اے آفیسر کی لاش دیکھوں یا کسی پالتو تھانیدار کے ہاتھوں کسی بے گناہ کمزور کی ادھڑتی کھال دیکھوں،300 معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی ہو جائے ،یا کسی خواجہ سرا کو بربریت کا نشان بنا ڈالا جائے،یا کالے دھن کو سفید کرنے کیلیئے میرے منہ پر پلی بارگینگ کا میرے ہی ایک سرکاری ادارے کی طرف سے تھپڑ مارا جائے ،تسلی رکھیں میری آواز پھر بھی نہیں اٹھے گی.قصہ بہت طویل ہے ۔
البتہ جب مضطرب سیارے پر آپکے نازی قائد ہٹلر نے ہمارے چوہدری صاحب سے ملک پاکستان کی بابت پوچھا تو چوہدری صاحب نے جھٹ سے اپنی بغل میں دبایا ہوا میلا سا ایک نقشہ ہٹلر کے سامنے پھیلا دیا،جسکو دیکھ کر ایک بے اعتنا مسکراہٹ کے ساتھ ہٹلر نے کہا کہ یہ تو انگریز کی غلام قوم تھی،عجیب لوگ تھے اپنا ملک ،گھربار اور آرام چھوڑ کر انگریزوں کی خاطر ہم سے لڑنے آگئے تھےویسے بہادر لوگ تھے۔صاحب ،ہٹلر ایک مہم جو اور جنگی جنون رکھنے والا آدمی تھا تو شاید زندگی نے اسے ہماری غلام ابن غلام ابن غلام قوم کی تاریخ پڑھنے کا موقع نہیں دیا.اس لحاظ سے میرے گونگے پن پر قدرے رعایت تو بنتی ہے.اور اگر آج کی بات کریں تو ہمارے حکمران جنہوں نے سیاست کو عبادت اور عوام کی خدمت سمجھنے کے بجائے ایک ذریعہ روزگار بنا لیا ہے.
نہ ملکی وسائل کو لوٹنے،قومی مفاد کے سودے کرنے ،عوام کو ایک مضبوط قوم بنانے کے بجائے ،برادریوں،نسلی اور لسانی تقسیم ،مذہب کے بجائے مسالک میں تقسیم کرنے ،سیاسی شعور عطا کرنے کے بجائے مختلف سیاسی گروپوں میں تقسیم کرنے میں کوئی کسر اٹھا رکھی ہے بلکہ ملک کے ٹکڑے بھی کر کے چھوڑے ہیں.
کل تک ایک دوسرے کو سیکیورٹی رسک کہنے والے ،ملک توڑنے والے ،غدار ،یہودیوں کے ایجنٹ ،دہشت گردوں کے استاد،قاتل،انتڑیوں میں ہاتھ ڈال کر قوم کا پیسہ نکالنے والے اور آج پانامہ پیپرز کا تعارف رکھنے والے کیسے اقتدار کی بھوک میں سانجھا دسترخوان بچھا لیتے ہیں؟ اور قوم کی قبر بنا کر اس پر جمہوریت کی پٹڑی بچھا دی جاتی ہے.جس پر دوڑتی جمہوری ریل کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کیلئے زیادہ سے زیادہ عوام کی قبروں کی ضرورت ان کو ہر لمحہ رہتی ہے۔
کیونکہ اس ملک کے عوام کیڑے مکوڑے ہیں ،بھیڑ بکریوں کے ریوڑ ہیں یہ سب جو ایک جغرافیائی حد میں مسلح محافظوں کے پہرے میں انسانوں جنہیں ہمارے ہاں صرف میاں ،بھٹو،لغاری ،چٹھہ،رانا ،زرداری ،مخدوم ،گیلانی ،بگٹی ،چوہدری و غیرھم ہی کہا جا تا ہے کیلیئے حکومت،قتل و غارت ،استحصال اور لوٹ کھسوٹ کا سامان ہیں.جس پر انکی عوام کے خون سے رنگی سرخ رنگ کی مال بردار جمہوری ریل سر پٹ دوڑتی ہے.ہو بھی کیو ں نہ جب آواز نہیں اٹھے گی تو ،اور اگر اٹھے گی بھی تو اپنی تاریخی خصلت کے پیش نظر قیادت کے نام پر ایک گالی ایسے اپنے اپنے سیاسی خداوں کے دفاع اور انکی پاک دامنی کی وکالت میں اٹھے گی،انکے سیاسی کاروباری جلسے جلسوں میں نعرہ بازی میں اٹھے گی.
ایسے میں اس ریوڑ کو خرقہ سالوس میں چپھے برہمنوں ،رام کی قبا اوڑھے راونوں ، ،رہبر کے روپ میں رہزنوں ،علما کی عبا سے علم و اخلاقیات کی ضیا کے بجائے پھوٹتی ظلمت ،سے چھٹکارا کیسے ممکن ؟
ذمہ دار کون؟سیاستدان ؟مہم جو عساکر ؟مذہبی پیشوا ؟یا عوام خود ؟کیا ہم بھی پادری ریورنڈ مارٹن نیمولر کی طرح کسی ایسے لمحے کا انتظار کر رہے ہیں ؟
جب اس نے کہا پھر انہوں نے میرا رخ کیا ،مگر اس وقت کوئی بچا ہی نہیں تھا جو میرے لئے آواز اٹھاتا.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”بول،کہ لب آزاد ہیں تیرے

Leave a Reply