تلخیاں! حب الوطنی سے غداری تک(قسط1)۔۔محمد اسلم خان کھچی

2014 کی بات  ہے جب ترک صدر طیب اردگان صاحب کی طرف سے وزیر اعظم پاکستان نوازشریف صاحب سے درخواست کی گئی کہ ڈرامہ سیریل ارتغرل غازی کو پاکستانی ٹی وی چینلز پہ نشر کیا جائے ۔نواز شریف صاحب نے وعدہ کیا لیکن بھارت اور سعودی عرب کی ناراضگی کے ڈر سے حسب عادت مکر گئے۔
میری نوازشریف صاحب کے کئی قریبی لوگوں سے ملاقات رہی ہے۔ میں نے ایک بار ایک سینئر سیاستدان سے سوال کیا کہ نوازشریف کی کوئی بری عادت بتائیں۔۔
تو انکا جواب تھا کہ نواز شریف صاحب میں دو عادتیں بہت بری ہیں۔
ایک تو وہ جھوٹ بہت بولتے ہیں
اور دوسری بات کہ وہ انتہائی منتقم مزاج شخص ہیں۔ کسی کو معاف نہیں کرتے۔
یہ دونوں باتیں سچ ہیں۔پانامہ ہنگامہ کے دوران اجلاس میں ایم این اے جمشید دستی نے نواز شریف کی چیئر کے پاس صرف دو نعرے لگائے۔ بیچارے کو مظفر گڑھ نہیں پہنچنے دیاگیا۔ راستے میں گرفتار کیا اور سٹنگ ایم این اے ( غریب عوام پارٹی کے چیئرمین ) پہ ظلم کے ایسے پہاڑ توڑے گئے کہ میڈیا پہ دستی صاحب کی چیخوں کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کو مداخلت کرنا پڑی تب جا کے بیچارے کی جان چھوٹی۔

پاکستان میں آپ کو لاکھوں متاثرین مل جائیں گے جو شریف برادران کے مظالم کا شکار ہو کے یا تو مر گئے یا دوسرے ملکوں میں شفٹ ہو گئے۔انکے اپنے چچا اور کزنز بھی انکے شر سے محفوظ نہیں رہے۔ان پہ ظلم کے ایسے پہاڑ توڑے گئے کہ شریف برادران کے بزنس پارٹنر ہونے کے باوجود جان بچانے میں ہی عافیت جانی اور اب کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اگر آپ نے انکے مظالم کی داستان سننی ہے تو مسٹر آصف علی زرداری سے سنیے۔

انسپکڑ نوید سعید گجر جو لاہور سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ تفتیش کیلئے بائی ایئر کراچی جاتے اور مسٹر زرداری پہ اتنا تشدد کرتے کہ زرداری صاحب بے ہوش ہو جاتے۔ میاں صاحب کو زرداری صاحب کی درد بھری کراہیں سنائی جاتیں۔ تب جا کے میاں صاحب کے منتقم مزاج رویے کو تسکین ملتی۔ مسٹر زرداری پہ بے پناہ تشدد کیا گیا ۔گردن پہ زخم لگائے گئے اور زبان تک کاٹی گئی جسکی وجہ سے زرداری صاحب ابھی تک صحیح طرح سے بول نہیں سکتے۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی ایم پی شپ کے دوران گرفتاری کے دنوں  میں  تھپڑ تک مارے گئے۔

مسٹر نوید سعید گجر وردی کی آڑ میں باقاعدہ رکھیل غنڈے تھے ۔آپ اندازہ لگائیے کہ وزیر اعظم کی ہدایات پہ جناب جنرل پرویز مشرف صاحب کی سری لنکا واپسی پہ انہیں گرفتار کرنے کراچی جا پہنچے لیکن کچھ عرصہ بعد مکافات عمل کا شکار ہو کے چند مرلہ زمین پہ قبضہ کی خاطر خود قتل ہو گئے۔

میاں صاحب نے طیب اردگان صاحب سے ڈرامہ نشر کرنے کی حامی بھری لیکن جیسے تیسے کر کے جھوٹ بولتے ہوئے وقت گزار گئے ۔
ویسے بھی اگر میاں صاحب کی دور اقتدار پہ نظر ڈالی جائے تو سارا دورانیہ دھوکہ دہی اور جھوٹ پہ مبنی ہے۔ 1980 سے لیکر 1999 تک 5 حکومتوں کے خلاف سازشوں میں شریک کار رہے۔ محمد خان جونیجو سے لیکر محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کی ہر حکومت کو گرانے کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔ بقول حامد میر کہ ہمیں پہلے ہی بتا دیا جاتا کہ تین ماہ بعد ہم اقتدار میں آنے والے ہیں۔1990 سے لیکر 2018 تک کوئی آرمی چیف انہیں پسند نہیں آیا۔ 1999 میں جب شجاع آباد جلسہ میں تقریر فرما رہے تھے تو اچانک تقریر ادھوری چھوڑ کے اسلام آباد بھاگے اور پنڈی بازار سے وردی اور سٹار خرید کے ایک انجینئر کو آرمی چیف لگا دیا ۔نئے آرمی چیف جن سے میری ایک بار ملاقات بھی ہوئی ہے کچھ نیم پاگل سے لگتے ہیں۔ سٹار کندھوں پہ سجائے جی ایچ کیو فون کرتے ہیں کہ آپکا نیا آرمی چیف آفس سنبھالنا چاہتا ہے لیکن آگے سے جواب ملتا ہے ” سر ۔۔۔۔ جی ایچ کیو جنرل مشرف کے انتظار میں ہے “۔

وزیراعظم پاکستان کی طرف سے جنرل مشرف صاحب کے بارے میں حکم صادر فرمایا جاتا ہے کہ انہیں انڈیا بھیج دیا جائے۔ طیارے میں فیول کم ہے ۔ کریش سے چیف آف آرمی سٹاف سمیت 300 لوگوں کی موت بھی ہو سکتی تھی ۔بلآخر ملٹری نے کنٹرول کا کنٹرول سنبھالا اور طیارہ بحفاظت لینڈ کر گیا اور عملے  سمیت 300 لوگوں کی جان بچ گئی۔
کارگل کے شہیدوں کے خون سے ان کے ہاتھ لتھڑے ہیں۔ انکی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہزاروں فوجی شہید ہو گئے لیکن ہمیشہ کی طرح الزام فوج پہ دھر دیا گیا۔
میاں نوازشریف کے سنگین جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے۔ لکھنے کیلئے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔
کہتے ہیں نا کہ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے،اندھیر نہیں۔موصوف مکافات عمل کے اصول الہی کے تحت پانامہ جیسی گمنام ریاست کا شکار ہو کے دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہوئے اور اب پاک افواج کو رسوا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
جب پانامہ کا ہنگامہ ہوا تو جناب خواجہ آصف صاحب نے اسمبلی فلور پہ فرمایا تھا
” فکر نہ کریں میاں صاحب, یہ قوم بہت جلد بھول جائے گی ”
لیکن اس اسمبلی میں عمران خان بھی تھا۔ جس نے قوم کو بھولنے نہیں دیا اور میاں صاحب کو بلآخر کاغذ کے چند ٹکڑے سامنے رکھ کر اسمبلی فلور پہ بحیثیت وزیر اعظم جھوٹ بولنا پڑا کہ ” حضور یہ ہیں وہ ذرائع “۔جو کہ بعد میں سپریم کورٹ کے بار بار استفسار پر بھی نہیں دکھائے گئے اور نتیجتاً سزا یافتہ مجرم بن کے جیل یاترا پہ چلے گئے۔

مریم نواز صاحبہ بھی جعلسازی کے جرم میں سزا یافتہ ہو گئیں۔ کیپٹن صفدر بھی مجرم ٹھہرائے گئے لیکن معدے کی تکلیف کے باعث انسانی ہمدردی کے تحت ضمانت پہ رہا کر دیئے گئے۔
کسی انٹرنیشنل میڈیا نے سچ کہا تھا کہ پاکستانی عدالتیں “Bitches of the Rich’s ” ہیں اور یہ بات دل کو بھی لگتی ہے کیونکہ چند ہفتے پہلے ایک 95 سالہ بزرگ کسی معمولی تکلیف سے جیل میں انتقال فرما گئے۔ التجاؤں کے باوجود کسی عدالت نے نہیں سنی کیونکہ اندیشہ تھا کہ یہ 95 سالہ ملزم باہر کوئی بم دھماکہ کر دے گا۔
Bitches of the Riches کی مہربانیوں کے باعث اس وقت تمام سزایافتہ مجرم اور کرپشن کیسز میں ضمانت پہ ر ا ملزم اکٹھے ہو چکے ہیں۔ اپنے کرپشن کیسز میں ریلیف کیلئے حکومت کے خلاف اتحاد بنا کے حکومت گرانے کے چکر میں مصروف عمل ہیں۔ سپریم کورٹ کی سسلین مافیا والی کہانی سچ ثابت ہوئی ہے۔
آپ اس وقت حکومت مخالف تحریک میں شامل ہونے والے چہروں کو دیکھیں ، کوئی ایک چہرہ بھی ایسا نہیں ملے گا جو کرپشن میں ملوث نہ ہو۔
دل میں ایک حسرت سی ہے کہ کاش جنرل جیلانی 1980 میں نوازشریف نامی آکاس بیل کو پاکستان جیسے تناور درخت پہ نہ لپیٹتے تو آج پاکستان دنیا کا امیر ترین ملک ہوتا۔
اگر میرے جیسے آدمی کے پاس ایک ارب روپے ہوں اور میں روزانہ بلیک لیبل وہسکی , ڈانس, کھانے, عیاشی پہ 50000 ہزار روپے خرچ کروں تو مجھے ایک ارب خرچ کرنے میں 54 سال لگ جائیں گے۔ لیکن ان کے پاس تو ہزاروں ارب ہیں۔ اربوں روپے تو یہ لوگ ریوڑیوں کی طرح بانٹ دیتے ہیں۔

اسلام آباد ایئر پورٹ کا 38 ارب سے شروع ہونے والا پروجیکٹ 110 ارب تک جا پہنچا۔ بعد میں پتہ چلا کہ مریم صاحبہ کے داماد کا کنٹریکٹ ہے۔جب ایک پروجیکٹ سے 72 ارب نکالا جا سکتا ہے تو پاکستان میں تو کنکریٹ کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ جدھر دیکھو۔۔۔ پل, سڑکیں, میٹرو, اورنج ٹرین, ترقی ہی ترقی ہے۔ اب پاکستانی عوام سوچ رہی ہے کہ یاجوج  ماجوج کی طرح بھوک مٹانے کیلئے انہیں چاٹنا شروع کر دیا جائے۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو بھوک مٹے گی  اور دوسرا اس کنکریٹ کے جنگل سے بھی نجات مل جائے گی کیونکہ میٹرو, اورنج چلانے کیلئے بھی تو سالانہ اربوں روپیہ ٹیکس دینا پڑے گا۔

بات چلی تھی ارتغرل ڈرامے سے ,نواز شریف صاحب تو جھوٹ بول کے دور ِ اقتدار گزار گئے لیکن عمران خان صاحب نے ڈرامہ نشر کرنے کا حکم دے دیا جس سے ہماری روحوں اور جسموں کی مالک عرب سرکار ناراض ہو گئی۔ عرب سرکار کو خدشہ ہے کہ جناب طیب اردگان صاحب دوبارہ سلطنت عثمانیہ کی طرف جانا چاہتے ہیں اور دوسری بات کہ عرب پاکستان , ترکی اور ملائشیا کے نئے بلاک سے پریشان ہیں۔ او آئی سی پہ وزیر خارجہ کے بیان نے جلتی پہ تیل کا کام کیا کیونکہ سعودی عرب نہیں چاہتا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو۔ انڈیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ وعدے وعید ہیں۔مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کی امریکی سرکار کو ضمانت پہ ٹھیس پہنچی ہے ۔

سعودی عرب کی ناراضگی کی وجوہات ارتغرل غازی سے شروع ہو کے کشمیر پہ ختم ہوتی ہیں اور عمران خان کی غلطی یہ ہے کہ اس نے عرب کی طرف سے دہائیوں پہ مسلط پاکستان کی غلامی کی زنجیروں کو توڑا ہے۔ کشمیر کاز کو پوری دنیا پہ اجاگر کیا ہے۔ مودی سرکار کی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ آج پوری دنیا انڈیا کو کشمیر کے مسئلے پہ غاصب مان چکی ہے۔

عمران خان صاحب کی دوسری غلطی یہ ہے کہ اس نے یونائیٹڈ نیشن میں حضور اکرم ﷺ کی دائمی عظمت پہ تقریر کی ہے اور پوری دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ ہماری عزت, جان ,مال آپ ﷺ پہ نچھاور ہے۔سلطنت عثمانیہ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بلند اور بیباک آواز دنیا کے سب سے بڑے ایوان میں گونجی ہے جس نے پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ خاکے رک گئے ہیں اور ٹرمپ جیسے صدر نے ہمارے موقف پہ تصدیق کی مہر لگائی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply