• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • راجند ر سنگھ بیدی کے آخری ماہ وسال۔۔سلمیٰ اعوان

راجند ر سنگھ بیدی کے آخری ماہ وسال۔۔سلمیٰ اعوان

راجندر سنگھ بیدی اُردو ادب کا ایک بے مثال نام جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسا حقیقت پسند افسانہ نگار ہے جس کے ہاں قوت مشاہدہ اور قوت متخیلہ دونوں جواہر اپنی بھرپور توانائی اور شدت سے موجود ہیں۔ انسانی ذات کی جتنی پرتیں اور تہیں ہیں، اس کی شخصیت میں نفسیاتی مسائل کی جو کجیاں اور گرہیں ہیں۔ وہ بیدی کی ایکس رے مشین میں فٹ آنکھ کی طرح اس کے اندر اتر کر ہر نس اور ہر ورید کی حقیقت کو جان لیتی ہیں۔ یہ اُس کا وہ وصف ہے جس نے اُس کی ہر تحریر خواہ وہ بچوں کے لئے لکھی گئی یا بڑوں کے لئے اُسے لافانی بنا دیا۔ سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے اس عظیم لکھاری کی شخصیت کی اتنی جہتیں تھیں کہ اُسے ورسٹائل کہنا بے حد موزوں ہے۔ اُردو کا بہت بڑا لکھاری تو وہ تھا ہی مگر ایک کامیاب سکرین اور ڈائیلاگ رائٹرکے ساتھ ساتھ ایک بہترین فلم ڈائریکڑ کا اعزاز بھی اس کے پاس تھا۔ ایسے بڑے کامیاب اور بھرپور زندگی گزارنے والے لکھاری کے آخری ایام کیسے گزرے؟ عروج کی بلندیوں کو چھونے والے کا زوال کیسا تھا؟

نچلے متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے بچے جن کی غربت اور مسائل ان پر دو طرح کے رد عمل کرتے ہیں کہ یا وہ بہت کمینے اور کنجوس بن جاتے ہیں یا پھر شاہ خرچ ہوجاتے ہیں۔ بید ی بہت شاہ خرچ تھا۔ مگر اس شاہ خرچی کے ساتھ کچھ اور قباحتیں بھی اُس کے ساتھ لپٹی ہوئی تھیں۔ شراب اور فلموں کی ہیروئنوں سے تعلقات۔ اُس کی بیوی ستونت جسے وہ پیار سے سوما کہتا تھا بہت خو ب صورت، محبت کرنے والی، ہمدرد، سچی، کھری، ہٹیلی، کٹڑ مذہبی اور ضدی عورت تھی۔ اُسے اُس کی اِن دونوں باتوں سے شدید چڑ تھی۔ ستونت کو کچھ صحت کے بھی مسائل تھے جنہوں نے اُسے چڑچڑی اور بد مزاج بنا دیا تھا۔

1973ء بڑا منحوس سال تھا اُس جیسے کامیاب فلم ساز کے لئے کہ فلم”پھاگن“ فیل ہوگئی اور اس کی بہت سی چیزوں کا بک بکاؤ ہوگیا۔ جس میں اس کا دفتر بمعہ سارے سازوسامان کے تھا۔ گھر میں آئے دن کے دنگا فساد اور مالی خسارے سے تنگ آکر وہ گھر چھوڑ کر اپنے بڑے بیٹے نریندر کے دفتر کے ایک کمرے میں رہنے لگا تھا۔

یوں بیدی ستونت کا بڑا مدّاح بھی رہا تھا کہ ”اپنے دکھ مجھے دے دو“ جیسے اپنے ایک مشہور افسانے کی ہیروئن اندو اس کی ستونت کے علاوہ کوئی اور نہیں تھی کہ جس نے اس کے بہن بھائیوں کو پالا، انہیں پڑھایا لکھایا اور پھر ان کی شادیاں تک بھی خود کیں۔ مگر یہ تو گئے دنوں کی بات تھی کہ جب آتش جوان تھا اور جب پسینہ گلاب تھا۔ اب اُسے بیدی کے تمباکو کی بو سے اور شرا ب سے متلی ہوتی تھی۔ جبکہ اُس کی ہیروئنیں مکمل خود سپردگی کی تصویریں تھیں۔ انہیں بیدی کی کوئی بات کوئی حرکت بری نہیں لگتی تھی۔

بیدی اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ایک ہمدرد، جذباتی، نرم دل اور ماڈرن دانشور تھا۔ شراب، تمباکو، عورت سب سے جی بھر کر شغل کرتا۔ شدید جھگڑوں کی جڑ ”آنکھن دیکھی“ کی ہیروئن سُمن نے پیدا کی۔ معاملہ تو پہلے ہی خراب تھا۔ ”دستک“ کی ہیروئن ریحانہ سلطان سے معاملہ قابو سے باہر ہوگیا تھا۔
جب بھی دونوں کے درمیان تو تو میں میں ہوتی، بیدی کہتا۔
”تم مجھ سے نفرت کرتی ہوستونت۔“
تب وہ چلّاتی اور کہتی۔
”ہاں ساری جوانی تمہیں تمہارے بچوں اور تمہارے بہن بھائیوں کو دے کر اب یہی تو وقت ہے تم سے نفرت کرنے کا۔“
پھر وہ غصے سے چیختے ہوئے کہتی۔
”اپنی صورت نہیں دیکھتے۔ جاؤ آئینے میں غور سے دیکھو اُسے۔ ارے مورکھ تمہاری آنکھوں کے نیچے لٹکتی یہ موٹی تھگلیاں اور داڑھی کو رنگنے کے باوجود کیا انہیں تیرا بڑھاپا نظر نہیں آتا۔ آتا ہے مگر وہ خرانٹ تجھے اُلّو بناتی ہیں۔ اِن اُڈراری مار تتلیوں کو ہیروئن بننے کا لالچ نہ دو تو تم پر تھوکیں بھی نہ۔“

یہی وہ آئے دن کے جھگڑے تھے جو آغاز میں دونوں کے لئے بلڈ پیریشر کا باعث تھے تو آہستہ آہستہ دل کے دورے کا باعث بن گئے۔ ایسے ہی ایک دورے میں جب ستونت نانا وتی اسپتال (ممبئی) میں داخل ہوئی۔ ایک ہفتہ میں صحت یاب ہوئی اور جب بیدی اُسے لے جانے کے لئے اسپتال گیا، اتفاق سے اُس وقت بھی اُس کے پاس شراب کی بوتل تھی۔ ستونت نے کہا۔
”چلو اب باتھ روم میں جا کر نہ پینا میرے سامنے پی لو۔“
مگر ہوا یہ کہ بیچ میں سُمن کا ذکر چھڑ گیا۔ ستونت کو معلوم ہوا کہ بید ی اُس سے مل کر آرہا ہے۔ اُ س نے غصے سے کہا۔ ”یہاں میں تمہارا انتظار کر رہی تھی کہ آؤ گے اور میں گھر جاؤں گی۔“
جھگڑا بڑھ گیا۔ تو تکار اور طعنہ وتشنیع کے گولے بارود برسنے لگے۔
”میں مر رہی ہوں اور تمہیں عیاشی سے فرصت نہیں۔“
جواباً بیدی کا چلّانا کہ ”مرتی بھی نہیں ہو۔ مرو۔ چھوڑو میرا پیچھا۔“
اور عین اُسی وقت ستونت کو دل کا دوڑہ پڑا اور اس نے بیدی کی بانہوں میں دم توڑ دیا۔

احساس جرم اور پچھتاوا تو تھا۔ مگر اس کی مدت بڑی مختصر تھی کہ جب بیدی کی ہمسائی مسز شاہ سے اُسے پیغام ملا کہ ستونت ستر ہزار روپے کے کیش سرٹیفیکیٹ اس کے پاس چھوڑ گئی ہے جو دونوں بیٹیوں کے مشترکہ نام سے لئے گئے ہیں۔ ستونت کی تاکید تھی کہ یہ بیدی کو نہ دیئے جائیں۔ جرم کا وہ احساس جو بیدی کے اندر پیدا ہوا تھا اس بات کو سنتے ہی یکدم ختم ہوگیا۔ اور وہ پھر گالی گلوچ پر اُتر آیا۔
ستونت کی موت نے اس لحاظ اور دنیاداری کی تھوڑی بہت شرم کو بھی بالائے طاق رکھ دیا۔ فلم ”آنکھن دیکھی“ کی شوٹنگ ہوتی،سُمن اُس کے اعصاب پر سوار رہتی۔ شام کو وہ اپنے سامنے وِسکی کی بوتل رکھ لیتا، پیتا اور ملکہ پکھراج کی گائی ہوئی فیض کی غزل سنتا۔
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہوگی

اِن راتوں میں وہ ہاتھ میں پکڑی بوتل کے گھونٹ بھرتا۔ گندی اور فحش گالیاں دیتا۔ نہ کھانے کا ہوش رہتا۔ یوں ہی آڑا ترچھا سو بھی جاتا۔ کبھی ہیروئن کو روک لیتا۔ یہ اُ س کی بے پناہ خود فریبی کا زمانہ تھا۔
”آنکھن دیکھی“ ختم ہوئی اور ساتھ ہی سُمن نے شادی کرلی۔ بیدی نے وہ جھٹکا کھایا کہ خود کشی کی کوشش کی خیر بچ گیا۔ انہی دنوں میں اُ س کا فلیٹ بک گیا تھا۔ چند ماہ بعد فالج ہوگیا۔ وہ معذور ہوگیا تھا۔ چلنے پھرنے، بولنے اور لکھنے میں بے حد تکلیف ہونے لگی تھی۔ ایک آنکھ پہلے آپریشن میں ضائع ہوگئی تھی۔ ایک ستم یہ بھی تھا کہ بیٹا نریندر جو خود بھی فلم ساز اور ہدایت کار تھا۔ ہارٹ اٹیک سے چل بسا۔ اب اُس کی بیماری بہت بڑھ گئی۔ اس کے جسم کے نچلے آدھے حصے میں کینسر پھیل گیاتھا۔
یوں وہ علاج معالجے کے معاملے میں بہت خوش قسمت تھا کہ سارا خرچ لندن کا ایک ادارہ برداشت کر رہا تھا۔ بہو، بیٹیاں اور اُن کے شوہر جیسے پیسوں کے چکروں میں الجھے ہوئے تھے۔ بڑی بیٹی نریندر کی بیوی سے لڑتی تھی کہ فلیٹ کا جو روپیہ آیا ہے اس میں ان کا حصہ کہاں ہے؟ وہ انہیں کیوں نہیں ملا؟ کچھ ایسا ہی حال بہو کا بھی تھا۔
بیدی کی شخصیت کا اگر باریک بینی سے جائز ہ لیا جائے تو اس کی بہت سی نفسیاتی الجھنوں میں زیادہ کا تعلق اس کی فلمی دنیا سے وابستگی کی وجہ تھی۔ فلمی  سکینڈلوں یا ہیروئنوں کے ساتھ دوستیوں کو وہ اپنے پیشے کی ضرورت قرار دیتا تھا اور چاہتا تھا کہ ستونت اس ضمن میں اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کا بیٹا نریندر فلم ساز اور ہدایت کار ہوتے ہوئے بھی عورتوں سے دور رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہرحال ایک بہت بڑا افسانہ نگار جو بشری کمزوریوں کے باوجود ایک حساس، ایک دردمند انسان جو اپنے آخری دنوں میں نیم بہیوش بستر پر پڑا رہتا۔ ہوش میں آتا تو اندر کی بے چینی اور اضطراب بے کل کر دیتا۔ کبھی اٹھتا کبھی بیٹھتا۔ فالج کی وجہ سے ایک ٹانگ چھوٹی ہوگئی تھی۔ کھڑے ہونے کی کوشش میں گر پڑتا۔تکیے پر سر پٹختا۔ اپنے پرانے ذاتی خادم سے ٹوٹی پھوٹی باتیں کرتا۔ اس پرانے وفادار نوکرجس کے نام اس نے اُس کی دیرینہ خدمات کے عوض بیس ہزار روپیہ بینک میں جمع کروا دیا تھا کہ وہ اس کے مرنے کے بعد کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرلے۔ ایک بھرپور زندگی گزارنے والے کے لئے یہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے والی بات کتنی دکھ بھر ی تھی۔ مگر یہی زندگی کے شاید المیے ہیں۔

Facebook Comments