• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اشرافیہ کا دسترخوان ( وزیراعظم کے حالیہ خطاب پر)

اشرافیہ کا دسترخوان ( وزیراعظم کے حالیہ خطاب پر)

کل وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے عوام کے لیے ایک ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔ریلیف Relief کا لفظی مطلب بہتری ،آسانی اور امداد ہے۔اور یہ لفظ ہم پاکستانی عوام کے لیے مجموعی حیثیت میں ایک نا مانوس سا احساس بنتا جا رہا ہے۔ زندگی اپنی تعریف کے لحاظ سے یہاں کسی آخری درجے پر بھی نہیں پوری آتی اور اکثریت کے لیے یہ ایک گزارے کا نام بن کر رہ چکی کیوں کہ ہم نے اپنی محرومیوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔۔ بقول فراز
“زندگی ہم نے گزاری ہے گزارے کی مثال”
اس لیے سیاسی اختلاف یا اتفاق سے قطع نظر مجموعی حیثیت میں کسی بھی قسم کا ریلیف ملنا خوش آئیند ہے…خصوصا ایک ایسے عہد میں جب حکومتی نااہلی کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی کو بھی عالمی مہنگائی کے کھاتے میں ڈال کر عوام کا بھرکس نکال دیا گیا…
ابھی کل ہی ایک اہلِ علم سے گفتگو میں انہوں نے رہنمائی فرمائی کہ مخالفت یا موافقت کی بنیاد پر کسی کے اچھے یا برے کام کا فیصلہ کرنا بد دیانتی ہے …اس لیے دیانتداری کا ایک ادنی سا طالب ہونے کے ناطے یہ تحریر لکھتے ہوئے یہ اصول مد نظر رکھنے کی پورےصدقِ دل سے کوشش کی ہے…
طالبِ علم مختصر طور پر آپ کو اس نظام کی سفاکانہ بے حسی باور کروانا چاہتا ہے…تھوڑا سا پیچھے چلتے ہیں….
پیپلزپارٹی کی حکومت تھی میاں نواز شریف صاحب کو “میمو گیٹ برانڈ” کا کالا کوٹ پہنایا گیا اور وہ اس کوٹ میں تیسری دفعہ وزیراعظم کی شیروانی کا عکس دیکھ رہے تھے تو زرداری صاحب کو اچانک مہنگائی اور بے روزگاری میں پستی عوام یاد آگئی اور انہوں نے اچانک عوام کے لیے دریا دلی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا….
اگلا دور نون لیگ کا تھا جب عمران خان صاحب “امپائر کی انگلی ” کی ٹرک کی بتی کے پیچھے سڑکوں پر انتشار پھیلا رہے تھے..(حکومت گرانے کے لیے سڑکوں پر آنے کو انہوں نے وزیراعظم بن کر خود انتشار پھیلانا قرار دیا)…جب خان صاحب کو امپائر کی انگلی سے وزارتِ عظمی کی کرسی اپنی جانب گھومتی دکھائی دیتی تھی تو ایسے میں میاں صاحب کو اچانک عوامی مسائل یاد آ گئے اور انہوں نے جلسوں میں جا کر یہ اعلان کرنے شروع کر دیے کہ “خالی ہاتھ نہیں آیا جیبیں بھر بھر کر لایا ہوں ” ….
آج جب اپوزیشن کو ایک بے وقت کی راگنی یعنی عدم اعتماد کی تحریک کا سکرپٹ تھمایا گیا تو وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کو عوام کے کاندھوں پر اچانک وہ بوجھ اتارنے کا خیال آ گیا جسے انہوں نے خود محض دو ہفتے ان نحیف و ناتواں کاندھوں پر ڈالا تھا….میں کہہ چکا کہ اخراجات میں کسی بھی قسم کی آسانی پر ظاہر ہے شکر گزاری ہی کے جزبات ابھریں گے لیکن خان صاحب کو اس دفعہ بحرحال یہ امتیاز حاصل ہوا کہ عام طور پر وہ اپنی پچھلی تقاریر اور دعووں کا منہ چڑاتے دکھائی دیتے ہیں… لیکن اس خطاب کی خاص بات یہ ہے کہ خان صاحب نے جو بات کی اسے ذرا نقاط کی شکل میں دیکھتے ہیں…..

Advertisements
julia rana solicitors

٭ یوکرائن روس کی جنگ سے پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے پیٹرولیم کی قیمتیں دنیا میں بڑھ ہیں…
٭ہمیں کوئی سوئٹزرلینڈ کی معیشت تو ملی نہیں تھی.
٭ہم چیز باہر سے لیتے ہیں….
٭اپوزیشن کے پاس کوئی تجویز ہے تو بتادے..
٭مجھے پتا ہے مہنگائی ہے لیکن یہ عالمی مہنگائی ہے امریکہ،انگلینڈ،ترقی،فرانس،بھارت میں اتنے اتنے فیصد..
٭اوگرا نے 10 روپے تیل بڑھانے کی سمری دی…
٭لیکن میں نے بڑی مشکل سے کہیں نہ کہیں سے سبسڈیز نکالیں اور میں قیمتیں کم کرنے کا اعلان کرتا ہوں……
15 فروری کو قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ دنیا میں برنٹ آئل 95 ڈالر کا ہو گیا ہے…. اس لیے عوام پر بوجھ ڈالنے کے علاوہ چارہ نہیں…سوشل میڈیا پر خان صاحب کے عشاق ہمیشہ کی طرح انہیں ڈیفینڈ کرنے لگے ایک صاحب نے اس پر ایک طنزیہ نظم کہنے پر مجھے جاہل کہا.. ایک صاحب نے کہا بنی گالہ میں تیل کے کنویں ہیں کیا…اور ٹھیک دو ہفتے بعد وہی لوگ..جی ہاں وہی لوگ اب واپس آتے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ کر ہاتھ پر چموٹہ مارتے ہوئے کہہ رہے ہیں… آہا.. ہا واہ خان صاحب.. کیا بات ہے مولا خوش رکھے… کیا کہنے… دنیا میں مہنگائی کے باوجود پیڑرول ڈیزل سستا کردیا… مولا خوش رکھے…..
یاد رہے کہ یہ وہی وزیراعظم صاحب ہیں جو عالمی منڈی میں قیمتیں انتہائی کم ہونے پر عوام کو اسکا افادہ پہنچانے میں ناکام اور خواص کو پہنچانے میں کامیاب ہوئے تھے…
کیا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں جو ناچیز…. جی ہاں بنیادی اور واحد سوال ہے کہ اگر قیمتیں بڑھانے کی یہی توجیہہ رہی ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ رہی ہیں..اور سبسڈائز کرنا ممکن نہیں تو….. اب قیمتیں اور اوپر جانے پر بھی عوام کو ریلیف دیا جانا کیا ان سوالات کو جنم نہیں دیتا کہ….
€ یہی سبسڈی آپ محض پندرہ دن پہلے کیوں نہیں نکال سکتے تھے…..
€ کیا اب ملکی قیمتوں کو عالمی منڈی سے بالعکس متناسب رکھنا اس سارے دھندے کو مشکوک نہیں بنا دیتا…
€ ان پندرہ دنوں سمیت اس دورِ حکومت میں ہر بار پیٹرولیم بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کی آڑ میں کی گئی مصنوعی مہنگائی اور لوٹ مار کا ذمہ دار کون ہے اور اسے واپس لانے کا کوئی انتظام ہے ؟
€ ہر ہفتے قیمتیں بڑھانے والے وزیراعظم صاحب نے بجٹ تک قیمتیں نہ بڑھانے کا اعلان کر کے جس حیرت میں مجھے ڈالا یقین اس میں آپ بھی مبتلا ہونگے… جب کوئی جنگ نہیں تھی تو تب آئی ایم ایف کا بتانے کی بجائے عالمی منڈی کا بتا کر قیمتیں بڑھاتے تھے اور اب جب یوکرائن روس کی جنگ لگنے سے قیمتیں یقینی طور پر بڑھ رہی ہیں اور بیان الاقوامی سرویز اور رپورٹس کے مطابق بحرانی کیفیت سے گزرنے جا رہی ہیں ایسے میں پورے چار مہینے کے لیے قیمتیں نہ بڑھانے کا اعلان عجیب مخمصے میں ڈال رہا ہے… یہ ماجرا ہے کیا ؟
ان سوالات کے جوابات ہمارے باپ دادا کو نہیں ملے ہمیں کیا ملیں گے….. لیکن بحرحال ان سوالات کی تشنہ لبی اس بات پر مہر ثابت کر رہی ہے کہ وطنِ عزیز کا نظام اشرافیہ اور خواص کا اپنے لیے بچھایا ہوا وہ دسترخوان ہے… جس میں ہم عوام نامی کیڑوں مکوڑوں کے حصے وہ ذرات آتے ہیں… جو وہ اپنے ہاضمے کو بچانے کے لیے پھینک دیتے ہیں….
پسِ تحریر…عمران خان صاحب کی کتاب “میں اور میرا پاکستان” میں خان صاحب نے یہ دعوی کیا تھا مشرف کی طرف سے وزارتِ عظمی کی پیشکش کو انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ آپ جن سے ہاتھ ملا رہے ہیں میں انکے ساتھ بیٹھنا بھی گوارہ نہیں کرتا….کل خان صاحب اسی نت ہاؤس میں انہی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے…بارِ دگر عرض ہے کہ کاش انہوں نے یہ مصلحتیں عوامی مفاد میں کی ہوتیں…اپوزیشن سے ہاتھ ملایا ہوتا… پاکستان میں سیاسی استحکام کی کوشش کی ہوتی… نہ مہنگائی ہوتی نہ غریب پستے نہ ہی عدم اعتماد کی بے وقت کی راگنی…. جس کا فائدہ عمران خان صاحب ہی کو ہوتا دکھائی دے رہا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply