القدس کی بدلتی حیثیت اور عرب دنیا۔عمیر فاروق

القدس کی بدلتی حیثیت اور عرب دنیا امریکی سفارت خانے کی القدس کو منتقلی کا فیصلہ بہت سے دوستوں کے لئے شاک کی مانند ہوگا لیکن جو لوگ عرب دنیا کی بدلتی سیاسی کمپوزیشن کو سمجھ رہے تھے ان کے لئے یہ شاک نہیں بلکہ آنے والے واقعات کے مقابلے میں یہ آئس برگ کی ٹپ ہی تھی۔ ہمارے زیادہ تر لوگ ابھی تک مشرق وسطی کے ساٹھ اور ستر کی دہائی کے کلاسیکی سیاسی دور کی نظر سے ہی حالات کو دیکھ رہے ہیں جب زیادہ آبادی والے بڑے عرب ملکوں کی قیادت جمال عبدالناصر اور شام کے حافظ الاسد کے پاس تھی اور تیل پیدا کرنے والے کم آباد ممالک میں فیصل اور قذافی جیسی قیادت موجود تھی جن کا رویہ اسرائیل کے خلاف بہت سخت تھا اور وہ فلسطینی کاز کے پرجوش حامی تھے۔ اور آزادی بنا پہ عرب عوام میں بے حد مقبول بھی تھے۔ اگرچہ اسی اور نوے کی دہائی سے عرب ممالک کی سیاسی کیفیت تبدیل ہوچکی تھی لیکن پھر بھی زبانی جمع خرچ کی حد تک وہ اسرائیل مخالف اور فلسطین کے حامی ضرور رہے۔
اب ہم ایک تیسرے عہد میں داخل ہورہے ہیں اور عرب ممالک کی سیاسی قیادت کا رویہ اور کمپوزیشن بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ زیادہ آبادی والے بڑے عرب ممالک زبوں حالی کا شکار ہیں۔ عراق ٹوٹ چکا ہے۔ شام خانہ جنگی کے باعث کھوکھلا ہوچکا ہے۔ لبنان ایک آتش فشاں کے دہانے پہ ضرور ہے لیکن بہت چھوٹا ملک ہے۔ مصر کب کا نیوٹرل ہوگیا تھا۔ اب عرب قیادت سعودیہ اور گلف کے کم آباد تیل پیدا کرنے والے امیر ممالک کے پاس آچُکی ہے اور ان کے رویوں اور سوچ میں بہت فرق ہے۔ ایک بڑی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ یہ تیل پیدا کرنے والے امیر عرب ممالک کا شمار سرمایہ دار ممالک میں ہوتا ہے لیکن ان کی تقریباً تمام سرمایہ کاری مغرب میں ہے اور ان کے عالمی یہودی سرمایہ دار  لابی  سے  گہرے تعلقات بھی ہیں اور اس سرمایہ کاری میں وہ خود کو اس لابی کے ساتھ ایک ہی کشتی کے سوار تصور کرتے ہیں۔
2010میں جب فلسطینی رہنما کا دبئی میں اسرائیلی ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل ہوا تھا تو تفتیش اس مرحلہ پہ ختم کردی گئی تھی جب اسرائیلی ایجنٹس کے فٹ پرنٹس ملنا شروع ہوگئے تھے کیونکہ کاروباری مفادات کا تقاضا یہی تھا کہ خاموشی اختیار کی جائے۔ اسی طرح 2005  غزہ میں امارات کی امدای ٹیم کے بارے میں اطلاعات ملیں کہ وہ غزہ میں اسرائیل کے لئے جاسوسی کی مرتکب ہوتی رہیں۔ اس طرح ایسے بے شمار اشارے موجود ہیں جو اس گٹھ جوڑ یا اتحاد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال عرب عوام کے لئے شدید بے چینی اور مایوسی کا سبب ہے۔ لیکن ایک فیکٹر اور بھی ہے اور وہ ہے عرب ایران کشمکش کا۔ یہ پہلے بھی موجود تھی لیکن پچھلے دس پندرہ سال میں یہ جوہری تبدیلی آئی ہے کہ اب یہ عرب ممالک اسرائیل نہیں بلکہ ایران کو اپنی سلامتی کے لئے چیلنج تصور کرتے ہیں گویا ان کی سلامتی کو خطرے کی ڈاکٹرائن ہی تبدیل ہوچکی ہے۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطی میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ بھی ہوا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ اسرائیل خود کو مشرق وسطی کے سنیوں کا محافظ کہتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ مشرق وسطی کے حالات کا ذکر ہو اور عرب ایران کشمکش زیربحث نہ لائی جائے۔

حالیہ ادوار میں نہ صرف ہمارے ہاں بلکہ عرب عوام کو بھی یہ ثاثر دیا گیا کہ اس کشمکش کی بنیاد فرقہ وارانہ ہے۔ فرقہ واریت اس میں شامل ضرور ہوگئی لیکن یہ اس کی اساس ہرگز نہیں۔ ہمارے ہاں اس بات کا احساس موجود نہیں کہ ایران اور ایرانیوں کی سوچ پہ شیعیت نہیں بلکہ ایرانی قومیت اور اس کی عظمت کا تصور غالب ہے۔ ایران سے باہر موجود اہل تشیع کی ایران سے جذباتی وابستگی کو استعمال تو کرلیا جاتا ہے لیکن صرف اور صرف ایرانی مفادات کے حصول کی خاطر اور دوسری طرف عرب بادشاہتوں کا بھی یہی رویہ ہوتا وہ سنیت کو اپنے ریاستی یا شاہی مفادات کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ دراصل یہ ایران کی مشرق وسطی کی چیمپئین شپ کی خواہش اور اسلامی جمہوری انقلاب کا نعرہ ہے جسے عرب بادشاہتیں اپنی بادشاہت کے لئے خطرہ سمجھتی ہیں۔ فلسطینیوں اور فلسطینی کاز سے ان عرب بادشاہتوں کی لاتعلقی کی ایک وجہ حماس کی ایران سے قربت اور ایران کی فلسطینی کاز اور اسرائیل کی مخالفت کی چیمپیئن شپ سنبھالنا بھی تھی۔ ایران نے جتنی شدت سے اس کاز کا پرچم بلند کیا یہ عرب بادشاہتیں اتنی تیزی سے ہی فلسطینی کاز سے دور ہوئیں اور اسرائیل کے قریب ہوتی گئیں۔
اس کی ایک وجہ اندرونی بھی ہے۔ ایران کا کھل کے اسرائیل کے خلاف علم بلند کرنا انہیں اپنے ہی عوام کے سامنے بے توقیر کرتا ہے اور وہ اس کے حل کے طور پہ ایران کے ساتھ اپنی کشمکش کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرتی چلی آئیں اور اسرائیل کے قریب ہوتی چلی گئیں۔ یہ پراسیس پچھلے دو دہائیوں سے جاری تھا اور اب یہ فیصلہ کن شکل اختیار کرگیا ہے جس نے مشرق وسطی کی سیاست کی ماہیت ہی تبدیل کردی ہے۔ امریکہ کی طرف سے اپنے سفارتخانے کو یروشلم منتقل کرنے پہ عرب بادشاہتوں کی طرف سے ہلکی پھلکی مذمت یا عرب لیگ کی ایک آدھی قرارداد کے علاوہ کسی ردعمل کی توقع نہیں۔ بلکہ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ کے داماد کے دورہ سعودیہ میں یہ سب کچھ طے ہوگیا تھا اور اس کے بعد جب فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم محمود عباس نے سعودیہ کا دورہ کیا تو اسے مطلع کردیا گیا کہ یا تو اس فیصلے کو قبل کرے یا دو تین ماہ کے اندر استعفی دے دے۔
یہ بھی خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ سعودیہ میں حالیہ سخت گیر علماء کی گرفتاریوں کے پیچھے بھی یہ حکمت تھی کہ ان کی طرف سے کوئی سخت مزاحمت نہ ہوسکے۔ مشرق وسطی کی صورت حال یقیناً پریشان کن ہے اور اس میں پاکستان کے لئے بھی مزید پریشانیوں کا سامان موجود ہے۔ فیصلہ ساز عوام کی طرف سے ایک اہانت آمیز فیصلہ قبول کرنے کے بعد اگلے کی طرف چلیں گے۔ پاکستان کے لئے خطرہ یہ ہے کہ اکتالیس ممالک کے اتحاد میں پاکستان کو بھی فوج بھیجنے پہ مجبور کیا جائے گا اور آگے چل کر اسرائیل بھی کھل کے اس اتحاد کا حصہ بن جائے گا اور یہ اتحاد ایران اور اس کے حامی ممالک کے خلاف استعمال ہوگا۔ یہ صورت حال نہ صرف پاکستان کے لئے اندرونی اور علاقائی طور پہ پریشان کن ثابت ہوگی بلکہ عرب عوام میں بھی منفی ردعمل پیدا کرسکتی ہے۔ بہرحال فی الوقت امریکی سفارتخانہ کے یروشلم منتقل ہونے کا دھچکہ موجود ہے خاطر جمع رکھئے عوامی احتجاج کے علاوہ کوئی سنجیدہ ردعمل سامنے آنے والا نہیں۔ البتہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”القدس کی بدلتی حیثیت اور عرب دنیا۔عمیر فاروق

Leave a Reply