مزدور طبقے کا شہید۔۔۔ہمایوں احتشام

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک تقریر کے دوران اس نےکہاتھا ” استعمار کے خلاف کسی بھی ملک کی فتح ہماری فتح ہے اور کسی بھی ملک کی شکست ہماری شکست ہے”۔ عظیم پرولتاری بین الاقومیت اور بین الاقومی مزدور تحریک کی جڑت کا زبردست داعی۔ اس عظیم انٹرنیشلنسٹ نے جو کامریڈ اسٹالین کا زبردست مداح تھا، کچھ عرصہ کیوبا میں رہ کر اسے چھوڑنے کا قصد باندھا۔ کچھ دروغ گو طبقہ امرا اور سامراج کے کاسہ لیس دانشور اس کیوبا چھوڑنے کو کاسترو اور چے کی لڑائی سے جوڑتے ہیں۔ اور  اسےسوویت حمایت اور سوویت مخالفت سے مشروط کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ارنیستو نوآبادیات اور نیم نوآبادیات کا پوری دنیا میں خاتمہ چاہتا تھا اور ایک بین الاقومی سرخ سویرے کا تمنائی تھا۔
کیوبا سے یہ آزاد منش کمیونسٹ راہنما کانگو چلا گیا جہاں سات ماہ تک انقلابی جنگ کا حصہ رہا. بعد ازاں کامریڈ چے نے کیوبا واپسی کا قصد باندھا اور کیوبا سے بولیویا چلے گئے۔ جہاں اس نے کمیونسٹ پارٹی کی مکمل حمایت کے بغیر مسلح جدوجہد کا آغاز کیا. البتہ بولیوین کمیونسٹ پارٹی کے کافی کامریڈز نے چے کا ساتھ دیا جیسے کوکو پیریڈو اور انٹی کے گوریلے گروپس۔ مزدور تحریک کے ایک راہنما موسا گویرا نے چے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور ثابت قدمی سے استعماری فوجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوا۔ ہیگوراس کے مقام پہ دشمن سے مڈبھیڑ آٹھ اکتوبر کو ہوئی اور نو اکتوبر کو لاطینی امریکہ کے ایک فرزند نے اشتراکیت کے مشن کی تکمیل کے لیے جنگلوں کے بیچ اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کی۔
سہ براعظمی کانفرنس کو بھیجے ایک پیغام میں کامریڈ چے گویرا نے کہا،تھا “ہمیں ایک سچا بین الاقومی جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ وہ علم جس کے تحت ہم مصروف جدوجہد ہیں اسی میں انسانیت کی نجات ہے۔ کسی امریکی، ایشیائی، افریقی، یورپی کے لیے ویت نام، وینزویلا، گوئٹے مالا، لاوس، گنی، کولمبیا، بولیویا کے جھنڈے تلے مرنے کی تمنا باعث فخر ہے کیونکہ ان مقامات پہ انسانیت کی بقا کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ خون کا ہر وہ قطرہ جو ایسے ملک کے علم تلے گرے جہاں آپ پیدا بھی نہیں ہوئے ایک ایسا پیغام ہے جو پسماندگان کو قوت بخشتا ہے اور انجام کار آپ کے وطن کی آزادی کا ذریعہ بنتا ہے. ہر قوم کی آزادی آپ کے وطن کی جنگ آزادی کی ایک منزل ہےـ” سات اکتوبر 1967 کو کماندار گویرا ارنیستو نے ہیگوراس سے تین میل دور بولیویا کے ایک جنگل میں اپنی ڈائری کا آخری روزنامچہ لکھا۔
اسی دن بکریاں چراتے ہوئے ایک بڑھیا انقلابی گوریلوں کے کیمپ کے نزدیک پہنچ آتی ہے۔ کچھ گوریلے مشورہ دیتے ہیں کہ اسے مار دیا جائے کیونکہ مخبری کا خدشہ ہے، لیکن کماندار روک دیتا ہے وہ انجیلیٹو اور پابلیٹو کو بڑھیا کو اس کے گھر چھوڑنے بھیج دیتا ہے۔ بڑھیا کی دو بیٹیاں تھیں ایک اپاہج اور ایک پاگل۔ کماندار کے لوگ بڑھیا کو پچاس پیسو دے کر لوٹ آتے ہیں۔ کتنا عظیم انسان تھا!! لوگوں سے محبت کرنے والا، اور پھر ٹھیک ایک دن بعد بولیویا کی فوج سی آئی اے کی معاونت سے کماندار ارنیستو چے گویرا کے کاروان پہ حملہ کرتی ہے۔کماندار گویرا اپنے دستے کے ساتھ وگیرے کی جانب نکلنے کو تھا کہ ایک مخبری کی بنیاد پہ بولیویا کی فوج نے اس گھاٹی پہ حملہ کردیا جہاں کماندار روپوش تھا۔ ایک گھمسان کا رن پڑا اور کماندار کے گوریلے ساتھی شہید ہونے لگے۔ دوستوں اور ساتھیوں کی شہادت نے بھی اس کے حوصلے کو پست نہیں کیا۔ اس سب کے باوجود کماندار دشمن کے سامنے ڈٹا ہوا تھا۔ پھر اس کی بندوق ایم ٹو نے گولیاں اگلنی بند کردیں کیونکہ اس کے پاس گولیاں اور بارود ختم ہوچکا تھا اور اس کی بندوق کی ایک نالی نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
دشمن نے کماندار کو گرفتار کرلیا، تھکن، بیماری اور شدید زخمی چے پہ بندوقوں کے دستوں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ اس کے پاوں میں اتنے زخم تھے کہ سہارے کے بغیر چلنا ناممکن تھا۔ کماندار کو استعمار کے گماشتے ہیگوراس کے ایک اسکول میں لے جاتے ہیں۔ وہاں ایک شرابی فوجی افسر اس سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کرتا ہے اور جواب میں کماندار اس کو ایک تھپڑ رسید کرتا ہے جس سے اس کی بدتمیزی کو لگام ملتی ہے۔ گرفتاری سے کچھ پہلے اس کے ساتھ لڑنے والا آخری کمیونسٹ گوریلا جو پیرو سے تعلق رکھتا تھا۔ کماندار اسے فرار ہونے کو کہتا ہے جواب میں وہ انکار کرتے ہوئے بولیویا کے مزدور انقلاب پہ اپنی جان نچھاور کردیتا ہے۔ لاپاز میں مقیم امریکی استعماری گماشتے بیری انیٹو اور اوداندوا جو اعلیٰ فوجی افسران تھے انھوں نے چے کے قتل کا مصمم ارادہ کرلیا تھا۔ لاپاز سے حکم آتا ہے کہ امریکی تربیت یافتہ میجر ایورا یا کرنل ماریو ٹران چے کو گولی مار دیں۔ نشے میں دھت کرنل ماریو ٹران گولی چلانے سے ہچکچاتا ہے ۔ چے گرجدار آواز میں کرنل کو مخاطب کرکے کہتا ہے ” گولی چلاو بزدل تم ایک انسان کو مارنے والے ہو۔
گولیاں چلتی ہیں جو کمر سے نیچے لگتی ہیں۔ کیونکہ افواہ یہ پھیلی تھی کہ چے کی چند گھنٹوں قبل میدان جنگ میں شہادت ہوچکی ہے۔ اسی لیے قاتلوں کو حکم ملتا ہے کہ سینے یا دل پہ گولی مت ماریں، جن سے یکلخت موت واقع ہوجائے۔ زخموں سے بہتے لہو نے اس کی اذیت کو بےحساب کردیا۔ زندگی کے آخری لمحات کامریڈ چے نے شدید کرب اور اذیت میں کاٹے لیکن استعماری گماشتوں سے زندگی کی بھیک نہیں مانگی۔ پھر کچھ دیر بعد ایک سارجنٹ نے بازو میں گولی مار کر فانی زندگی کے گھن چکر سے اسے آزاد کردیا۔ 1953 میں گرانما سے کیوبا واپسی کاسترو کی رفاقت میں یا 1956 میں اس چھوٹے سے دستے کو ملنے والی زبردست حزیمت، کماندار ارنیستو کے خیالات کبھی تنزلی کی طرح مائل نہ ہوئے۔ وہ عظیم آدرشوں کا ماننے والا عظیم انسان تھا۔ پھر یہی کماندار ارنیستو تھا جس نے 1959 میں سیرا مایسترا میں امریکی سامراج کے گماشتے باتیستا کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔ کماندار چے کا اصل نام ارنیستو گویرا تھا۔ “چے” اس کا نام کیوبا کے رفقا نے پیار سے رکھا کیونکہ ارجنٹائنی ہسپانوی میں چ کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ 1928 میں ارجنٹائن کے صوبے قرطبہ میں ارنیستو گویرا کے نام سے پیدا ہونے والا بچہ، جو بعد میں جواں ہمت انقلابی بنا، زندگی بھر شدید دمے کا مریض رہا لیکن اس نے مسلح جدوجہد کے دوران کبھی اپنے مرض کو رکاوٹ بننے نہیں دیا۔
اوائل جوانی میں اس کو سیر و سیاحت کا شوق چرایا اور وہ اپنی موٹر سائیکل پہ ہی پورے خطے کی سیاحت پہ نکل پڑا۔ لاطینی امریکی عوام کی غربت اور مفلوک الحالی نے اسے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کیا۔ یہی سوچ تھی جس نے اسے مارکسزم لینن ازم کا مطالعہ کرنے پہ مجبور کیا۔ اور پھر تاریخی اعتبار سے چیزوں کا نئے انداز سے تجزیہ کیا تو اس پہ انکشاف ہوا کہ امریکی عوام کی غربت، افلاس، بھوک اور ننگ کی وجہ امریکی استعمار اور سرمایہ داری و جاگیرداری ہے۔ اس انکشاف نے اس کے دل کو استعمار اور سرمایہ داری کے خلاف نفرت کے جذبات سے معمور کردیا۔ وہ اپنے لوگوں سے محبت کرتا تھا۔ پس اس نے استعمار کے خلاف جنگ کرنے کی ٹھان لی اور استعمار مخالف گوئٹے مالا کی جانب رخت سفر باندھا۔ جہاں جیکب اربنز کی حکومت تھی۔ جناب جیکب اربنز نے یونائیٹڈ فروٹ نامی امریکی خون آشام استعماری کمپنی قومیالی۔ اس قدم نے امریکی استعمار کے تن بدن میں آگ لگا دی اور استعمار نے کرایے کے قاتلوں کے ذریعے جن کی سربراہی سی آئی اے کررہی تھی، جیکب کی سرکار گرا دی اور خون کی ہولی کھیلی گئی۔ گوئٹے مالا کو خون سے رنگ دیا گیا۔
اس واقعے نے ارنیستو پہ ایک اور حقیقت آشکار کی کہ استعمار اور سرمایہ داری کو بدترین شکست مسلح انقلاب سے ہی دی جاسکتی ہے۔انہی دنوں کامریڈ فیدل کاسترو میکسیکو میں جلاوطنی کے ایام کاٹ رہے تھے۔ ارنیستو گویرا کی ایک دوست کے توسط سے کامریڈ فیدل سے ملاقات ہوئی اور آہستہ آہستہ یہ شناسائی گہری دوستی میں بدل گئی۔ 1953 کو جب گرانما کیوبا میں سانتا کروز کے مقام پہ لنگر انداز ہوا تو فیدل کے ساتھ ایک اور ساتھی بھی تھا یہ ارنیستو گویرا تھا۔ کاسترو کے بقول فنون حرب اور گوریلا جنگ کے طریقوں سے جتنا واقف ارنیستو چے تھا، شاید اس سے زیادہ کوئی نہ تھا۔ کیوبا کے انقلاب کی فتح میں بنیادی کردار ادا کرنے والے انقلابیوں میں سے تھا۔ سیرا مایسترا کی خون ریز جنگ میں کامیابی کی وجہ بھی کاسترو اور چے کی بہترین حکمت عملیاں تھیں۔ انقلاب کی فتح کے بعد وزیر محنت کے طور پہ کام کیا اور مزدوروں کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے چشم ہستی نے خود دیکھا۔ ایک عظیم انسان تھا بے غرض اور انسانیت کا سچا خیر خواہ۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مزدور طبقے کا شہید۔۔۔ہمایوں احتشام

Leave a Reply