جگت موہن لال رواں،شخصیت اور شاعری۔سید تالیف حیدر

رواںؔ کا پورا نام جگت موہن لال رواںؔ تھا اور وہ قصبہ مورانواں ضلع اناّؤ میں بروزدوشنبہ ۱۴؍جنوری ۱۸۸۹ ؁ء مطابق ۱۱؍جمادی الاولیٰ۱۳۰۶ ؁ھ کو پیدا ہوئے۔رواںؔ ذات سے کائستھ تھے اور ان کے والد چودھری گنگا پرساد اپنے والد بخشی مہی لال کے ہمراہ اپنا آبائی مقام موضع مچھریٹہ ضلع سیتا پورچھوڑ کر انّاؤ آگئے تھے۔ڈاکٹر ظفر عمر قدوائی جو خود انّاؤکے رہنے والے ہیں اپنی ایک کتاب ’جگت موہن لال رواںؔ حیات وادبی خدمات‘ جس پہ انھیں لکھؤیونیور سٹی نے ڈاکٹر آف فلاسفی کی سند عطا کی تھی رواںؔ کے خاندانی حالات بیان کرتے ہوئے بخشی مہی لال کے مطابق لکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

’’اس گھرانے کے ایک بزرگ بخشی مہی لال جو رواںؔ کے جدامجد تھے شاہانِ اودھ کی فوج میں بعہدۂ منشی فائز تھے یہ بے حد ایماندار اور محنتی شخص تھے۔چناچہ ان کی دیانت اور نمایاں کار کردگی کے صلے میں انھیں چودھری کے خطاب سے نوازا گیاتھا۔یہ زمانہ ان کی بڑی خوشحالی کا تھا لیکن غدر ۱۸۵۷ ء ؁ کے بعد بخشی مہی لال کو ان کے عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا۔اور ہر طرح کی دارو گیر شروع ہوئی ان کی ساری دولت اور ثروت چھن گئی اور ان پر عرأہ حیات تنگ ہو گیا۔مجبوراً بخشی مہی لال ترکِ وطن کرکے اپنی سسرال قصبہ مورانواں ضلع انّاؤ چلے آئے‘‘۔
(جگت موہن لال رواںؔ حیات وادبی خدمات:ڈاکٹر ظفر عمر قدوائی: ص ۱۵)
رواںؔ کے والد گنگا پرساد کے پانچ بھائی اور بھی تھے ۔گنگا پرساد نے انٹر نس تک تعلیم حاصل کی تھی اور پھر انّاؤ ہی میں مختاری کے عہدے پر فائض ہوگئے تھے۔ان کی شادی قصبہ جائس ضلع رائے بریلی کی ایک لڑکی سے ہوئی تھی اور گنگا پرساد کے گھر بھی پانچ لڑکے پیدا ہوئے۔جگت موہن لال اپنے والد کی چوتھی اولاد تھے۔
’’چودھری گنگا پرساد کے چوتھے اور سب سے اقبال مند بیٹے جگت موہن لال تھے۔ انھوں نے رواںؔ تخلص اختیار کیا تھا لیکن اپنے حلقۂ احباب میں جگت مشہور تھے‘‘۔
(تذکرے اور تبصرے از جلیل قدوائی ،مطبوعۂ ایجوکیشنل پریس،کراچی)
رواںؔ نے اردواور فارسی کی ابتدائی تعلیم انّاؤ کے ایک مکتب میں اپنے استاد مولوی سبحان اللہ خان سے حاصل کی اور اپنے والد کے انتقال کے بعد شدیدصدمے کی وجہہ سے انھوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ منقطہ کردیا مگر رواںؔ کے بڑے بھائی کنھیا لال نے ان کی تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے رواںؔ کی آب و ہوا کو تبدیل کرنا مناسب جانا اور انھیں انّاؤ سے مورانواں لے آئے اور کیدار ناتھ ڈائمنڈ جوبلی ہائی اسکول میں داخل کردیا بچپن میں گھریلو مسائل نے رواںؔ کو بہت پریشان کیا والد کے بعد والدہ کے فوری انتقال جیسے صدموں اور دیگر معاشی بہران نے رواںؔ کو خاموش طبیعت بنا دیا مگر انھوں نے دوبارا تعلیم کا ساتھ نہیں چھوڑا اور دسویں جماعت میں اول نمبر وں سے کامیاب ہوئے اور پوری دلچسپی اور محنت سے آگے تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔میٹرک کے بعد رواںؔ لکھأو آگئے اور کینگ کالج میں داخلہ لے لیا ان کی کامیابی سے خوش ہو کر کینگ کالج کے پرنسپل نے ان کے لیے وظیفہ مقرر کردیا اور رواںؔ کو تعلیم حاصل کرنے میں کچھ آسانیاں ہوگیں۔انٹرمیڈیٹ میں بھی اول آئے خم خانۂ جاوید کا ایک اقتباس دیکھئے۔
’’اپنی خداداد صلاحیت ذہانت ،شوق،علم اور محنت کی بدولت رواںؔ نے ۱۹۰۹ ؁ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان بھی درجہ اول میں پاس کیا جس کے صلے میں انھیں کالج کی طرف سے نقرئی تمغے کے اعزاز کے ساتھ آئندہ تعلیم کے لئے وظیفۂ علمی بھی مل گیا‘‘۔
( خم خانۂ جاوید جلد سوم،از لالہ سری رام،ص۵۳۶)
پھر اس کے بعد رواںؔ بی۔اے میں داخل ہوئے ،بی۔اے میں انگریزی ادب ،فارسی اور فلسفہ ان کے اختیاری مضامین تھے ڈاکٹرعمر قدوائی اپنی کتاب جگت موہن لال رواںؔ حیات وادبی خدمات میں رقم طراز ہیں۔
’’اس زمانے میں کالج کا قاعدہ تھا کہ جو طلباء بی۔اے کے امتحان میں اول مقام حاصل کرتے تھے وظیفۂ علمی کے علاوہ ان کے نام سنہری حرفوں میں اعزازی بورڈ پر لکھ دیئے جاتے تھے اس اصول سے طلباء کی بڑی ہمت افزائی ہوتی تھی‘‘۔
(جگت موہن لال رواںؔ حیات وادبی خدمات از ظفر عمر قدوائی :ص۱۹)
عزیز لکھؤی نے رواںؔ کے شعری مجموعہ ’روح رواں‘کے دیباچے میں صفحہ ۴ پر بی۔اے میں اول نمبر حاصل کرنے کی ان کی ترغیب کے متعلق لکھا ہے۔
’’پہلے دن جب میں کالج میں داخل ہو ا تو اپنے پیش روؤں کے نام دیکھ کر مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ کاش یہ عزت مجھے بھی حاصل ہوتی۔‘‘اور پھر رواںؔ اس عزت کو حاصل کرنے میں کوشاں ہو گئے آ خر کار محنت رنگ لائی اور ۱۹۱۱ ء ؁ میں رواںؔ بی۔ اے میں بھی اول نمبر سے کامیاب ہوئے اور ان کا نام سنہری حروف میں بورڈ پر چسپہ کردیا گیا۔اس کے بعد ۱۹۱۳ء ؁ میں انگریزی ادب میں فرسٹ ڈویزن میں ایم۔اے کیا اور پھر الہ آباد یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان ۱۹۱۶ء ؁ میں پاس کیاخم خانۂ جاوید جلد سوم میں صفحہ ۵۳۶ پر اس کی تفصیل موجود ہے۔وکالت کی پڑھائی پوری کرکے و ہ انّاؤ آگئے اور بہت جلد وہاں کے اچھے وکیلوں میں ان کا شمار کیا جانے لگا۔جلیل قدوائی جو ان کے ہم عصر تھے ان کی وکالت کے مطالق لکھتے ہیں۔
’’بحیثیت فوجداری کے ایک وکیل کے رواںؔ انّاؤ میں چوٹی پر تھے ان کی قانونی قابلیت کے متعلق میں ایک ماہر کی حیثیت سے رائے نہیں دے سکتا اس لئے کہ میری اپنی قابلیت اس حد تک مشتبہ ہے کہ کئی سال کی متواتر کوشش کے باوجود وکیل نہ ہو سکا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ انّاؤ بار ایسوسی ایشن کے تمام وکلا ء حتٰی کہ خود ان کے استاد اور فوجداری وکلاء کے میر لشکر رائے بہادر چودھری جگناتھ پرساد سابق ایم۔ایل ۔سی بھی ان کی قابلیت کے معترف و مدّاح تھے‘‘۔
(تذکرے اور تبصرے از جلیل قدوائی ،مطبوعۂ ایجوکیشنل پریس،کراچی)
اپنی علمی کاوشوں سے رواںؔ ایک کامیاب وکیل تو بن گئے مگر شاعری کا شوق انھیں بچپن ہی سے تھا۔اپنی زندگی کا پہلا شعر انھوں نے نو سال کی عمر میں کہاتھا اور پھر پوری زندگی ان پر نزول ہوتا رہا۔رواںؔ زبان داں تھے فارسی ،اردواور انگریزی میں انھیں مہارت حاصل تھی اور شاعری کا حسن ان کو اس مالکِ حقیقی کی جانب سے حاصل ہوا تھا۔یہ خدا داد صلاحیت رواںؔ کے کلام میں ہمیں بخوبی نظر آتی ہے ان کی شاعری میں زبان کی ندرت،استعمالِ تراکیب ،رزمیہ انداز،شعری حسن،تشبیحا ت وکنایات کا محل استعمال اور بیانیہ کی قدرت کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔رواںؔ کا شجرۂ شاعری آتشؔ سے جا ملتا ہے وہ اپنے عہد کے مشہورِ زمانہ شاعر مرزا محمد ہادی عزیز ؔ لکھؤی کے عزیز شاگردوں میں سے تھے۔عزیز ؔ لکھؤی نے اپنے کئی شاگردوں کو شعر کی فنّی صلاحیتوں سے آشنا کروایا۔ان کے شاگردوں میں جوشؔ ملیح ٓبادی اور اثرؔ لکھأوی جیسے معروف شعرا کا شمار ہوتا ہے۔ عزیز ؔ وہ استاداساتذہ شاعر تھے جنہوں نے ہمیشہ اپنے شاگردوں کو وسعتِ کلام سے ذیادہ وسعتِ مطالعہ کی طرف راغب کیااور ایک سے ایک ماہرِ فن اس زبان اردو کو بخشا۔ بسیار گوئی کسی شاعر کی کامیابی کی دلیل نہیں اس کے بر عکس مطالعہ کی روشنی میں کہا گیا اچھا کلام وہ چاہیں کتنا ہی کم ہو شاعر کو زندہ جاوید کرنے کے لئے کافی ہے۔عزیز بھی انھیں اساتذہ میں سے تھے جن کے شاگردوں نے خوب کہا پر اچھا کہا اور اپنے علم وہنر سے قوم ومعاشرے کی اصلاح کا کام کیا۔عزیز کے شاگردوں کے مطابق ’رحم علی ہاشمی‘ کی تحریر سے ایک اقتباس
’’اس موقع پر تمام تلامذہ کا ذکر طوالت سے خالی نہیں ہے ،چند سر بر آوردہ اصحاب کے نام بہ ترتیب حروف تہجّی لکھتا ہوں جو اس وقت ملک کے لئے سرمایۂ نازہیں۔ادبی اخبارات وصحائف جن کے افادات سے مملو رہتے ہیں۔
۱) میرزا جعفر علی خاں اثرؔ لکھأوی ۲) حکیم سید علی آشفتہؔ لکھۂوی
۳) محمد یٰسین صاحب تسکین مورانو ی ۴) شیام موہن لال جگر ؔ بریلوی
۵) شبیر حسن خاں جوش ؔ ملیح آبادی ۶) عبدالرشید صاحب رشیدؔ لکھؤی
۷) جگت موہن لال رواںؔ انّاؤی ۸) شیفتہ ؔ لکھۂوی
۹) کیفیؔ لکھؤی
(یادیں از رحم علی ہاشمی)
یہ اس عہد کے مشہور شعرأ کی فہرست ہے جو عزیز لکھؤی کے شاگرد تھے اور ہندوستان میں اپنی شعری حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔جن میں رواںؔ کا بھی شمار کیا گیا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رواںؔ اپنے عہد میں تو بہت کامیاب شاعروں میں شمار کئے جاتے تھے اور آج بھی وہ ایک مشہور نام ہیں مگر ان کی پیغامی اور آفاقی شاعری پر جتنا کام ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا۔رواںؔ کے دو مجموعہ ’روح رواں‘اور ’رباعیاتِ رواںؔ ‘شائع ہوئے اور ایک مثنوی’ نقدِرواں‘جو اردو زبان میں مہاتما گوتم بدھ پر لکھی گئی بے مثال مثنوی ہے ۔رواںؔ نے غزلیات اورنظمیات میں بھی جوہر دیکھاے ہیں اور مثنوی میں بھی مگر انھیں رباعیات کا صحیح شاعر کہا جا سکتا ہے۔رواںؔ کو اردو کا عمر خیام کہا جاتا ہے مگر فارسی کے عمر خیام کو جتنی شہرت حاصل ہوئی صد حیف کہ اردو کے عمر خیام کو اس کا دسواں حصّہ بھی نصیب نہ ہوسکا۔اپنی پینتالس سالہ زندگی کا ایک بڑا حصہ رواںؔ نے اردو شاعری کو دیااور اردو زبان میں شعروسخن کی بیش بہا خدمت سر انجام دی ۱۹۳۴ء ؁ میں پینتالس سال کی عمر میں رواںؔ کا انتقال ہوگیا،انھوں نے یہ آخری شعر اپنی مثنوی نقدِ رواں کے لئے کہا تھا۔
گو تھا پانی سرد جھرنوں کا مگر گرم گرتا تھا بساطِ خاک پر
رواںؔ کے انتقال پر ان کے ہم عصروحشی کانپوری نے ایک تاریخی نظم کہی،جس کا اک قطعہ یہاں نقل کر رہا ہوں۔
کون یہ عالم کی نظروں سے نہاں ہو کر چلا
توڑکر بندِ عناصر شکلِ جاں ہو کر چلا
منزلِ ہستی سے گردِ کارواں ہو کر چلا
عالمِ ارواح کو روحِ رواں ہو کر چلا
جیسا کہ اگلے اوراق پر لکھا جاچکا ہے کہ نقدِ رواں جگت موہن لال رواں کی ایک مثنوی ہے جو انھوں نے مہاتما گوتم بدھ کے مختصر حالاتِ زندگی پر نظم کی ہے۔نقدِ رواں پر اپنی گفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے میں مثنوی نگاری پر بات کرنے کو ذیادہ ضروری سمجھتا ہوں اور ہندوستان میں اس صنف کی تاریخی حیثیت پر ایک اجمالی نظر ڈالنے کو بھی بہتر جانتا ہوں۔
مثنوی کی ایک سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ بہت طویل بھی ہو سکتی ہے اور کم سے کم اشعار میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ مثنوی کا ہر شعر دوسرے شعر سے مربوط ہوتا ہے جس شاعر کا بیانیہ جتنا اچھا ہوگا وہ اتنے اچھے مثنوی کے اشعار کہہ سکتا ہے۔مثنوی کے لئے سات چھوٹی بحریں مقبول ہیں مگر اس کے علاوہ بھی بحروں میں کہی گئی ہیں۔رزمیہ،عشقیہ،صوفیانہ،اخلاقی،سیاسی، ہجویہ اور مدحیہ ہر قسم کے مضامین اور موضوعات مثنوی میں جگہ پا سکتے ہیں مگر سارے موضوعات بہت ترتیب سے ہوتے ہیں عام طور سے اردو کی ساری بڑی مثنویاں حمدِ الٰہی سے ہی شروع کی گئی ہیں مثال کے طور پر میرؔ حسن کی’’ سحرالبیان‘‘ کا پہلا شعر ملاحظہ کیجیے
کروں پہلے توحیدِ یزداں رقم جھکا جس کے سجدے کو اوّل قلم
اسی طرح دیاشنکر نسیم ؔ کی مشہورِ زمانہ مثنوی گلزارِ نسیم کے پہلے اشعار دیکھیے
ہر شاخ میں ہے شِگوفہ کاری ثمرہ ہے قلم کا حمدِ باری
کرتا ہے یہ دوزباں سے یکسر حمدِ حق ومدحتِ پیمبر
ان اشعار کے بعد عشقیہ اورصوفیانہ پھر داستانِ زمانہ تحریر کی جاتی ہے۔مثنوی واحد ایک ایسی صنف ہے جس میں طویل سے طویل داستان مسلسل مربوط اشعار میں پیش کی جا سکتی ہے۔مولانا الطاف حسین حالیؔ نے مثنوی کے متعلق مقدمہ شعر و شاعری میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب سے زیادہ کار آمد صنفِ سخن ہے مگر اردو شاعری میں اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔زبان کا علم مثنوی نگاری کے لئے بہت ضروری ہے ۔بات کو سیدھی طرح ادا کیا جائے نہ کہ گنجلک انداز میں۔اس کے بعد سب سے اہم وصف کردار نگاری ہے اگر شاعرانسانی نفسیات اور اس کی پیچیدگیوں سے پوری طرح واقف نہ ہوتو وہ اچھا مثنوی نگار نہیں ہوسکتا۔حالیؔ نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مثنوی نگارایک اچھّا مکالمہ نویس بھی ہونا چاہئے ۔ہندوستان کی قدیم مثنویوں میں صو فیااکرام کی بیشتر مثنویاں ملتی ہیں جن میں بابافرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ،قطبن اور شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کے نام قابلِ ذکر ہیں اور جدید مثنوی کی بنیاد دکن اور گجرات میں رکھی گئی،وہاں اس کے سرپرستوں میں شاہ علی محمد،جیوگادھنی،میاں خوب محمد چشتی،حضرت گیسو دراز بندہ نواز رحمتہ اللہ علیہ،شاہ میراں جی رحمتہ
اللہ علیہ اورشاہ برہان الدین جانم کے اسمائے گرامی خصوصیت سے لئے جا سکتے ہیں۔دکن میں گولکنڈہ اور بیجاپور سے مقیمی کی ’چندر بدن‘ملک خو شنود کی’ہشت بہشت‘اور’یوسف زلیخا‘نصرتی کی مثنوی ’علی نامہ‘وغیرہ بہت مشہور ہیں۔وجہی کی ’قطب مشتری‘ابنِ نشاطی کی’پھول بن‘غواصی کی’سیف الملوک‘اور ’طوطی نامہ‘خصوصیت کی حامل ہیں۔شمالی ہند میں بھی کئی شاعر ایسے ہیں جنہوں نے مثنوی نگاری کو آب دی ان میں دو ناموں کا میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں میرؔ حسن اور نسیم ؔ ان کے علاوہ میر تقی میرؔ ،مصحفی، قلقؔ ،واجد علی شاہ اختر ؔ اور شوق ؔ کے نام ہیں جس میں حسن کی’’سحرالبیان‘‘نسیم کی ’’گلزارِ نسیم‘‘اور شوق کی ’’زہرِ عشق‘‘کو آفاقی شہرت ملی اور اردو کے کلاسیکل ادب میں انھیں نمایاں مقام حاصل ہوا۔اس سے آگے صنفِ مثنوی پر اتنا دھیان نہیں دیا گیااو رنوبت یہاں تک پہنچی کہ اگرمعاصر شاعری کا ذکر کریں تو مثنوی مفقود ہے۔ جگت موہن لال رواںؔ کی مثنوی نقدِ رواں اور رواں ؔ کی مثنوی نگاری پر لسان الہند مولانا عزیز لکھؤی مدظلّہٗ کی رائے کا ایک اقتباس دیکھئے۔
’’مثنوی میں اس کی نوعیت کی بنا پر سب سے ضروری چیز تسلسلِ بیان ہے مگر اس تسلسل میں تنوع لازم ہے ورنہ ایک ہی بات کو پڑھتے پڑ ھتے اور ایک ہی منظر کو پیش نظر رکھتے رکھتے طبیعت اوب جاتی ہے۔اس کے بعد افرادِ مثنوی کے کردار کی تعمیر کا مسئلہ اور یہاں بھی تسلسل کے ساتھ کردار کے مختلف پہلو دکھانا پڑتے ہیں جو انفرادی اور مجموعی طور پر اس کردار کو اجاگر کریں۔رواںؔ نے ان امور کا خیال رکھا ہے اورانکی مثنوی ہر لحاظ سے آرٹ کا مکمل نمونہ ہے۔‘‘
(مقدمّہ از عزیز لکھؤی نقدِ رواں: ص:۳)
مثنوی کی ابتداء ہی میں رواںؔ نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایک مدّت سے مثنوی لکھنے کے خواہش مند تھے۔
ایک مدت سے تمنّا دل میں تھی
میں بھی اردو میں لکھوں اک مثنوی
مگر بچپن سے پریشانیوں کا سامنا کرتے کرتے اور پھر جوانی تک حصولِ علم اور دیگر مسائل میں پھسے رہنے کی وجہ سے اپنی اس خواہش کو ایک مدت تک ٹالتے رہے۔
حوصلے کو گو کہ ممکن تھی یہ بات
راہ میں حائل تھے لیکن مشکلات
رواںؔ انّاؤ کے کامیاب وکلاء میں شمار کئے جاتے تھے مگر اپنی مثنوی نقدرواں میں اپنے پیشے وکالت کے متعلق اپنے مزاج کی لا موضونیت کوانھوں نے اشعار کے ذرئع ظاہر کیا اور میر ؔ کی طرح اپنی زبان کی حفاظت نہ کر پانے پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔
بے تکلف کہہ رہا ہوں صاف صاف
ہے وکالت میری فطرت کے خلاف
اس جہادِ زندگی سے الاماں
الاماں اس بے کسی سے الاماں
بات کرنے کا نہ ہو جن کو شعور
میں کہوں دودو پہر ان کو حضور
لکھ نہیں سکتے جو پورا اپنا نام
روز کرتا ہوں انھیں جھک کر سلام
رواںؔ نے اس مثنوی میں شہر کپل وستو کی تاریخ اور اس کے بسنے کہ قصّے کو نظمیہ انداز میں بحسن و خوبی بیان کیا ہے۔رواںؔ مثنوی کی تخلیق میں بحر کے انتخاب میں بہت متذبذب تھے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اپنے بزرگ شعرا کی مثنویوں کا مطالعہ کرکے رواں اس شش و پنج میں مبتلا تھے کہ آخر ان میں سے کس بحر کو منتخب کیا جائے جب کہ ہر مثنوی اپنی بحر میں یکتاِ روزگار ہے۔لاکھ تذبذب کے بعد مولانا روم کی مثنوی کی بحر پر رواںؔ نے نقدِ رواں کو رقم کرنے کا فیصلہ کیا اور ابتداء میں چند اشعا مولانا روم کہ متعلق کہہ کر اس بات کا اعتراف کیا کہ میں مولانا کی مثنوی کی طرح تو مثنوی کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر بحر کے انتخاب میں مولانا کی مثنوی کو ہی بہتر سمجھتا ہوں۔الغرض رواںؔ نے گوتم بدھ کے حالاتِ زندگی کا بغور مطالعہ کیا اور ان کی حیاتِ جاوید کے اہم پہلووں کو اپنی اس مثنوی میں اجاگر کرنے کی کوشش کی جو کافی حد تک کامیاب بھی ہے۔ مثنوی کی اوراق گردانی کے درمیان ہمیں اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کے اگر نقدِ رواں گوتم بدھ کی ذات پر مشتمل نہ ہوتی اور سحرالبیان جیسے افسانوی قصوں پر رقم کی جاتی تو رواںؔ اپنے بیان سے ما فوق الفطرت واقعات کو بحسن و خوبی بیان کرتے ۔چونکہ رواںؔ کا انتخاب ایک رواحانی شخصیت ہے جو عرفانِ ذات اور عرفانِ خدا کی ترغیب دیتی ہے اور انسان کی ذہنی کشمکش کو خدا کہ معاملات کی جانب متوجہ کرتی ہے۔اس وجہ سے رواںؔ مثنوی میں جو شاعری کا سب سے اہم وصف ہے اغراق ومبالغہ اسے شامل نہ کر سکے اور شائد اسی وجہہ سے رواںؔ کی مثنوی کو وہ اہمیت حاصل نہ ہو سکی جو وصل کی گفتگو سے مزین اور قصّہ نگاری کہ جوہر سے آراستہ مثنویوں کو حاصل ہے۔
گوتم بدھ کی تیس سالہ زندگی چونکہ عام انسانی زندگی ہے اور بچپن سے لے کر عنفوانِ شباب تک کے حالات کچھ بہت ذیادہ متاثر کن نہیں ہیں اس لئے مثنوی کا ذیادہ حصہ انھیں واقعات پر مشتمل ہے جس میں تیس سال کی عمر کے بعد ان کی ذہنی بیداری کو محسوس کیا جاتا ہے۔ایک جگہ گوتم بدھ کی پیدائش کا واقعہ بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں۔کہ ایک بزرگ ہستی نے اس نو مولود بچے کو دیکھا اور اس کی مسقبل میں پیغمبری حیثیت کو آشکار کرتے ہوئے اس بات کا افسوس جتایا کہ میں کاش اتنا بوڈھا نہ ہوتااور ان کی تعلیمات سے دنیا کو بیدار ہوتے ہوئے دیکھ سکتا۔
مہر جب ہوگا سرِ نصف النہار
صبح کا تارا نہ ہوگا آشکار
گوتم بدھ کی ذاتِ واحد کسی کرامت کا مظاہرہ کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ان کی تعلیمات ،اور اپنے وقت کے سب سے بڑے بادشاہ کی اولاد ہوتے ہوئے بھی دنیا کی بے مقصد چیزوں سے ان کی بیزاری یہی ان کی ذات کا سب سے بڑا جوہر ہے۔جب دنیاوی معاملات میں ہر شئے سے گوتم بیزار ہونے لگے تو ان کے والد نے سوچا گوتم کی شادی کر دی جائے توشائد ان کا دل ان خیالات سے پاک ہو جائے جس میں ہر شئے کھوکلی اور بے جان نظر آتی ہے۔اور بادشاہ نے ایک تقریب کا اہتمام کر کے خوب صورت سے خوب صورت تر رانیوں کو ان کے سامنے جمع کردیا اور انہی میں سے ایک کو منتخب کر کے جس کا نام جسودا ؔ تھا گوتم بدھ سے ان کی شادی کروادی رواںؔ نے جسوداؔ اور گوتم بدھ کے پہلی مرتبہ روبرو ہونے کی داستان کو کس طرح بیان کیا ہے ملاحظہ کیجیے۔
اس ادا سے مسکرا تی آئی تھی
تحفۂ گل شاخِ گل خود لائی تھی
سرخ بندی صندلی ماتھے پہ تھی
یا جبینِ صبح پر تارا کوئی
روبرو گوتم کے آکر روک گئی
شاخِ گل بارِ حیا سے جھک گئی
اس منصوبے کو سر انجام دے کر گوتم بدھ کے والد کی خوش فہمی کچھ دنوں تو قائم رہی مگر ایک بیٹا ہونے کے بعد گوتم بدھ کی پھر وہی کیفیت ہونے لگی وہ ساری چیزوں سے بیزار ہو کر قدرت کی طرف متوجہ ہونے لگے ۔ایک مرتبہ باغ میں ٹہل رہے تھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شکاری نے چڑیا کا شکار کیا انھیں یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا اور دل ہی دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس چڑیا کی زندگی کو ختم کرنے کا حق کس نے اس شکاری کو دیا مگر جب دوسرے منظر میں ایک چڑیا کو چھوٹے چھوٹے کیڑوں کو کھاتے دیکھا تو نظامِ قدرت پر اور حیرت ہوئی کہ پرندہ بھی کسی ذی روح کو نقصان پہنچا رہا ہے۔اسی طرح کے دیگر واقعات سے گوتم بدھ کا دل دنیا سے اوب گیا۔اور وہ ترکِ دنیا کا فیصلہ کرکے گھر سے نکل گئے ان کے عزیزواقارب نے انھیں خوب سمجھایامگر گوتم نے سب کو یہ جواب دیا۔
جادۂ منزل ہے گمراہی مری
عفو کے قابل ہے کوتاہی مری
رواںؔ نے اس مثنوی میں بہت خوب صورت تشبیہات کا استعمال کیا ہے اس کی ایک مثال دیکھے کہ جب گوتم اپنے گھر کو چھوڑ کر جانے لگے تو اس رات وہ گھر چھوڑنے سے پہلے اپنی بیوی جسوداؔ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ سو رہی ہیں اور ان کا وارث جسوداؔ کے سائے میں قریب لیٹا آغوشِ خواب میں ہے۔
ماں تھی اور آغوش میں پیارا بھی تھا
ماہ کے ہالے میں اک تارا بھی تھا
مگر پھر دل میں خیال آتا ہے کے یہ سب غیر ضروری ہے۔اور راہِ حق کی تلاش میں پاؤں کے کانٹے اسی خیال سے وہ وہاں سے لوٹ جاتے ہیں اور بیوی سے ملے بنا ہی گھر چھوڑ دیتے ہیں۔سارے معاملات وواقعات کو تواتر سے بیان کرنا مشکل ہے پھر گوتم بدھ نے سالوں تک عبادت کی اور ایک دن انھیں قدرت نے اپنے نظام سے آشنا کردیا اور انھیں کائنات کے نشیب و فراز سے واقفیت حاصل ہو گئی پھر گوتم بدھ نے اپنی تعلیمات کو عام کرنے کا سلسلہ جاری کیا ان سارے واقعات کو رواںؔ نے بہت مہارت سے اپنی مثنوی میں بیان کیا ہے۔مگر اصل جوہر مثنوی کا گوتم بدھ کی تعلیمات میں ہی کھلتا ہے ۔وحشی ؔ کانپوری نے رواںؔ کی مثنوی میں ان تعلیمات کو گیارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے جو فلسفۂ توحید،فلسفۂ ذاتِ باری تعالیٰ، فلسفۂ کائنات ،فلسفۂ حیات وممات ،فلسفۂ ارتقاء ،فلسفۂ تناسخ، فلسفۂ جبر و قدر،فلسفۂ رازِ عالم، بدعتِ بت پرستی، فلسفۂ پاداشِ عمل، اور نجاتِ ابدی کے عنوانات پر مشتمل ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply