جب ہم بچے تھے سمجھتے تھے کہ ادب اس کو کہتے ہیں جو بچے بڑوں کا کرتے ہیں ۔ پھر تھوڑا بڑے ہوئے تو اندازہ ہوا کہ وہ تو اصل میں بےادبی ہے۔ ادب تو”کسی عام سی بات کو سلیقہ مندی سے لکھنا ہوتا ہے “۔ اس تعریف کی رو سے ہم کافی عرصہ جرنیلی سڑک پر لگے سب اشتہارات کو ادب پارے سمجھتے رہے۔ اور سکول کی کاپیوں اور کتابوں کے صفحہ اول پر اپنا نام ،والد کا نام اور کلاس اور سکول سے متعلقہ جملہ معلومات سلیقہ سے لکھ کر ادب تخلیق کرتے رہے ۔ مگر کچھ اور بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ یہ توظاہری سلیقہ مندی ہے۔ جو خوشخطی ہے۔ جب کہ ادب تو خیال کی خوبصورتی اورفقروں میں خوبصورت و موزوں الفاظ کا چناؤ اور ان کے سبھاؤ کا نام ہے ،تب جا کے ہم سمجھے کہ ادب اور غیر ادب میں وہی فرق ہے جو عام لڑکی اور دلہن میں ہوتا ہے۔ یا گھر کے بگھارے ہوئے اور ڈرائیور ہوٹل کے پکے ہوئے بینگنوں میں ہوتا ہے ۔ یا پولیس کے سپاہی اور فوج کے سپاہی میں ہوتا ہے ۔ لیکن ایک الجھن پھر بھی رہی، کہ یہ جو بچے امتحانات میں صبح کی سیر اور میرا وطن پر خوبصورت مضامین بنا کسی چوک کے لکھ کر پورے نمبر لیتے ہیں کیا یہ سب کے سب ادیب ہیں۔
اردو کے استاد صاحب سے پوچھا ۔ فرمانے لگے، کسی دوسرے کی لکھی کتاب سے یاد کرکے یوں سر عام دوسری جگہ لکھنا نقل ہوتا ہے،اور ویسے بھی کورس کی کتابوں میں ادب نہیں نصاب ہوتا ہے ۔ استاد محترم کی باتوں سے دوچیزیں عیاں ہوئیں، ایک تو یہ کہ “دوسروں” کی کتابوں سے چوری چھپے “نقل وقل” کرکے ادب تخلیق کیا جاسکتا تھا ۔ اور دوسرا یہ کہ کورس کی کتابوں میں خاطر خواہ ادب نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا نوجوان “بے ادب” ہوتا جارہا ہے ۔
ادب کو بحیثیت مجموعی دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ معیاری ادب اور مقبول ادب۔ معیاری ادب ذہانت کی زرخیز زمین پر آمد کے بیج سے اگنے والی خیال کی خوبصورت فصل گل سے خداداد صلاحیتوں کی قینچی سے کاٹا اور زبان دانی کے پیمانے سے چھانٹا گیا وہ خوش رنگ گلدستہ ہے۔ جو تجربے اور جانفشانی کے سنہرے ربن سے باندھ کر قاری کے ادبی ذوق کی تسکین کے لئے پیش کیا گیا ہو۔ دوسری طرف مقبول ادب بھی آمد کے بیج سے ہی اگنے والی فصل گل ہے مگربیج شاید ہائی برڈ ہوتا ہے ۔سو انتہائی کم وقت میں بہت جھاڑ دیتا ہے ۔ معیاری ادب کے صلہ میں تھوڑی سی داد، بہت سی تنقید اور ڈھیروں حسد ملتا ہے ۔جبکہ مقبول ادب کے عوض تھوڑی سی تنقید بہت سی پذیرائی اور مناسب سی رقم ملتی ہے ۔
معیاری ادب اپنے ذاتی نام سے لکھا جاتا ہے ۔جبکہ عام طور پر مقبول ادب نسوانی نام سےلکھا جاتا ہے ،یا کم سے کم ایسے نام سے جس کے متعلق واضح نہ ہو سکے کہ عورت ہے یا مرد۔ جیسے عروج ،شفقت اور نسیم وغیرہ ۔ معیاری ادب اور مقبول ادب میں قریب وہی نسبت ہے جو دیسی انڈے اور ولائتی انڈے میں ہے۔ افادیت اور سراپا دیسی کا بہت بہتر ہے مگر عوام میں مقبولیت ولایتی کی ہے۔ اب یہاں میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ ادیب کی انڈہ دینے والی سے کوئی نسبت ہے۔
آج کل مگر ایک اور قسم کا ادب بھی پروان چڑھ رہا ہے ۔ اس کو آپ سوشل میڈیا یا فیس بُک کا ادب بھی کہ سکتے ہیں ،لیکن ہم نے اسے عوام کی سہولت کے لئے “باں ادب” کا نام دیا ہے ۔ باں ادب اس لیے کہ اس کو پڑھ سن کر بڑے بڑے، باں باں کر اٹھتے ہیں ۔ ہمارے دوست قابل خرگوشوی کی رائے ہے کہ اس ادب کی تخلیق کے لیے لکھاری میں بس ایک خوبی درکار ہے کہ اس کو لکھنا آتا ہو۔ ان کا مزید کہنا ہے اس ادب کو زیادہ تر ایسے لوگ لکھ رہے ہیں جن کو ابھی پڑھنا چاہیے ۔ لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ قابل خرگوشوی کی گھڑی، عینک اور پین کی طرح اس کی یہ رائے بھی چوری شدہ ہے ۔ ہمارے خیال میں “باں ادب”کے زیادہ تر خالق جینیاتی علوم کے ماہر ہیں اور ہمہ وقت اپنی تحاریر میں مشاہیر و عوام کے شجرہ نصب کا تعین کرتے رہتے ہیں کہ کہاں کہاں تشکیک اور خامیاں پائی جاتی ہیں، حالانکہ ہو سکتا ہے ایسے مسائل کا سامنا ان کو خود بھی رہا ہو ۔ اس کے علاوہ “باں ادب”میں اس بات پر سیر حاصل کام ہورہا کہ شدھ اور خالص گالیوں کو قابل اشاعت شکل میں کیسے ڈھالا جا سکتا ہے ۔
معیاری، مقبول اور باں ادب کے درمیان موجود تفریط زیر نظر مثال سے باآسانی سمجھی جا سکتی ہے ۔ کسی بھی قدآور لکھاری کی اپنے کسی ہم عصر کے بارے میں وہ رائے جو کسی ادبی رسالہ میں شائع ہو، معیاری ادب کہلائے گی ۔ جبکہ اسی لکھاری کی وہ رائے جو قریبی حلقہ احباب میں بیان کرے مقبول ادب ہوگی، اور وہی لکھاری اسی ہم عصر کے متعلق حقیقت میں جس انداز میں سوچتا ہے ،لیکن بوجوہ اظہار نہیں کر پاتا “باں ادب” کا شہہ پارہ ہے۔
ادب کی کئی اصناف ہوتی ہیں ۔جیسے شاعری، کہانی، اور افسانہ وغیرہ۔ شاعری وہ صنف ہے جس میں مافی الضمیر شعر کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے ۔ یہ عارضہ زیادہ تر پیدائشی ہوتا ہے اور لاعلاج بھی۔ عمربھر ساتھ رہتا ہے ۔ اس کی دو واضح علامات ہیں، شعر کہنا اور زبردستی شعر سنانا ۔ عموماً شعر کہتے ہوئےقافیہ ردیف وغیرہ کی پابندی کرنی پڑتی تھی جس سے مدعا بیان کرنے میں مشکلات پیش آتیں۔ اس کا حل سائنسدانوں نے آزاد شاعری کی صورت میں نکالا ۔ اس میں بھی مگر کچھ روانی اور وزن درکار ہوتا ہے۔ سو آج کل مادر پدر آزاد شاعری بھی عام ہے۔ یہ شاعری کرنا جتنا آسان ہے اس کو سمجھنا اتنا ہی مشکل ۔ جدید شعرا کا تو یہاں تک اصرار ہے کہ ہر اس شے کو شاعری قرار دیا جائے جو ان سے سرزد ہو جائے ۔
افسانہ اردو ادب کی ایک مشہور صنف ہے ۔عام طور پر یہ چھوٹی سی بات سے ہی بن جاتا ہے ۔ لیکن اگر بات بات پہ بن رہا ہو سمجھ جائیں کوئی سیاسی مباحثہ ہورہا ہے یا میاں بیوی میں مذاکرات چل رہے ہیں ۔ اس کی ایک قسم علامتی افسانہ ہے، جس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر قاری حسبِ منشاء نتائج اخذ کر سکتا ہے بالکل چکن کارن سوپ کی طرح، جس کا جیسا من چاہے ویسا ذائقہ بنالے۔
کہانی شاید سب سے غیر مقبول صنف ادب ہے۔ اس سے لوگوں کی عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ہر ذی شعور د ن میں ایک دو بار ضرور کہتا ہے کہانی مت سناؤ۔ شاگرد استاد کو کام نہ کر سکنے کے عذر سے آگاہ کر رہا ہو یا ملازم مالک کو دیر سے آنے کا بہانہ سنارہا ہو ۔ سب کا یہ اصرار ہوتا ہے “کہانیاں مت سناؤ ” ۔ کہانیوں میں پتہ نہیں ایسا کیا بچپنا ہوتا ہے کہ بچوں کے سوا کوئی ان کو سننے پر آمادہ نہیں ۔ اور شاید لکھنے پر بھی ۔
ادب کو سب سے زیادہ خطرہ سرکار اور باں ادب سے ہے۔ سرکار نے ایسے نئے قوانین متعارف کروائے ہیں کہ لکھنے والے کو چھاپنے سے پہلے خود اپنے لکھے کا مفہوم ماہرین قانون سے جاننا پڑتا ہے۔ اور ماہرین چاہیں تو “گدھے کے بچے کتنے خوبصورت ہوتے ہیں ” جیسے بےضرر اور عام سے جملے میں سے ہتک سرکار کا مفہوم نکال لیں ۔ سرکار کے خوف سے ہر ناشر نے ہر مضمون پر لکھا ہوتا ہے ۔
“ناشر کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں” لیکن گمان ِفاضل ہے کہ آئندہ احتیاط مزید کے پیش نظر یوں بھی لکھا جائے گا ۔
“مصنف کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں