قرآن اور تشبیہات

گذشتہ دو ایک پوسٹوں پر کچھ گرامی قدر دوستوں نے شکوہ کیا کہ میں ذاتی خنس نکال رہا ہوں. اس حوالے سے فقط اتنا عرض کروں گا کہ ہاں جب میری جسامت اور لباس کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا تھا تب دکھ ہوا تھا لیکن اپنا وہ دکھ میں نے سرکار علیہ السلام سے شکوے کی صورت میں بیان کیا تھا اس کے علاوہ ایک مستقل پوسٹ میں بھی قابل اعتراض معاملے کو تسلیم کیا تھا. لیکن میں کسی کی ذات پر حملہ آور ہوں گا ایسا کبھی پہلے نہیں ہوا آئندہ بھی اللہ بچائے رکھے.
مثالوں کی بات پر قرآن پاک کو ہی ہمارے مہربان مستدل بناتے ہیں بعض ساتھی گلہ کرتے پائے گئے ہیں کہ مثالیں تو اللہ عز و جل نے بھی بیان فرمائی ہے. پھر اعتراض کس بات پر..؟
اس بارے میں سادہ سی بات سمجھنے کی یہ ہے تشبیہ و استعارہ و رمز و کنایہ وہی معتبر ہوگی جو عرف میں متداول ہو. جس مثال کو زمانے کا عرف نہ مانے ہم کیسی ہی اچھی عبارت میں اس کو پیش کریں وہ تشبیہ اور مثال ناقابل قبول ٹھہرے گی. اگر ایک معتد بہ طبقہ آپ کی مثال پر احتجاج کررہا ہے تو اسے عناد نہ جانئے متداول پیمانوں کی مخالفت کوئی بھی آپ کے عناد میں نہیں کرے گا. اسلام کے دعوے دار آپ بھی ہیں اور آپ پر معترض طبقہ بھی.. ان کا احتجاج اسی بات کو ثابت کررہا ہے کہ عرف میں آپ کی مثال ناقابل قبول ہے .اس کی ایک مثال امرء القیس کا زیر نظر شعر ہے.

وبیضۃ خدر لا یرام خباءھا
تمتعتُ من لھو بہا غیر معجل

(ترجمہ پیش کرنے پر ایک نیا کھڑاگ شروع ہونا ہے اس لئے ترجمے سے صرف نظر کرتے ہوئے مقصد کی بات پر آتے ہیں)

اس شعر پر عرب شارحین فرماتے ہیں کلام عرب میں بیضہ یعنی انڈے سے عورت کی تشبیہ تین وجہوں سے دی جاتی ہے
١..الصحہ والسلامہ عن الطمث یعنی میل کچیل اور حیض کی گندگی سے ستھری اور نکھری ہونے کی بنا پر
اس پر فرزدق کا شعر پیش کیا جاتا ہے

خَرَجْنَ الیَّ وَلَم یَطمِثْنَ قَلبی
وَھُنَّ اَصَحُّ مِن بِیضِ النعام
وہ لڑکیاں میرے سامنے آئیں اس حال میں کہ شتر مرغ کے انڈوں سے بھی زیادہ ستھری تھیں.

٢..حفاظت اور ستر میں لڑکی کی تشبیہ انڈے سے دی جاتی ہے کہ انڈے کو حفاظت سے رکھا جاتا ہے اور یہ کہ انڈہ کا اندرونی مواد باہر کی آلائشوں سے محفوظ رہتا ہے

٣..رنگت میں بھی لڑکی کی تشبیہ انڈے سے دی جاتی ہے انڈہ چٹا سفید نہیں ہوتا بلکہ ہلکی سی زردی کی آمیزش اس میں ہوتی ہے. اور نری سفیدی کی نسبت ہلکی سی زرد آمیزش کی سفیدی زیادہ جاذب نظر ہوتی ہے.
ایک انڈے سے لڑکی کی تشبیہ تین مختلف پہلوؤں سے دی جاسکتی ہے لیکن یہ عرب کا عرف ہے ہمارے یہاں آپ کسی لڑکی کو انڈہ کہہ کر دیکھ لیجیے ,لگ پتہ جائے گا.
تشبیہ کے دفاع میں بعض دوستوں نے ادب کے ساتھ بے ادبی کرتے ہوئے شاعرانہ تخیل پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی ہے اور دور کا نکتہ یہ لائے ہیں کہ جب لڑکی کی آنکھ اور چال کی تشبیہ ہرن سے، اس کے رخ کی تشبیہ چاند جیسی بے روح چیز سے، اس کی زلفوں کی تشبیہ بل کھاتی ناگن سے اور اس کی کمر کی تشبیہ چیتے سے دی جاتی ہے، تب اگر چلغوزے سے تشبیہ دی جائے تو تکلیف کیوں ہوتی ہے. صاحب ہم یہی کہیں گے آپ نے ادب سنا ہے ،پڑھا نہیں ہے.. کسی جزء کی تشبیہ کل سے دینا الگ بات ہے اور کل کی تشبیہ کل سے دینا بالکل الگ بات ہے. ناگن جیسی زلف تشبیہ الجزء بالکل ہے جب کہ چلغوزہ کی طرح لڑکی تشبیہ الکل بالکل ہے اس کی ایک مثال دینا چاہوں گا. اہل زبان سمجھ سکتے ہیں کہ بات کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے

اس کی زلفیں ناگن جیسی ہیں
اس کی شخصیت سانپ جیسی ہے
صاحبِ مان لیجیے آپ شاعر یا ادیب نہیں ہیں اور آپ تشبیہ دینے میں چوک گئے ہیں ۔ہم آپ کو بتاتے ہیں آپ تشبیہ موتی سے دیتے. آپ نے تو پناہ خدا خاتون کو چلغوزہ بناکر رکھ دیا.. ایسا تھوڑی ہوتا ہے…
آپ قرآن مجید میں بیان کردہ مثالوں سے خواتین کیلئے عجیب و غریب مثالوں کا دفاع کرتے ہیں. قرآن مجید میں بیان کردہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں
منافق کے بارے میں قرآن تشبیہ دیتا ہے

مَثَلَهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ

دل کی سختی کے بارے قرآن مجید میں مثال آئی ہے

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ

اللہ تعالی کے دئیے ہوئے علم پر عمل نہ کرنے کی مثال بیان کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے

مثل الذين حملوا التوراة ثم لم يحملوها كمثل الحمار يحمل أسفارا بئس مثل القوم الذين كذبوا بآيات الله والله لا يهدي القوم الظالمين

Advertisements
julia rana solicitors

آپ غور کیجئے پہلی آیت میں بارش اور آگ کے گرد بیٹھے شخص کی مثال، دوسری آیت میں پتھر اور تیسری آیت میں گدھے سے تشبیہ کن کی دی گئی ہے. تینوں جگہ مثبت تشبیہ مقصود ہی نہ تھی بلکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم پر صدق دل سے ایمان نہ لانے والے منافقین یا پھر سرے سے ایمان نہ لانے والے یہودیوں کی تشبیہ دی گئی ہے. وہ تو تشبیہ ہی برائی کی بری چیز سے لائی گئی ہے. آپ عورت جیسی خدائی نعمت جس کا اللہ کریم نے بنی آدم پر مستقل آیت میں نعمت ہونا بتلایا ہے اس عورت جیسی محترم نعمت کو چلغوزہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سوچئے ضرور آپ تشبیہ کن کی کن سے دے رہے ہیں.
علماء کرام سے گزارش ہے معاملے پر ذاتیات سے بلند ہوکر علمی رخ سے سوچئے اور ہمیں بھی شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔
امثال القرآن اور تشبیہات فی القرآن مستقل علوم قرانیہ ہیں عصر حاضر میں ام القریٰ یونیورسٹی کے استاد علامہ صابونی کی کتاب التبیان فی علوم القرآن اور اردو زبان میں قاری محمد دلاور کی کتاب امثال القرآن اس باب میں تمہیدی بنیادوں پر اچھا مطالعہ ثابت ہوسکتی ہے.

Facebook Comments

شاد مردانوی
خیال کے بھرے بھرے وجود پر جامہ لفظ کی چستی سے نالاں، اضطراری شعر گو

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply