• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ترک فیملی کا اغوا, خفیہ اداروں کی کارروائی یا ناکامی؟۔۔۔ عمران حیدر

ترک فیملی کا اغوا, خفیہ اداروں کی کارروائی یا ناکامی؟۔۔۔ عمران حیدر

گزشتہ 27 ستمبر منگل کی رات لاہور میں واقع پاک ترک اسکولوں کے سابق ڈائریکٹر میسوت کاچماز کو انکی بیوی اور دو بیٹیوں سمیت اغوا کرلیا گیا،وہ ایک ماہ قبل ہی واپڈا ٹاؤن کے علاقے میں منتقل ہوئے تھے جبکہ پاکستان میں پچھلے 10 سال سے رہائش پذیر تھے۔ تاحال انکی کوئی خیرخبر نہیں ہے پولیس کے مطابق انکو ایجنسیوں نے اٹھایا ہےمگر کیوں؟ کس نے؟ اور اس وقت وہ کہاں ہیں کسی کو معلوم نہیں۔ نہ ہی انہیں ڈی پورٹ کیا گیا ہے نہ ہی کوئی مقدمہ درج ہوسکا نہ ہی انکی بازیابی کیلیے سرکاری سطح پر کوئی کوشش کی جارہی ہے، یہاں تک کہ سوشل اور لائیوسٹریم میڈیا بھی چپ سادھے ہوئے ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق سول وردیوں میں ملبوس افراد جو خود کو پولیس والے بتا رہے تھے خواتین کو تشدد کرتے ہوئے لےگئے۔
پولیس کے مطابق یہ فیملی پاکستان میں لیگل تھی اور کسی سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی مگر کاچماز نے 2008 میں گولن تحریک پر مبنی نیو یارک ٹائمز کے  ایک مضمون کے لیے انٹرویو دیا تھا جس کے بعد ترک سفارتخانے کی جانب سے پاکستان حکومت کو ایکشن لینے کا کہا گیا جسے رد کردیا گیا۔ترک سکولز بند کرنے اور اساتذہ کو جبراً ملک بدر کرنے کے بعد میسوت کاچماز نے ویزہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے ترکی جانے سے انکار کردیا تھا۔جسے ہائیکورٹ نے بھی غیرقانونی قرار دیکر حکومت کو ایسے تمام افراد کو ڈی پورٹ کرنے سے روک دیا تھا۔ان کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے چونکہ انہیں ترکی میں جان کو خطرہ تھا اس لیے ویزہ ختم ہونے سے پہلے ترکی جانے کی بجائے کسی اور ملک کا ویزہ حاصل کرکے وہاں سکونت اختیار کرنا چاہتے تھے۔اسی سلسلے میں وہ لاہور آئے ۔مگر اس سے پہلے ہی انکو اغوا کرلیاگیا ۔
اب سوال یہ ہے  کہ وہ کہاں ہیں؟پولیس کا کہنا ہے کہ انکو کسی ایجنسی نے اغوا کیا ہے وہ یہ بات کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ عام طور پر پولیس ایسے معاملات میں خاموش رہتی ہے مگر یہاں ڈائریکٹ ایجنسیوں کا نام لیا جارہا ہے۔ اور انٹرنیشنل میڈیا اور بی بی سی وغیرہ کو بھی پولیس والوں نے یہی انٹرویو دیا ہے کہ یہ ایجنسیوں کا کام ہے۔ جس کے بعد لاہور مال روڈ پر کچھ لوگوں نے اس اغواکے خلاف احتجاج بھی کیا اور کھلے لفظوں میں ایجنسیوں پر تنقید  بھی کی۔۔دوسری طرف حساس ادارے بھی اسکی تائید یا تردید نہیں کررہے،جوکہ خطرناک صورتحال ہے۔ پوری دنیا میں یہی میسج جارہا ہے کہ غیرملکی یہاں محفوظ نہیں ہیں اور پاکستانی ایجنسیاں ہی ان کو اغواکرلیتی ہیں۔اگر یہ ایجنسیوں کا کام ہے تو فی الفوراس فیملی کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ اگر کوئی اور معاملہ ہے یا کسی اور گروہ کا کام ہے تو انہیں جلد از جلد بازیاب کروایا جائے،
علاقے میں نصب سی سی ٹی وی کیمراز کی فوٹیج میں اغوا کاروں کو دیکھا جاسکتا ہے (جبکہ ایجنسیوں والے کسی بھی صورت ایسا کوئی ثبوت نہیں چھوڑتے)
عینی شاہدین جن میں میسوت کاچماز کے دوست فاتحِ اوج بھی شامل ہیں انکا کہنا ہے کہ تقریباً دس اسلحہ بردار افراد تھے جن میں چار عورتیں بھی تھیں میسوت کاچماز انکے ساتھ جانے کو تیار تھے مگر عورتوں کو چھوڑ جانے کی درخواست کی، مگر اغوا کار انہیں بھی ساتھ لیجانا چاہتے تھے جسکے بعد انکی بیوی اور بیٹیوں نے مزاحمت کی جس کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور گاڑیوں میں ڈال کر لے گئے۔میسوت کاچماز ایک استاد ہیں۔ اسی ہفتےپوری دنیا میں ٹیچر ڈے منایا گیا مگر ہزاروں پاکستانی بچوں کو پڑھانے والا استاد اپنی بیوی اور دو جوان بیٹیوں کے ساتھ کس حال میں ہے کسی کو معلوم نہیں ۔ کون لوگ ہیں جو یہ کام کررہے ہیں ۔
اگر ایجنسیوں کی بات کی جائے تو میں ایسا نہیں سمجھتا اگر انہوں نے ایسا کرنا ہوتا تو اس وقت ہی کرلیتے جب ترک سفارتخانے نے درخواست کی تھی ۔ اب جب ان کے ویزہ کی مدت ختم ہونے کو تھی اور وہ ویسے ہی ملک چھوڑنے والے تھے انکو اغواکیا جانا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔کہیں ایسا تو نہیں ہم یہاں آپسی اور ذاتی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں اور کوئی دوسرا ہماری سرحدوں کے اندر گھس کے کارروائیاں کر رہا ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply