بات کہی نہیں گئی ،بات سنی نہیں گئی۔۔۔ محسن علی

ہمارے معاشرے کے ان گنت مسائل میں سے کچھ مسائل معاشرتی ہیں ، کچھ مذہبی ، کچھ سیاسی مگر سب سے زیادہ مسائل اگر دیکھا جائے تو ہمارے انفرادی حیثیت میں ہیں ۔شائد انسان جب پاکستان کے لکھنے والوں کو پڑھتا ہے تو اُن لکھنے والوں نے بہت مختصر الفاظ میں بات کہہ دی ہوتی ہے لیکن عوام واہ واہ تو کرلیتی ہے مگر بات کی تہہ تک نہیں جاتی۔ اسلئے تو جون صاحب، بہت کچھ کہا مگر ایک بات کہی تھی کہ
“بات کہی نہیں گئی بات سنی نہیں گئی” .
ہم   مکمل طور پہ کسی کا درد دکھ سنتے ہی نہیں  …لہٰذا پھر وہ انسان  اپنے دکھ درد اندر ہی اندر رکھ کر خود پرستی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ہم اسکو برا سمجھ کر چھوڑدیتے ہیں …بجائے اسکے دکھ درر سن کر اسکو زندگی میں آگے کولائیں پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ پھر ہم کہتے ہیں ہم پچھلے گزشتہ کا دم بھرتے ہیں ساتھ والوں کو سنتے نہیں اگلے انسان بہتر کیسے پیدا ہوں؟
ایجادات تخلیقات کاعمل قلم سے گزرتا ہوا ایجادات تک جاتا ہے ۔یہ میں نہیں کہتا دنیا کی تاریخ گواہ ہے، پہلے سوچنا پھر بولنا پھر لکھنا پھر اجتماعی تحریک سے کچھ لوگ کچھ ایجاد کرتے ہیں ..مگر ہم کبھی دوسرے کے سننے کی کوشش کرینگے؟ یا اداس لوگ اداس نسلیں ہی تیار کرینگے .ادھورے انسان مکمل معاشرہ بھلا کہاں تشکیل دے سکتے ہیں..؟ کوئی تو اُمید سحر کی شمع جلائے …کوئی تو نئی مشعل جلائے …کہیں تو قندیلیں ہوں پیاسی روحوں کی سبیلیں ہوں ۔۔۔

Facebook Comments

محسن علی
اخبار پڑھنا, کتاب پڑھنا , سوچنا , نئے نظریات سمجھنا , بی اے پالیٹیکل سائنس اسٹوڈنٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply