آنگ سان سوچی، امن کے سرکس کی ایک جوکر۔۔۔محمد صرفی

“ستمبر 1958…ء کا ایک خوبصورت دن تھا، صبح 11 بجے اقوام متحدہ کا شیشے کا بنا ہوا عظیم پنجرہ خزاں کی دھوپ میں چمک رہا تھا اور اپنا امن پسندانہ مشن جو درحقیقت امریکہ کو دنیا کے سب سے بڑے سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنا تھا، ادا کرنے میں مصروف تھا۔” یہ اس ناول کے ابتدائی جملے ہیں جس کا نام “کبوتر کے ہمراہ ایک مرد” تھا اور 1958ء میں لکھا گیا تھا (دنیا میں امن کے قیام کی غرض سے اقوام متحدہ نامی بین الاقوامی ادارے کی تشکیل کے 13 برس بعد)۔ اس ناول کے مصنف نے اپنا نام “فاسکو سینی بالڈی” ظاہر کیا تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ درحقیقت فرانسوی سفارتکار اور لکھاری “رومن گیری” تھے۔ رومن گیری روسی تبار تھے۔ اب جبکہ اقوام متحدہ اپنی جنرل اسمبلی کے 72 اجلاس منعقد کر چکی ہے اس 120 صفحات پر مشتمل انتہائی آرٹسٹک کتاب کا مطالعہ ایک خاص لطف کا حامل ہے۔

گیری جو خود بھی کئی سال تک اقوام متحدہ کے بورڈ آف گورنرز کے رکن رہ چکے تھے اپنی کتاب میں انتہائی طعنہ آمیز اور علامتی زبان کے ذریعے اس بظاہر شان و شوکت کے حامل ادارے میں حماقت اور تباہی کی گہرائی بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ناول اس وقت اپنے عروج تک جا پہنچتا ہے جب کہانی میں شامل کبوتر اقوام متحدہ کی عمارت میں داخل ہو کر پرواز کرنے لگتا ہے۔ رومن گیری لکھتے ہیں:
“کبوتر تخفیف اسلحہ کمیشن کے حصے میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں جاتے ہی اسے ایک انجانا سا خوف محسوس ہونے لگتا ہے۔ کبوتر آسودہ خیال ہو کر میزوں پر چل رہا تھا اور ادھر ادھر بیٹیں کرتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ اراکین کے ہال میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔۔ اراکین نے آپس میں اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے، جو اقوام متحدہ میں انتہائی نادر مواقع پر ہی نظر آتا تھا، مل کر کبوتر پر ہلا بول دیا۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ناول 59 سال قبل لکھا گیا ہے۔ اس وقت دنیا اور رائے عامہ میں اقوام متحدہ کا اچھا خاصہ مقام تھا اور اکثریت یہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ اس ادارے کے فیصلوں اور اقدامات کی برکت سے دنیا بہتر مستقبل کی حامل ہو گی اور دنیا زندگی گزارنے کیلئے زیادہ پرامن ہو جائے گی اور اگر دنیا کے کسی کونے میں کسی بدمعاش نے ظلم و ستم انجام دیا تو اقوام متحدہ مظلوموں کی پناہگاہ بن کر ان کے چھنے ہوئے حقوق واپس لوٹانے کیلئے پرعزم نظر آئے گی۔ اقوام متحدہ نے گذشتہ 72 سالوں کے دوران اپنا اسٹرکچر روز بروز پھیلایا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے اصلی اور مبینہ مقصد اور مشن سے دور سے دور ہوتی گئی ہے۔ اگرچہ انسانی اقدار اور آرزووں کی تحقق کیلئے ایک ایسے بظاہر بین الاقوامی ادارے سے امیدیں وابستہ کرنا جو دوسری عالمی جنگ کے بعد فاتح ممالک کی طرف سے تشکیل دی گئی تھی، تلخ طنز کے ہمراہ بیمار اوہام پرستی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
آج جو کچھ دنیا والوں کی آنکھوں کے سامنے اور اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے اداروں کی بے حسی کے عالم میں میانمار میں ہو رہا ہے، دنیا کی حقیقی صورتحال اور قیام امن اور انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی احساس ذمہ داری کا ایک نادر نمونہ ہے۔ وہ امر جو اس تاریخی سیاہ المیہ کو مزید المناک بنا دیتا ہے، سان آنگ سوچی کا کردار ہے۔ ایسی عورت جس نے پانچ برس پہلے امن کا نوبل انعام دریافت کرنے کے بعد اپنی تقریر میں کہا تھا:
“میری گوشہ گیری میں گزری زندگی کا ایک مثبت پہلو یہ تھا کہ مجھے ان الفاظ اور تصورات کے معانی پر غور و فکر کرنے کا بہت زیادہ موقع ملا جنہیں میں زندگی بھر قبول کرتی آئی تھی۔ ایک بدھ مت ہونے کے ناطے میں نے بچپن سے ہی Dukha کے بارے میں سن رکھا تھا جس کا ترجمہ عام طور پر غم اور دکھ کے طور پر کیا جاتا ہے۔”
آنگ سان سوچی نے اپنی تقریر میں دکھ درد دور کئے جانے اور قانون کی حکومت کی پیروی کئے جانے پر زور دیتے ہوئے یونیورسل انسانی حقوق سے عشق کا اظہار بھی کیا اور عالمی امن کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا:
“آخرکار ہمارا مقصد ایک ایسی دنیا کی تخلیق ہونا چاہئے جو مہاجرین، بے گھر افراد اور غریبوں سے عاری ہو۔ ایسی دنیا جس کا ہر کونہ حقیقی طور پر عبادتگاہ محسوس ہو اور اس میں بسنے والے آزادی کے ہمراہ امن پسندانہ زندگی جینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔”
ان کیلئے تالیاں بجائی گئیں، انہیں ہاتھوں پر اٹھایا گیا اور اقتدار کی کرسی پر بٹھایا گیا۔ اگرچہ روہنگیا کے مسلمان، جنہیں زمین پر مظلوم ترین قوم قرار دیا جا رہا ہے، آنگ سان سوچی کے برسراقتدار آنے سے پہلے بھی آسودہ زندگی بسر نہیں کر رہے تھے لیکن گذشتہ دو سالوں کے دوران نہ صرف ان کی حالت زار میں بہتری نہ آئی بلکہ وہ المیے سے بھی زیادہ دردناک صورتحال سے دوچار ہوئے اور ماہرین کی نظر میں آج جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ نسل کشی کا یقینی اور واضح ترین مصداق ہے۔ آنگ سان سوچی نے اپنے ہم وطن مسلمانوں کی اس غم زدہ صورتحال پر ایک عرصے تک تو خاموشی اختیار کئے رکھی اور جب زبان کھولی تو اپنے پہلے بیان میں ہی حقائق کا انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ راخین (میانمار کے مغرب میں واقع ساحلی شہر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے) کی جہنم کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ مکمل جھوٹ ہے جسے دہشت گرد عناصر پھیلا رہے ہیں۔
حال ہی میں آنگ سان سوچی نے دوبارہ زبان کھولی اور کہا:
“جیسا کہ میں نے گذشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا میانمار عالمی برادری کا ایک ذمہ دار رکن ہونے کے ناطے بین الاقوامی سطح پر ملک میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں تحقیق سے نہیں گھبراتا۔ اسی طرح میانمار حکومت ریاست راخین میں بسنے والی تمام اقوام کیلئے امن اور ترقی کی خواہاں ہے اور وہاں موجود مسائل کا پائیدار حل چاہتی ہے۔ حکومت خطے میں امن اور استحکام پیدا کرنے اور راخین میں مسلمانوں اور دیگر اقوام کے درمیان صلح کرانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔”
کئی لاکھ مسلمانوں کے جلاوطن ہو جانے اور ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام اور ان المناک واقعات کے بعد جو اب تک جاری ہیں، راخین میں امن، استحکام اور ترقی کی باتیں کرنا انتہائی درجے کی گستاخی اور گھٹیا پن کو ظاہر کرتا ہے۔
البتہ آنگ سان سوچی جنہیں مغربی میڈیا نے موجودہ صدی کی مہاتما گاندھی اور نیلسن منڈیلا جیسے القاب سے نوازا ہے اور انہیں امن کی علامت کے طور پر دنیا پر مسلط کر رکھا ہے، کی جانب سے ایسے منافقانہ موقف کا اظہار غیر متوقع بھی نہیں تھا۔ گذشتہ اڑھائی برس سے یمن مکمل طور پر محاصرے کا شکار ہے اور اس ملک میں ہر دس منٹ میں ایک یمنی بچہ سعودی جارحیت کے نتیجے میں جان کی بازی ہار رہا ہے۔ ایسی صدی جس میں آل سعود رژیم جیسی حکومت جس کے ہاتھ خطے کے بیگناہ مسلمانوں کے خون میں رنگین ہو چکے ہیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کا رکن منتخب کیا جاتا ہے، تو پھر کیوں نہ آنگ سان سوچی امن کی علامت اور ہیرو قرار پائے اور امن کا نوبل انعام حاصل کرے؟
میانمار اور آنگ سان سوچی سے متعلق مغربی ممالک کا رویہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ میانمار میں رونما ہونے والے واقعات اس قدر گھناونے اور دردناک ہیں کہ ان کا انکار کرنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں لہٰذا مغربی ممالک نے فریبکاری کا راستہ اختیار کیا ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی جانب سے میانمار میں جاری بیگناہ مسلمانوں کی نسل کشی رکوانے کیلئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا اور مستقبل قریب میں بھی ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ دوسری طرف مغربی حکام اپنے بیانات میں نہ صرف آنگ سان سوچی کو تنقید کا نشانہ نہیں بناتے بلکہ اسے بیگناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی جانب سے یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگرچہ آنگ سان سوچی میانمار میں برسراقتدار ہیں لیکن اصل طاقت آرمی کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے خلاف جو مظالم ہو رہے ہیں اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے جنگلی پن اور وحشی پن پر مبنی دنیا کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ آج دنیا ایسے جنگل میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں امن کے ہیرو شمعون پیریز، اسحاق رابن، مناخیم بیگن، براک اوباما اور آنگ سان سوچی جیسے افراد ہیں۔ ایسے جنگل میں دنیا کا احمق ترین سیاست دان، ڈونلڈ ٹرمپ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جاتا ہے اور امن و امان اور استحکام کی باتیں کرتا نظر آتا ہے ۔ رومن گیری اپنے ناول کا اختتام اس جملے پر کرتا ہے:
“کبوتر دفن کر دیا گیا۔۔۔۔   افسوس وہ اس سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا تاکہ یہ بھی دیکھ سکتا کہ عالمی امن کے سرکس اور ٹرمپ سے لے کر آنگ سان سوچی اور نیتن یاہو تک اس کے جوکرز نے آگ اور خون کا کیسا کھیل شروع کر رکھا ہے۔”

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply