کردستان ریفرنڈم یا طبل جنگ؟۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس

سرزمین عراق پچھلی کئی دہائیوں سے مسلسل بدامنی کا شکار ہے، اہل عراق یکے بعد دیگرے کئی جنگیں دیکھ چکے ہیں۔ پہلے صدام کی اپنے  عوام کے خلاف جنگ تھی، عراق کے کویت پر قبضے کے بعد اتحادی ممالک کی طرف سے براہ راست جنگ اور پابندیاں رہیں، اتحادی افواج نے امریکی قیادت میں اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس سے سنبھلنے ہی نہ تھے کہ داخلی بدامنی کے ساتھ ہی بین الاقوامی قوتوں نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاسی کشمکش پیدا کرکے داعش کی صورت میں ایک ناسور عراق پر مسلط کر دیا، جس سے اہل عراق نے بڑی جرات سے بزور بازو نمٹا، ابھی داعش کے بچے کھچے عناصر کے خلاف کارروائی جاری تھی کہ کردستان میں ریفرنڈم کے ذریعے علیحدگی کا مسئلہ درپیش ہوگیا۔ کرد پانچ ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں، ایک اندازے کے مطابق ترکی میں 14، ایران اور عراق میں 6، 6 اور شام و آرمینیہ میں 2، 2 ملین کرد آباد ہیں۔ ایک لمبا عرصہ ایران کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کی زبان بھی فارسی سے متاثر ہے۔ عراق میں رہنے والے کرد دوسرے ممالک میں بسنے والوں کردوں کی نسبت کئی حوالے سے مختلف ہیں، یہاں ان کو داخلی خود مختاری حاصل ہے، ان کی اپنی پارلیمنٹ ہے، ان کی اپنی فوج ہے، جو پیشمرگہ کہلاتی ہے، جس کی تعداد دو لاکھ ہے، جو ایک طاقتور، منظم اور تربیت یافتہ فوج ہے۔ عراقی تیل کی اہم آئل ریفائریز اس علاقے میں ہیں، یہیں سے پائپ لائن کے ذریعے کردستان کی حکومت تیل برآمد کرتی ہے اور آمدن کا ایک مخصوص حصہ عراقی حکومت کو دیا جاتا ہے۔

کردستان عراق کا دارالحکومت اربیل ہے اور اس کی سرحد ایران، شام اور ترکی سے ملتی ہے، اس کی زیادہ تر برآمدات جو کہ تیل کی صورت میں ہی ہوتی ہیں، ترکی کو جاتی ہیں اور کھانے پینے کا سامان اور دوسری اشیاء ترکی سے لی جاتی ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کردوں کی اکثریت لبرل مسلمان ہے۔ عراقی کردستان میں ریفرنڈم منعقد ہوگیا، جس میں عوام سے یہ پوچھا گیا ہے کہ وہ آزادی چاہتے ہیں یا آزادی نہیں چاہتے؟ اسی طرح کا ایک ریفرنڈم 12 سال پہلے بھی منعقد کیا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اس وقت جب داعش کا خطرہ تھوڑا کم ہوا ہے تو یہ ریفرنڈم کیوں منعقد کرایا جا رہا ہے؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کرد سمجھتے ہیں کہ عراقی فورسز میں اتنی جان نہیں رہی، وہ لڑ لڑ کر تھک چکی ہیں اور کسی حد تک کمزور ہوچکی ہیں، اس لئے کرد اسے اپنے لئے ایک بہترین موقع سمجھتے ہیں۔ کیا بات اتنی سادہ سی ہے کہ ریفرنڈم ہوگیا، نتائج جو کہ یقیناً ہاں کی صورت میں ہی سامنے آئیں گے، اب اس کے نتیجے میں اسے عراق تسلیم کر لے گا؟ خطے کے ممالک کا ردعمل کیا ہوگا؟ بین الاقومی قوتیں کیا چاہیں گی؟ اور اس تبدیلی کے علاقائی اور بین الاقوامی اثرات کیا ہوں گے۔؟ سب سے پہلے تو اسے عراق حکومت تسلیم نہیں کرے گی، عراقی وزیراعظم کا بیان آگیا کہ کرد لیڈر بارزانی آگ سے کھیل رہے ہیں، عراقی حکومت نے فوری طور پر تمام بارڈرز اور ایئرپورٹس کا کنٹرول مرکزی حکومت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے۔

اسی طرح حرکت نجباء جو عوامی رضاکار فورس کا ایک بڑا حصہ ہے، اس نے بھی اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ اس تقسیم کو قبول نہیں کریں گے۔ ایک بات بہت اہم ہے کہ تقسیم کے مسائل اتنے سادہ نہیں ہیں، مثلاً کرکوک پر کرد اور عراقی حکومت دونوں کا دعویٰ ہے اور عملی طور پر یہ داعش کے قبضے کے بعد کرد فورسز نے آزاد کرا کر اسے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ یہ شہر تیل اور تیل ریفائنریوں کے حوالے سے معروف ہے اور آبادی کا تناسب بھی برابر برابر ہے۔ ایک خطرہ یہ موجود ہے کہ اگر ڈیڈلاک برقرار رہا اور کوئی گفت و شنید نہ ہوئی تو عراق میں ایک اور جنگ چھڑ جائے گی بلکہ ایک خانہ جنگی کا خطرہ موجود ہے، جس میں عراقی مزید مشکلات کا شکار ہوں گے اور پورا خطہ متاثر ہوگا، اس حوالے سے درافر سوڈان کی مثال موجود ہے۔ علاقائی ممالک کی سلامتی بھی خطرات سے دوچار ہو جائے گی۔ کرد ترکی کی آبادی کا بڑا حصہ ہیں، وہاں انہوں نے ایک زبردست تحریک چلائی ہوئی ہے۔ ترکی کی فوج سے براہ راست اس سے لڑائی ہوتی رہتی ہے، پی کے کے کا ترکی کے کرد علاقوں میں بڑا نفوذ ہے۔ کردستان کی علیحدگی ترکی کے لئے خطرے کا الارم ہے، اسی لئے ترکی کے صدر نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بارزانی آزادی سے باز آجائیں، اگر انہوں نے کوئی قدم اٹھایا تو ترکی اس پر پابندیاں لگا دے گا۔ کردستان کی ستر فیصد درآمدات ترکی سے ہیں اور سارا تیل پائپ لائن کے ذریعے ترکی سے ہی برآمد کیا جاتا ہے، جس کی مالیت 23 ارب ڈالر تک بیان کی جاتی ہے۔ اس سے کردستان شدید مالی بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔ کردستان کے ریفرنڈم کے اعلان نے عراق اور ترکی ،کی حکومتوں اور افواج کو ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا ہے اور اس وقت عراق اور ترکی کی فوج کی جنگی مشقیں جاری ہیں، جس میں سینکڑوں فوجی شریک ہیں۔

شام اور ایران کی حکومتیں عراقی حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں، کیونکہ ہر دو حکومتوں کو خطرہ ہے کہ بارڈرز کے ساتھ زبان یا نسل کی بنیاد پر کی گئی کوئی تبدیلی خطے میں کئی قسم کے بحرانوں کو جنم دے سکتی ہے اور خود ان ممالک کی سلامتی کے لئے ایک چیلنج کی صورت حال پیدا کرسکتی ہے، اس لئے یہ حکومتیں ہر حوالے سے عراق کے ساتھ ہیں۔ شام کے کرد امریکی سرپرستی میں ایک لشکر بنا کر داعش سے لڑنے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور کافی علاقہ ان کے قبضے میں ہے اور انہیں براہ راست امریکی فوج کی حمایت حاصل ہے۔ بین الاقومی استعماری قوتوں کی یہ خواہش ہے کہ اسرائیل کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے علاقے کو مزید چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کیا جائے، تاکہ اجتماعیت ختم ہو جائے اور چھوٹے چھوٹے ملکوں سے ڈیل کرنا مشکل نہیں ہوگا، کیونکہ وہ دست نگر ہوں گے۔ جو ملک کردوں کی زبردست حمایت کر رہا ہے، وہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل کی یہ خواہش ہوگی کہ اپنے بارڈر سے باہر ایران کے بارڈر پر ایک دوست ملک بن جائے، جو ایران کے خلاف اس کی سرگرمیوں کا مرکز ہو، شام و لبنان کے ساتھ ایران کے براہ راست آمد و رفت کا نگران بھی ہو۔ پولینڈاور کینیڈا بھی کردستان کے قیام کی حمایت کر رہے ہیں۔ امریکہ نے کردستان کی مخالفت نہیں کی، صرف یہ کہا کہ داعش کے خلاف جاری جنگ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، یعنی ان کے لئے عراق کا ٹکڑوں میں تقسیم ہونا اتنا اہم نہیں ہے، یا دوسرے لفظوں میں وہ اس کے تو حامی ہیں، بس وقت مناسب نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کردستان کا قیام پورے خطے میں نئی حد بندیوں کا آغاز ہوگا، اس کے بعد کردستان کو بنیاد بنا کر پانچ مسلم ممالک کے بارڈرز کو تبدیل کرنے کی مہم شروع کی جائے گی۔ یہ مہم مسلمان کو مسلمان سے لڑانے کی نئی چال ہوگی، کیونکہ فرقہ کی بنیاد پر جتنا عدم استحکام پیدا کیا جا سکتا تھا، کرکے دیکھ لیا گیا، اس کے ذریعے مسلمان ممالک کو کمزور کر دیا گیا، ان  کی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا گیا، پوری ایک نسل کو تعلیم کی بجائے فقط بارود کا پتہ ہے، جو جہالت کی اندھیر نگری میں بھٹکتی رہے گی۔ ایران، ترکی، شام اور آرمینیہ کے کردوں کو مسلح تصادم کے ذریعے حکومتوں سے لڑا کر ان ممالک کا امن غارت کیا جائے گا۔ مسلم دشمن قوتیں صرف تماشہ دیکھیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس چال کو سمجھا جائے، کردوں کی جائز شکایتوں کا ازالہ کیا جائے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اسی نیو ورلڈ آرڈر میں وطن عزیز پاکستان کو تقسیم کرنے کی بات کی گئی کہ ایرانی، افغانی اور پاکستانی بلوچستان کو ملا کر زبان کی بنیاد پر ایک بلوچستان قائم کیا جائے، اس پر عملدر آمد مہم تیز ہوچکی ہے۔ زمینی حقائق اگرچہ ان کے خلاف جا رہے ہیں، مگر جنیوا میں جاری پاکستان مخالف سرگرمیاں اب پوشیدہ نہیں رہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply