سانحہ کوئٹہ ۔۔ ایک تنقیدی جائزہ

جب مجھے سانحہ کوئٹہ کے بارے میں علم ہوا۔میرے اعصاب میرا ساتھ چھوڑنے لگے، میرا دماغ گہرے سکوت میں چلا گیا، میرا ضمیر دوبارہ سے موت کی طرف گامزن ہوگیا۔ کیا خون کی ہولی صرف اب کوئٹہ میں ہی کھیلی جائے گی؟ یہ وہی کوئٹہ ہے جہاں اکتوبر کے مہینے میں برف کی سفیدی چادر اوڑھ لیتی ہے، یہ وہی کوئٹہ ہے جہاں کا موسم ایک خوش نما زندگی کی منظر کشی کرتا ہے لیکن ہائے اس کوئٹہ کو کس کی نظر لگی؟ برف کی سفیدی کی جگہ خون کی لالی نے لے لی، زندگی کے سکون کی جگہ بم و باورود نے ڈیرے ڈال دیے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم کب تک الزام دوسروں پر لگاتے رہیں گے؟

کیا ہم اپنی صفوں کو سیدھا نہیں کریں گے؟ ہم اپنی چارپائی کے نیچے کب ڈانگ پھیریں گے؟ ہم کو آج بنگالیوں سے کی ہوئی زیادتیاں یاد آتی ہیں۔کہیں ایسا نہ ہوکہ بیس سال بعد ہم پھر وہی لکیر پیٹیں کہ اگر ایسا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔ وغیرہ وغیرہ

سانحہ کوئٹہ جس میں ساٹھ سے زائد جوان شہید اور ایک سو بیس سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ حملہ آوروں کی تعداد تین ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ تین اتنے ہی مضبوط تھے، ہمارے ادارے اتنے ہی کمزور ہیں؟ ایک شہر جس کی آبادی سے زیادہ وہاں پر حفاظتی اہلکار موجود ہیں، جہاں سکولوں اور ہسپتالوں سے زیادہ چوکیاں ہیں، پھر بھی اتنی بڑی دہشت گردی کی کاروائی ہوگئی۔ کیا ہمارے اداروں کے اندر اہلیت نہیں یا پھر تربیت کا فقدان ہے؟

اب آئیے ان سوالات کے جوابات کی طرف ۔ آئی جی بلوچستان نے چند دن پہلے صوبائی حکومت سے اسی ٹریننگ سینٹر کی دیواروں کو اونچا کرنے کے لیے فنڈز مانگے تھے اور ساتھ یہی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ دہشت گردی کی کاروائی ہوسکتی ہے۔ لیکن صوبائی حکومت نے کچھ نہ کیا اور دو سو کے قریب خاندانوں کی زندگیاں اجیرن ہوگیئں۔

اگر ٹریننگ سنٹر کے جائے وقوعہ کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کی دیواریں چھوٹی، روشنی کا مناسب بندوبست نہیں اور تو اور دروازے پر صرف ایک اہلکار حفاظت کے لیے مامور ہے۔ سات سو کے قریب کیڈٹس اندر زیرتربیت ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے صرف ایک آدمی؟ یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ ہماری حکومتوں بجائے مسئلے کے حل کے الزام اور مذمت کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔ ہر معاملے پر صرف مذمت ہے۔اس سانحے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی العالملی نامی کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے۔اس تنظیم کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں، سب کو پتہ ہے. اس تنظیم کے روحانی پیشوا نے گزشتہ دنوں وزیر داخلہ صاحب سے ملاقات بھی کی تھی اور اسی تنظیم کا دائیاں بازو اس وقت پنجاب کے سیاہ سفید کا مالک ہے۔ اس تنظیم کا ظہور ضلع جھنگ سے ہوا تو جناب اب کومبنگ آپرشن کی راہ میں کیوں روڑے اٹکا رہے ہو؟

شہدا کے جسموں کو جب نجی وینز کی چھتوں پر رکھ کر ان کے آبائی علاقوں کو بھیجا گیا تو سوشل میڈیا پر ایک طوفان تھا۔ ہر بندہ اپنے اپنے انداز سے دست وگریبان تھا، کہ یہ شہدا کی توہین ہے، ایمبولینسز کہاں ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ میں ان دردِ دل والے انقلابی حضرات کے گزارش کرنا چاہوں گا کہ جتنی لاشیں تھیں، اگر پورے بلوچستان کی ایمبولینسز کو اکٹھا کیا جاۓ تو بھی کم پڑ جاتیں۔ جب پورے ملک کے وسائل ایک صوبے بالخصوص ایک شہر لاہور پر انڈیل دیے جائیں، اورنج لائن ہو یا میٹرو بس ہو جب اس طرح کی چیزیں تمام صوبوں کو پسِ تشت ڈال کر بنائی جائیں تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ پنجاب کی گندم پنجابی کی ہے، بلوچستان کا سونا اور تانبا وفاق کی ملکیت ہے۔ ہم نے سوئی گیس تو مری تک پہنچا دی لیکن جس علاقے کی مناسبت سے اس کا نام رکھا تھا، وہ آج بھی اس سے محروم ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

جب ترجیحات امتیازی ہوں گی تو رویے بھی جانب دار ہوں گے۔جب تک بلوچستان کے وسائل پر بلوچوں کی ملکیت نہیں ہوگی اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ ہم کب تک دوسروں پر الزام لگائیں گے؟ جب تک ہم اپنی ذہنیت سے پنجابیت نہیں نکالیں گے، جب تک پنجاب کو مقدس گائے قرار دینا بند نہیں کریں گے، اسی طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ہم جب تک اندرونی طور پر مستحکم نہیں ہوں گے، تب تک کوئی سکیورٹی پلان کامیاب نہیں ہوسکتا ہے

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply