عام پاکستانی کا بیانیہ

سانحہ کوئٹہ کے تناظر میں اہل علم نے ایک بار پھر بیانیوں کی بحث کے سر تال چھیڑے ہیں. ریاست کے مذہبی یا سیکولر ہونے کے دلائل تازہ کیے ہیں. ایمبولینس اور تابوت پر سوال اٹھانے کی بجائے دہشت گردی کے پیچھے کارفرما فکر کو مخاطب کرنے کی ترغیب دی ہے. "کاؤنٹر ٹیررازم "کی جگہ "کاؤنٹر نیریٹو" کی ضرورت پر زور دیا ہے. یہ سب فرمان بجا, اہلِ علم و فکر اپنا کام کرتے رہیں مگر پاکستانی قوم کا بیانیہ کیا ہے. بزبانِ حال پاکستانی قوم اپنا بیانیہ چیخ چیخ کر بیان کر رہی ہے مگر کوئی سننے والا ہو تو بات بنے.

ایک عام پاکستانی کو ریاست کے مذہبی یا سیکولر ہونے سے زیادہ دلچسپی اس کے فلاحی ہونے سے ہے. ریاست کو سیکولر دیکھنے کے خواہشمند ہوں یا مذہبی دیکھنے کے, اس کو فلاحی بنانے کے مطالبے پہ سب متفق ہیں, آئین بھی یہی بیان کرتا ہے تو پہلے اس متفق علیہ بیانیے پہ عمل کیوں نہ کرلیا جائے. اس بیانیے پہ اگر عمل کر لیا جاتا تو پھر امیر اور غریب کے بچے ایک ہی مدرسے میں ایک جیسا نصاب پڑھ رہے ہوتے. اس بیانے پہ عمل ہوتا تو ریاست اپنی توجہ خارجہ امور سے زیادہ داخلہ امور پہ مرتکز رکھتی. خارجی مسائل کے حل کیلیے قوم کے بیٹوں کی بہترین تربیت کرکے ان کی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرتی بجائے اس کے کہ ان بیٹوں کو پرائی سرزمین کے سنگلاخ پہاڑوں میں مرنے کیلیے بھیجتی. اس بیانیے پہ عمل ہوتا تو بندوق کی جگہ قلم کو فروغ دیا جاتا پھر دیکھتے کہ قوم کے بیٹے اپنے دفاع کو اس قابل بنا دیتے کہ واقعی کسی دشمن کو آنکھ اٹھانے کی جرات نہ ہوتی. اس بیانیے پہ عمل ہوتا تو ملک دولخت نہ ہوتا, سردار اور وڈیرے کسی حکومت کو بلیک میل کرنے کے قابل نہ ہوتے. زندہ لوگوں کی عزت کی جاتی اور تب مرنے والوں کی عزت کیلیے ایمبولینس اور تابوت کا سوال نہ اٹھتا. روٹی, کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر جیتنے والے اگر اپنا وعدہ وفا کرتے تو کسی طالع آزما کو مذہب کی بنیاد پر تحریک چلانے اور اقتدار پر ناجائز قبضے کی جرات ہوتی اور نہ ہی اپنے اقتدار کیلیے مذہبی اداروں کو عسکری اداروں میں بدلنے کی.

ایک عام پاکستانی یہ سوال کرنے کی جسارت کرتا ہے کہ دہشتگردی کے بیانیے کو مدارس کی پیداوار کہا جاتا ہے مگر مدارس, جہاد کا تصور اور مختلف فرقے تو ستر کی دہائی سے پہلے بھی موجود تھے. یہ دراصل مذہب اور اختیارات کا سوئے استعمال تھا جس نے یہ دن دکھائے ہیں. آپ مذہب کے سوئے استعمال کو تو زور شور سے مخاطب کرتے ہیں مگر اختیارات کے سوئے استعمال کی مذمت پہ اکتفا کرتے ہیں. مذہب اور اختیارات کا یہ سوئے استعمال کیا بیانیوں کی جنگ سے رک پائے گا؟.

Advertisements
julia rana solicitors

روٹی,کپڑا اور مکان کے نعرے ہوں یا کشکول توڑ کر پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے دعوے, بے لاگ انصاف کے جھانسے ہوں یا تبدیلی کے نعرے ان سب کے پیچھے مرتے عوام بزبانِ حال یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کو ایک فلاحی ریاست دیکھنے کے خواہشمند ہیں. اے اہلِ دانش کیا سنتے ہو؟.

Facebook Comments

فاروق امام
پسماندہ کہلائے اور رکھے جانے والے علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک عام پاکستانی. ہر پاکستانی کی طرح ویلا مصروف اور نویلا " دانشگرد"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply