’’لُچالے ‘‘ منع ہے۔۔۔جاویدخان

ہماری سائنس کڑی محنت کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دُنیا میں تما م چیزوں کی صرف دو ہی قسمیں ہیں ۔ایک جاندار اور دوسری بے جان ۔جاندار اشیا کو ازخود حرکت کرنے میں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔جبکہ بے جان اشیا خود کوئی عمل کرنے سے قاصر ہیں ۔جاندار جو کھاتے ہیں وہ واپس نکال لیتے ہیں۔اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو کافی گڑ بڑ ہو سکتی ہے۔سانس لینے کے بعد خارج کرنا ضروری ہے بلکہ زندگی کی علامت ہے۔یہ عمل مسلسل جاری ہے تو زندگی جاری و ساری رہتی ہے۔کھانے کے بعد بھی اُس کا معدے میں رہنا سخت غلط ہے۔کھانا چاہے جتنا لذیذ ہومعدے میں کچھ دیر ٹھہر کر فورا ًنکلنے کا آسمانی حکم رکھتا ہے۔اگر وہ رُک جائے اور نہ نکلنے سے صاف انکار کردے ۔جیسے کوئی ضدی بچہ ضد کرتا ہے تو بقول سب طبیبوں کے اس سے خطرناک بات کوئی اور نہیں ہو سکتی ۔جتنا کھانا ضروری ہے اتنا ہی اُس کا نکلنا ضروری ہے۔تمام جاندار ان دونوں عوامل کی اہمیت کو بخوبی جانتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ہم انسانی اعضاء کی فہرست مرتب کریں تو صنائع کار کی صنائعی کا قائل ہونے میں کسی عقل مند کو دیر نہیں لگے گی۔صرف زبانی کلامی نہیں سوچ سمجھ کر قائل ہونا ہی اصل بات ہے۔جو سوچتے سمجھتے ہیں وہی سائنسدان ہو جاتے ہیں۔ضروری نہیں سب یونیورسٹیوں میں جاکر سانئس کی بھاری بھاری کتابیں پڑھی جائیں یا بھاری بھر ڈگریاں اُٹھا کر پھرتے رہیں ۔بَس تھوڑا سا سوچ کا زاویہ بدلناضروری ہے۔مثلاًایک سوچنے والاضرور سوچتا ہے کہ اُس کا ناک کیا کیا کام کرسکتا ہے۔سانس لیتے ہیں پھر خارج کرتے ہیں۔آخر ناک سے پانی نما شے ویسے تو نہیں ٹپکتی یہ ہمارے دماغ میں موجود رہتا ہے۔اگر یہ گند مند کچھ ہمارے دماغ میں رُکا رہے تو کیا بنے گا؟ہمارے جسم پہ جتنے بال ہیں اِن مساموں کے ذریعے پسینہ ہمارے خون کے آلودہ ذرات کو باہر لاتا ہے۔یہ سب نہ ہو تو خوامخواہ کا سر درد، پھوڑے جسم اور چہرے پہ اُگ آتے ہیں۔جو بُری بات ہے۔
سائنس دانوں نے صرف جانداروں میں عمل اخراج تلاش کیا ہے۔مگر یقین جانیے تمام بے جان اشیاء بھی اس عمل کو کرتے ہوئے نہیں شرماتیں۔بلکہ سرعام اس عمل کو نبھاتی ہیں۔موٹرسائیکل تیل کھاتا ہے پھر سائلنسر کے ذریعے دھواں چھوڑتا جاتا ہے۔سائیکل تیل نہیں کھاتی تو دھواں بھی نہیں چھوڑتی ۔کون ہے جو اُس پہ اِلزام ثابت کر سکے جو سچ ہے وہ سچ ہی ہے۔ہوائی جہاز کوئی معمولی شے ہے؟کیا انسان ،کیا سامان سب اٹھا کر آسمانوں میں اُڑتا ہے منوں پیٹرول کھاتا ہے ااور ٹنوں دھواں فضا میں چھوڑ تا ہے۔
ہماری ٹریفک کی ساری گاڑیاں شہروں میں دھواں چھوڑنے کے لیے بہت بد نام ہیں۔تہران،بیجنگ ،دلی ،بمبئی ،فیصل آباد،لاہور اور کراچی صرف انہی مشینوں کے عمل اخراج نے گندے کر ڈالے ہیں۔اس بات کو ان تمام شہروں کے شہری جانتے ہیں اور خُوب جانتے ہیں۔مگرمجال کوئی کسی گاڑی کا سوراخ بند کرسکے ۔نہ گاڑی رہے گی نہ گاڑی والا۔دھواں چھوڑنے میں ہی عافیت ہے بے شک شہر ہے یا گھر ہے، گندہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔اگر یہ اخراجی عمل کوئی بُری بات ہے تو شہروں کی سڑکیں ان گاڑیوں سے بھری ہی جارہی ہیں۔جو سرعام گیس خارج کر کر کے ساری فضاء کو آلودہ کر رہی ہیں۔اس دن دیہاڑے کارروائی سے نہ گاڑیاں کو کوئی پریشانی ہے نہ گاڑیوں والوں کو۔سب مزے سے سب کچھ کرتے ہیں ۔حالانکہ اس سب کارروائی پہ صرف ’’چونگی ‘‘وصول کی جاتی ہے۔مگر کوئی اور کارروائی نہیں کی جاتی۔
گاڑیاں ،جہاز عام لوگوں کے پاس نہیں بڑے (امیر)لوگوں کے پاس ہوتے ہیں ۔جب یہ سارے امیر کبیر اور حسین لوگ اور اُن کے جہاز گاڑیاں اس پہ عمل کرنے سے نہیں رُکتے تو غریب لوگ کیوں رُکیں۔بھارت ایک بھرا پُورا ملک ہے۔ہر نسل و قسم کا انسان اس ہندکی مٹی میں بستا ہے۔ہندوستان اسرار کی دنیا ہے ۔رنگا رنگ تہذیبیں ،لوگ تہہ در تہہ اس میں چھپے ہیں۔بھارتیہ سرکارنے صاف بھارت مہم کا آغاز گزشتہ کسی سال سے کر رکھا ہے۔مہامنتری جی،رکھشامنتری جی سمیت سب منتریوں نے مل کر جھاڑ ومارا ۔اخبار میں اس کے ’’پھوٹو ‘‘بھی چھپے اور ٹی ،وی پہ لوگوں نے اس اچھے کام کو دیکھا اور تھڑ تھڑ تالیاں بجائیں ۔
سرکار پورے بھارت میں ایک کروڑ لیٹڑین کاانتظام کرنا چاہتی ہے۔کیونکہ جنتا کُھلے عام لُچالے (پیشاب ) کر کے گندگی پھیلارہی ہے۔کیا مہامنتری جی اور باقی منترپریوار نے کبھی کُھلے عام ’’لُچالے ‘ ‘ نہیں کیا؟آخر پیداہوتے ہی ہر شے اسی چکر میں پڑ جاتی ہے۔نہ ’’بھوجن ‘‘ بند ہوسکتا ہے نہ ’’لُچالے ‘‘جو جتنا بڑا ’’بھوجن ‘‘کرتا ہے وہ اتنا ہی بڑا ’’لُچالے ‘‘ بھی کرتا ہے۔بڑا آدمی ،بڑا بھوجن اور بڑا لُچالے ۔چھوٹے آدمی کے لیے سب کُچھ چھوٹا۔
چار کھنڈ بھارت کی غریب ریاست ہے۔وہاں خاندان مل جُل کر ’’لُچالے ‘‘ کرلیتے ہیں۔جہاں کا جیسا رواج ہے وہ وہاں کا قانون ہے۔چار کھنڈ میں ایسا ہی ایک خاندان رواج کے مطابق صبح صبح ندی کنارے ’’لُچالے ‘‘ کر کے واپس آرہا تھاکہ چار کھنڈ کے بلدیہ کے لوگ اُن کاپیچھا کرتے ہوئے پہنچ گئے۔بلدیہ اہلکاروں کے پوچھنے پر خاندان نے بتایا وہ ’’لُچالے ‘‘کرنے گیا تھا۔اس پہ خاندان کے سربراہ کی لُنگی اُتار کر اہلکاروں نے ’’پھوٹو‘‘ کھینچی اور اخبار میں چھاپ دی۔پورا چار کھنڈ اس حرکت پہ سیخ پا ہوا۔چار کھنڈکی غریب عوام منتریوں جیسے لیٹرین کیسے بنائے جبکہ پانی کی قلت کی زد میں پوری دنیا ہے۔ نہ غریب عوام ’’لُچالے ‘‘روک سکتی ہے نہ گِسا پِٹا بھوجن ترک کر سکتی ہے۔ساری دنیا کے ڈاکٹر بھی اس کے خلاف ہیں ۔ہاں غریب خاندان کی لنگی اتار کر ’’پھوٹو ‘‘ چھاپنے کا عمل بڑی جمہوریت کا سخت بدبودار ’’لُچالے ‘‘ ہے جسکی بدبو عالمی میڈیا پہ نظر آتی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply