• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نیل احمد کی جنسی شاعری کے حوالے سے چند معروضات۔۔سید عارف مصطفیٰ

نیل احمد کی جنسی شاعری کے حوالے سے چند معروضات۔۔سید عارف مصطفیٰ

میں کثافت کو پھیلانے کا قائل نہیں، نیل احمد کی جس ننگی بوچی شاعری پہ مجھے شدید اعتراض ہے وہ میں یہاں بالضرور شیئر کردیتا تاہم یہ عرض کئے بغیر چارہ نہیں کہ اوج کمال کی ‘خصوصی دریافت’ نیل احمد کی مبینہ گرما گرم آزاد نظم ‘ماسٹربیشن’ کو اگر ایک لمحے کے لئے بھی شاعری باور کرلیا جائے تو اس میں کیا شک ہے کہ پھراردو کے سب سے بڑے ادیب بھی حضرت وہی وہانوی ہی ٹھہریں گے ۔۔ بلاشبہ جنسیت کا سطحی اظہار شاعری ہرگز نہیں کیونکہ جس فن پارے سے وضو شکنی کے وافر و بے تحاشا امکانات پیدا ہوتے ہیں وہ دراصل شاعری نہیں صرف اور صرف واعری ہے اور اک طرح کی ترستی بلکتی التجاء برائے وصل ہے یا اپیل برائے شافی و کافی علاج ہے ۔۔۔ مجھے احساس ہے کہ اس قسم کی گڑگڑاتی اپیلیں رائیگاں نہیں جاتیں اور اپیل کنندہ کو گاہے گاہے اپنے مطلب کے شکار مل ہی جاتے ہوں گے مگر شاید بلکہ یقیناً انکی خرافاتی بھوک کا تقاضا ہل من مزید کا ہوا کرتا ہے اور اسی لئے انکی شاعری اور شکار کا عمل بھی پیہم جاری رہتا ہے اور اس گرما گرم مہم کے لئے تسلسل سے جاری رکھی گئی کارروائیاں انہیں خاص لوگوں میں ہمیشہ مقبول بھی رکھتی ہیں ۔

جہاں تک معاملہ ہے مردانہ کمزوری کا تو 70 برس میں پاکستان کی آبادی سات گنا بڑھ جانے کے بعد تو کم ازکم یہ مان ہی لینا چاہیے کہ یہ کمزوری والا الزام تو ہمارا واحد مان چھین لینے کی سازش سے کم نہیں کیونکہ وطن عزیز میں گندم اور چاول اتنا پیدا نہیں ہوتا جتنے کہ بچے پیدا ہوتے ہیں اور افزائش آبادی کے گراف اور اعداد و شمار کی روشنی میں صاف پتا چلتا ہے کہ ہماری قوم کی اصل قابل فخر توانائی جوہری توانائی نہیں ہے ۔۔۔ پھر بھی کوئی اگر مردانہ کمزوری کو مسئلہ باور کرتا ہے تو اسے قبلہ بڑے حکیم صاحب سے یا انکے شاگردوں سے ملنے سے کس نے روکا ہے کہ عین وقت پہ شرمندگی سے بچالینے کے یہ دعویدار ماہرین تو اس ملک میں تعداد میں مویشیوں سے بھی زیادہ ہیں اور جن کی ہر جگہ موجودگی کے اشتہارات کراچی تا پشاور 1700 کلومیٹر کی طویل ریلوے لائن کے دونوں طرف نظر آتی دیواروں پہ بکثرت نظر آتے ہیں اور ریلوے لائن تو پھر بھی ختم ہوجاتی ہے مگر یہ اشتہارات ختم نہیں ہوتے – ان اشتہارات پہ اگر بھروسہ کیا جاسکے تو یہ بھی یقین کرنا پڑے گا کہ 22 کروڑ کی آبادی میں سے 20 کروڑ افراد تو نارمل طور پہ پیدا نہیں ہوئے بلکہ محض ایجاد ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہت سے حقائق کی روشنی میں یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ نیل احمد کی مانند ، جنسی کمزوری کو موضوع بنانے والے دراصل خود ذہنی کمزوری کا شکار ہوتے ہیں یا پھر ان کے دائمی بھوکے پیاسے اور ترستے بلکتے وجود میں ہمہ وقت ایسے بے پناہ شہوانی جذبات کا دریا ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے کہ جس پہ ایک آدھ میرج ڈیم سے بھی تسکینی قابو نہیں پایا جاسکتا سوائے اس کے کہ مناسب جراحی اور باوزن جوتے کاری کے ذریعے انکے جغرافیے نیت اور ذہنیت میں ناگزیر تبدیلیاں عمل میں لے آئی جائیں تاکہ ادب کو بے ادبی سے بچالیا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply