کچھ عام، کچھ خاص ۔ صحرا کی یاد (35)

فرض کیجئے کہ آپ بچپن سے بہت سے پرندے دیکھتے رہے ہیں اور دماغ نے یہ عمومی اصول بنا لیا ہے کہ ایسے جاندار جن کے پر ہوں، وہ اڑ سکتے ہیں۔ لیکن آپ نے چڑیاگھر میں شترمرغ دیکھے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہوا کہ اس استثنا نے ذہن میں بنے پہلے اصول کو ختم کر دیا ہو۔ پھر آپ کو یہ پتا لگا کہ چڑیا گھر میں فلاں شترمرغ کا نام ڈورا رکھا ہوا ہے۔ آپ کو یہ علم ہے کہ یہ والی خاصیت صرف اس شترمرغ کے لئے ہے۔
کچھ سال پہلے، مصنوعی ذہین نیٹورک بنانے والے اس مسئلے میں پھنسنا شروع ہو گئے کہ عمومی اور خاص مثالوں میں تفریق کیسے کی جائے۔ ایسا نیٹورک بنایا جا سکتا تھا جو جنرلائزیشن کو سیکھ سکے (پروں والی چیزیں اڑتی ہیں) یا ایسا نیٹورک جو خاص مثالوں کی کلکشن کا نیٹورک بنا سکے (ڈورا نام کا پرندہ نہیں اڑتا لیکن پال نام کا پرندہ اڑتا ہے) لیکن دونوں کو اکٹھے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یا تو نیٹورک اپنے پیرامیٹر کو ہزاروں مثالوں کے مطابق آہستہ آہستہ ایڈجسٹ کرتا تھا یا کسی ایک مثال کو دیکھ کر تیزی سے۔
دماغ ان دونوں ٹائم سکیل پر بیک وقت کام کیسے کر لیتا ہے؟ آپ کو دنیا کے بارے میں مختلف اقسام کے فیکٹ کو ترتیب دینے کے لئے الگ ترکیبیں ہیں۔ کئی بار جنرلائز کرنا ہو گا (لیموں پیلے ہوتے ہیں)۔ کئی بار کسی خاص کے بارے میں بات کرنی ہو گی (فریج کی دراز میں پڑا لیموں خراب ہو گیا ہے)۔

گمنام گاؤں کا آخری مزار۔۔داؤد ظفر ندیم
ان کی آپس میں عدم مطابقت ایک اہم سراغ دیتی ہے۔ دونوں کے لئے دماغ میں سیکھنے کے الگ رفتار پر الگ نظام ہیں۔ ایک ماحول سے عمومی چیزیں اخذ کرنے کا (یہ آہستہ لرننگ ہے)۔ ایک واقعے کے بارے میں یادداشت کا (یہ تیز لرننگ ہے)۔ ایک خیال ہے کہ یہ دو سسٹم ہپوکیمپیس اور کورٹیکس ہیں۔ ہپوکیپس تیزرفتار تبدیل ہوتا ہے (مثال سے سیکھنا)۔ کورٹیکس سست رفتاری سے انفارمیشن کو جنرلائز کرتا ہے۔ پہلے کو ایک بات کی خاص چیزیں یاد رکھنا ہے جبکہ دوسرے کو کئی مثالوں کی ضرورت پڑے گی۔ ان دو نظاموں کے حربے کی وجہ سے دماغ بیک وقت دو الگ طریقے سے سیکھ سکتا ہے۔ انفرادی واقعات سے بھی (یہ بٹن دبایا جائے تو مشین آن ہو جاتی ہے) اور شماریات سے بھی (زیادہ تر پھول بہار میں کِھلتے ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ میں سے جب بھی کوئی ایکٹیویٹی گزرتی ہے تو اس کا سٹرکچر بدلتی ہے۔ کھوپڑی میں نیورون کے وسیع و عریض جنگل کے نکتہ نظر سے تنظیم کا مسئلہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اعصابی نظام کو فزیکل تبدیلی کی ضرورت ہے تا کہ وہ اس دنیا کی عکاسی کر سکے، جس کا وہ خود ایک حصہ ہے۔ انفرادی تبدیلیوں سے نئے علم کو اپنے نیٹورک میں مجسم کرنا ہے۔ اور اس تبدیلی کو واپس بوقتِ ضرورت، رویے میں ڈھلنا ہے۔
یادداشت کے بارے میں سادہ وضاحت کی کلاسیکل کہانی نیورون کے جوڑ (سائناپس) کے مضبوط اور کمزور ہونے کی ہے۔ اس نے ہمیں بہت فائدہ دیا ہے اور ان اصولوں کی بنیاد پر بنائے گئے مصنوعی ذہانت کے نیٹورک کمال کے انجینرنگ کارنامے سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن یاداشت کنکشن کی ڈایاگرام کو بنانے سے زیادہ بڑھ کر ہے۔ روایتی ماڈل نئے ڈیٹا کی آمد پر پرانے ڈیٹا کی حفاظت کے وضاحت نہیں کر پاتا۔ پرانی یادوں کا زیادہ دیرپا ہونا تبدیلی کے بارے میں پائے جانے والے مختلف ٹائم سکیل سے آگاہ کرتا ہے۔
سائناپس کا ماڈل مصنوعی ذہانت کے انجینر اور نیوروسائنسٹ کے لئے سہل تو ہو گا لیکن یہ یقینی طور پر نیچر کا طریقہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے یادداشت کی تبدیلیاں اس نیورون، سائنیپس، مالیکیولز اور جینز کے دیوہیکل عفریت میں بکھری پڑی ہیں۔
ورلڈ میموری چیمپئن – پاکستان۔۔عارف انیس

Advertisements
julia rana solicitors

صحرا چلتی ہوا کو کیسے یاد رکھتا ہے؟ اپنے ٹیلوں کی ڈھلوان سے۔ پتھروں کے کٹاوٗ سے بننے والی ان کی شکلوں سے، پائے جانے والے کیڑوں کے پروں کی شکلوں سے جن کے پیچھے ارتقائی پریشر تھا، درخت کے پتوں سے۔ چلنے والے جھونکے ہوں یا طوفان یا پھر مسلسل جاری موسم کے نشیب و فراز۔ صحرا یہ سب یادداشت اپنے مختلف سٹرکچرز میں رکھتا ہے۔ یہ سٹرکچر مختلف ٹائم سکیل پر بنے ہیں۔ ہماری یادداشت کا طریقہ اس صحرا کی طرح کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میموری کو سمجھنے کے شعبے میں ترقی کے لئے شاید پہلا قدم مصنوعی نیورل نیٹورک سے الگ کر کے یہ دیکھنا ہو گا کہ نیچر میں میموری کا مطلب کیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے کارنامے اور اس کی سپرہیومن صلاحیت اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن یہ انسانی میموری کی بنیادی خاصیتوں کا احاطہ نہیں کرتے۔ کیونکہ ہماری یادداشت وقت کے سکیلز پر بکھرے بائیولوجیکل کاسکیڈ میں ہے۔ نئی انفارمیشن جو پرانی انفارمیشن کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔ پچھلے تجربات کی بندشیں اگلے تجربات کی سیڑھی بنتی ہیں۔
نئی چیزیں سیکھنا پرانی چیزوں کو خراب نہیں کرتا۔ یادداشت سسٹم کی خوش کن بات یہ ہے اس کا یکساں والیوم کا ماڈل غلط ہے۔
ہم جتنی نئی چیزیں سیکھتے ہیں، اتنی ہی زیادہ مزید نئی چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments