• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عشق رسول ﷺ کے نام پر سیاسی کھیل کب تک ؟ ۔۔۔ چوہدری نعیم احمد باجوہ

عشق رسول ﷺ کے نام پر سیاسی کھیل کب تک ؟ ۔۔۔ چوہدری نعیم احمد باجوہ

فریق مخالف بضد تھا کہ اپنی مرضی کی شرائط لکھوائے گا کہ اس ضد میں بزعوم خود اپنی کامیابی کی ماہوم امید لگائے بیٹھا تھا۔ فریق اول بھی شرائط نرم کرتا گیا کہ مقصد ہرصورت محاذ آرائی سے بچنا تھا۔یقین کامل تھا کہ فتح ونصرت کی خوشخبریوں کے سوتے اسی کے اندر سے پھوٹیں گے۔ پھروہی ہوا کہ شرائط نرم کروا کے بظاہر خوشی منانے والے صفحہ ہستی سے نابود ہوگئے اور کٹھن راہ کا انتخاب کرنے والے اپنی صلح جوئی ، حسن سلوک ، نرمی اور یقین کامل کے ساتھ ترقیات کی منازل طے کرتے مسند پر جا بیٹھے۔
یہ واقعہ ہے صلح حدیبیہ کا۔ مکہ سے صرف بارہ میل کے فاصلے پر مسلمانوں کا وفد روک دیا گیا تھا کہ وہ طواف کعبہ کے لئے مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بات ایک تحریری معاہدے کی طرف بڑھنے لگتی ہے ۔ اہل مکہ کا نمائندہ سہیل بن عمرو ہے۔ ہمیشہ نرمی،ملاطفت اور سہولت کا پہلو اختیار کرنے والے سیدنا و مولانا ﷺ ایک کافر کے نام سے بھی نیک فال لے لیتے ہیں ۔ فرمایا ’’ سہیل آرہا ہے خدا نے چاہا تو معاملہ سہل ہو جائے گا۔
معاہدہ لکھا جانا شروع ہوا۔ کاتب رسول حضرت علیؓ ہیں۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھوایا۔ کفار کا سفیر اڑ گیا کہ ’’رحمٰن‘‘ کو تو ہم جانتے نہیں ا س لئے ’’ باسمک اللھم ‘‘ لکھا جائے۔ آپ نے اپنے سیکرٹری کو ویسا ہی لکھنے کا ارشاد فرما دیا۔
آپ ﷺ نے دوسری شرط لکھوانی شروع کی۔ فرمایا لکھو ’’یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ نے کیا ہے ‘‘۔ نمائندہ اہل مکہ پھر بول پڑا ۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مان لیں توپھر ہمارا جھگڑا کیا ہے ؟ ہمیں آپ کو روکنے کا حق کیا ہے۔ یہ سفارت کاری یہ معاہدے کس لئے ؟ لکھا جائے گا کہ’’ یہ معاہدہ محمد بن عبداللہ نے کیا ہے‘‘.
بات اب جذبات کو چھونے والی تھی۔ حضرت علی ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ تحریر کر چکے تھے۔ رحمتہ اللعالمین ﷺ نے فرمایا ’’ علی ! محمد رسول اللہ کے الفاظ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھ دو‘‘۔حضرت علیؓ اس وقت جذبات کی کیفیت میں تھے اور ایسا کرنا انہیں مشکل دکھائی دیتا تھا ۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا ’’مجھے دکھاؤ کہاں لکھا ہےاور پھر خود ہی ’’رسول اللہ‘‘ کے الفاظ پر قلم پھیر دیا۔ اور اس جگہ محمد بن عبدللہ لکھوایا گیا۔
ایک طرف یہ اسوہ رسول ہے کہ جھگڑے اور فساد سے بچنے کی خاطر کفار کی ہر شرط مان کر کہ آپ ﷺ معاہدہ کرنے پر راضی ہوئے اور دوسرے طرف آج کے عاشقان رسول ہیں جو ہر لمحہ مذہب کے نام پر دوسروں کی زندگی اجیرن کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ۔
22جون 2020 کوپاکستان قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پاس ہوئی ہے کہ ’’ درسی کتب میں اور سرکاری سکولوں میں ہر جگہ حضرت محمد ﷺ کے نام کے ساتھ لفظ خاتم النبین لکھا جائے گا ۔ ‘‘
بلا شبہ حضرت محمد ﷺ خاتم النبین ہیں ۔وہ محمد اور احمد ہیں ۔ وہ وجہ تخلیق کائنات ، وہ سید ولد آدم اور رحمتہ اللعالمین بھی ہیں ۔ پر ان عظیم الشان خطابات کے دفاع کے لئے خدا کافی و شافی ہے۔ حفاظت کا ذمہ خدا نے لے رکھا ہے۔اس کے لئے کسی نام نہاد عاشق رسول کی موشگافیوں کی ضرورت کب تھی ؟ کسی اسمبلی کا یہ کام ہے نہ وہ کر سکتی ہے۔ اپنی نااہلیوں پر پردہ ڈالنے ، عوام کے مسائل سے کنارہ کشی کرنےاور مصیبت زدوں سے نظریں چراکر مذہب کو آلہ کار بنانے کا کام مملکت خداداد میں پھر زوروں پر ہے۔
سکول کا نصاب صرف مسلمان نہیں پڑھتے غیر مسلم بھی اسے پڑھنے پر پابند ہیں۔مسلمہ عقائد اور نظریات پربحث و مباحثے اور قراردادیں صرف عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے ایک بے وقت کی راگنی کے سوا کچھ نہیں۔ اس قرارداد نے عاشقان رسول پیدا کرنے ہیں نہ اس سے اسوہ رسولﷺ پر عمل پیرا ہونا بڑھ جائے گا۔کیا بھول چکے کہ لفظ’’ خاتم النبین ‘‘ کا سب سے غلط تلفظ آپ کے دورے حکومت میں ہی ادا ہوا ہے ۔ جس خطاب کے ساتھ اتنا عشق دکھا رہے ہیں اسے حسن تلفظ کے ساتھ ادا کرنے سے بھی قاصر کیوں تھے۔
اگر اسمبلی کا کام عوامی مسائل چھوڑ کر یہی رہ گیا ہے تو پھر لگے ہاتھ ’’ ہر جگہ ’’عیسی روح اللہ ‘‘لکھنے کی قرارداد بھی پاس کر دیجئےکہ مسلمان اور عیسائی دونوں کے نزدیک مسلمہ ہے۔ حضرت ابراہیم کے ساتھ’’ اسوہ حسنہ ‘‘کے الفاظ مستقل جوڑ دیجئے کہ از روئے قرآن وہ اور ان کے ساتھی ہمارے لئے اسوہ کامل ٹھرائے گئے ہیں۔(سورہ الممتحنۃ)
جو کام خدا اور اس کے رسول کا ہے اسے خدا اور اس کے رسول پر چھوڑ دیجئے۔ جہاں تک خدا نے اسے رکھا ہے آپ بھی ویسا ہی رہنے دیں۔ ا س سے آگے قدم رکھنے کو ڈرامے بازی تو کہا جا سکتا ہے عشق رسول بہرحال نہیں۔معمولی سی بات ہے :
ماں سے زیادہ چاہئے پھپھے کٹنی کہلائے۔
اس قرارداد کے ذریعہ ڈیلیور نہ کر سکنے کی نااہلی چھپانے کی ناکام کوشش کرنے والے کیوں بھولتے ہیں کہ مظلوموں مجبوروں اور غربت کے ماروں کی نمائندگی کے لئے آپ اسمبلی میں بھیجے گئے ہیں۔ ان کی دادرسی کا سوچئے۔ جو ڈر آپ کے اندر بیٹھ چکا ہے اسے اس طرح کے ہتھکنڈوں سے دور کرنے والے پہلے بھی کئی مھان سمجھے جانے والے گزر چکے ہیں۔ وہ کرسی بچانے میں کامیاب ہو سکے نہ آپ ہو سکیں گے۔
جہاں تک سید ولد آدم کی ذات بابرکات کا تعلق ہے تو اسے ایسی کسی قراردوں کی ضرورت تھی نہ ہوگی۔ کہ:
اگر خواہی دلیلے عاشقش باش
محمد ہست برہان محمد
اگر محمد ﷺ کی سچائی کی دلیل کی تلاش میں ہو توسچے عاشق بن جاؤ محمد ﷺ اپنی حقانیت کی دلیل خود ہی ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply