خواتین اور ایٹ ایبلز۔۔۔ طیب جنید

پچھلے سال نیو ایجوکیٹرز کی ٹریننگ چل رہی تھی۔ فیمیل ٹیچرز کہ جن کی بوائز سکولوں میں اپوائنٹمنٹ ہوئی تھی ان کی کلاس علیحدہ تھی لیکن سینٹر ایک ہی تھا، اب ایک ورکشاپ تھی ایکٹیوٹی بیسڈ لرننگ کے حوالے سے چونکہ سکولوں میں بھی بچے اور بچیاں اکٹھے پڑھتے ہیں تو ٹرینر نے کہا کہ سکولوں میں سٹاف دونوں جینڈرز ہیں، اور سٹوڈنٹس بھی تو دو دن کے لیے آپ میلز اور فیمیلز کی کلاس اکٹھے ہوگی۔ جس سے ہیزیٹیشن بھی کم ہو گی (بعد میں پریشان نہ ہونا پڑے) اور آپ سیکھیں گے کہ کس طرح بچوں او بچیوں کو اکٹھے پڑھانا ہے۔

اب ایک صاحب (مولانا۔ سرخ ڈبیوں والا رومال سر پہ اوڑھے) ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد سے بائیو سائنسز میں ایم ایس، نے اعتراض اٹھا دیا کہ “یہ کام غیر شرعی ہے اور بے حیائی کا سبب ہے” (کونسا کام بھئی) ان سے پوچھا کہ یونیورسٹی میں آپ کی فیمیل کلاس فیلوز میں تو رہی ہوں گی تب آپ کلاس پڑھتے رہے ہیں اُس بارے آپ کیا کہتے ہیں تو صاحب نے فرمایا کہ “وہ تو انتہائی مجبوری کی حالت تھی”. صاحب نے دوسری توضیح ان تاریخی کلمات میں فرمائی “دیکھیں کھانے والی چیز جب آپ کے سامنے پڑی ہو (ڈھانپ کر یا ڈھانپے بغیر) تو آپ کا دل للچائے گا کھانے کو، اور آپ خود کو روک نہیں سکیں گے، اس لئے کھانے والی چیز کو سامنے موجود نہیں ہونا چاہیے۔”

غصے کی بات تھی تو میں نے جناب کو کہا کہ: “مولوی صاحب تُسی گھر جاندے او اپنے، تواڈے گھر کوئی ماں، کوئی بہن، کوئی بھرجائی، یا کوئی رشتے دار بی بی آ جاندی ہونی  تواڈے ساہمنے تے کیہ  گل تُسی پج پج کھان نوں جاندے او اُنہاں نوں، تواڈی نظر چے تے او انسان نئیں مختلف “ڈِیشز” ہونیاں نیں کھان والیاں۔ تُسی کس طرح کنٹرول کردے او گھر چے؟” “دوجا ہن تسی سکول چے جانا اے ٹریننگ توں بعد تے فیمیل سٹاف ہونا  اوتھے، کیہ  گل تُسی کھان نوں نٹھو گے اُنہاں نوں؟ انسان نوں انسان تے سمجھو! میل / فیمیل تے بعد چے آندے نیں۔ پتہ نئیں ساڈیاں یونیورسٹیاں کیہ  سکھا رہیئاں نیں آج کل۔”

میرا اتنا بھونکنا سن کر صاحب کو بہت تپ چڑھی۔ لیکن دوستوں نے بات سنبھال لی، اور ہاتھا پائی سے بچت ہو گئی۔ ہم لوگ برے لوگ ہیں، نہ ہمارے ماتھے پر نشان ہے، نہ ہماری شلوار گھٹنوں سے اوپر ہے، ہم کافروں والا لباس بھی پہنتے ہیں، لیکن صاحب یہ پڑھے لکھے لوگ، لمبی داڑھی، سر پر رومال، گھٹنوں سے اونچی شلوار: وہ کیا کر رہے ہیں، کیا سوچ رہے ہیں۔؟ کئی دوستوں سے اس واقعہ  پر بات ہوئی۔ ایک انتہائی محترم دوست نے کہا کہ طیب بھائی آپ کی بات سہی ہے لیکن یار: “ابھی آپ کا فیمیلز سے زیادہ واسطہ نہیں پڑا، ہمارے ہاں تو عموماً فیمیلز خود ہی اپنے آپ کو “Eatables” / کھانے والی چیز سمجھتی ہیں، سارا قصور ان میل حضرات کا نہیں ہے بلکہ کچھ فیملیز خود ہی چاہتی ہیں کہ اِن کو Eatable سمجھا جائے اور ویسا ہی برتاؤ کیا جائے۔ آپ یہ بات وقت کے ساتھ سمجھو گے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ واقعہ  آٹھ نو ماہ پرانا ہے، اور میں تب سے ہی کچھ فیمیل کے بی ہیوئیر کو ابزرو کرتا آ رہا ہوں، اور نتیجہ یہی نکلا ہے کہ اچھی بھلی خاندانی فیمیلز بھی خود کو Eatable سمجھتی ہیں اور ہینڈلنگ کی توقع بھی یہی رکھتی ہیں۔ تربیت کی ضرورت ہے، گھر سے، تعلیمی اداروں سے کہ لوگ  میل / فیمیل، مسلم / ناں مسلم اور ذات برادری / فِرقوں کے ڈفرینس سے پہلے خود کو انسان سمجھنا سیکھ سکیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply