دو نومبر کا دھرنا،عدلیہ حکومت اور پی ٹی آئی!

طاہر یاسین طاہر کے قلم سے

پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے پانام ایشوز کے اوپر دو نومبر کو اسلام آباد ’’بند‘‘ کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی تیاریاں بھی عروج پہ ہیں جبکہ حکومت اس احتجاج سے نمٹنے کے لیے اپوزیشن کی جماعت پیپلز پارٹی اور دیگر اپنی اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملانے میں مصروف عمل بھی ہے،میڈیا پہ بھی پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے کے لیے ترجمان موجود ہیں جبکہ عدالتی احکامات کے لیے کام جاری ہے ۔جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران شہر بند کرنے سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر کرنے نہیں دیے جائیں گے۔دوسری جانب تحریک انصاف نے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ عمران خان نے دو نومبر کو حکومت کے خلاف احتجاجی مہم کے سلسلے میں اسلام آباد میں دھرنا دینے اور شہر بند کر دینے کا اعلان کیا ہے۔اس معاملے پر دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے سیکریٹری داخلہ سے کہا گیا کہ ضلعی انتظامیہ اس بات کو یقینی بنائے کہ عمران خان کو جلسے کے لیے کوئی ایک مخصوص مقام فراہم کیا جائے اور انھیں وہاں تک محدود رکھا جائے۔اس کے علاوہ سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ شہر میں کسی بھی مقام پر کنٹینرز نہ لگائے جائیں۔

عدالت نے مزید کہا ہے کہ احتجاج کرنا سب کا حق ہے لیکن اس کے لیے شہر کو بند نہیں کیا جا سکتا اور دو نومبر کو شہر میں کوئی سکول اور کالج بند نہیں کیا جائے گا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ عمران خان کے جلسے کے لیے پریڈ ایوینیو میں انتظامات کریں اور انھیں وہیں تک ’’محدود ‘‘رکھنے کو یقینی بنایا جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے عمران خان کو 31 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے بھی کہا ہے۔دھرنا روکنے کی درخواستوں کی سماعت کے دوران جج شوکت عزیز صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے شہر کو بند کرنے کی تقاریر ان کی موجودگی میں ہی سنی جائیں گی اور اس پر ان سے وضاحت طلب کی جائے گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان حکومتی مشینری کو جام کرنا چاہتے ہیں۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت میں مزید کہا کہ یہ سب جان لیں کہ امپائر یا تھرڈ امپائر کوئی نہیں صرف عدالت ہے۔خیال رہے کہ عمران خان نے حال ہی میں کہا تھا کہ ان کے احتجاج کے نتیجے میں کوئی تیسری قوت آتی ہے تو اس کے ذمہ دار بھی نواز شریف ہی ہوں گے۔ دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ دو نومبر کو جس احتجاج کی کال انھوں نے دی ہے وہ ان کا آئینی حق ہے جس سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔
اسلام آباد میں جمعرات کو اپنی جماعت کے رہنماؤں کے اہم اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ احتجاج روکنے کی حکومتی کوششوں کی وجہ سے معاملہ انتشار کی جانب جائے گا اورجو مرضی ہو جائے ہم نکلیں گے۔عمران خان نے کہا کہ وہ ایک بار پھر پوری قوم کو دو نومبر کے فیصلہ کن اجتماع میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان میں انصاف کے اداروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سے جمہوری پرامن احتجاج کا حق چھینا جا رہا ہے۔یہ میرا اور میری قوم کا آئینی حق ہے۔ کوئی بھی ہمیں اس سے نہیں روک سکتا۔

اس موقع پر تحریکِ انصاف کے رہنما اور معروف وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ یہ فیصلہ نہیں ایک حکم ہے۔ یہ حکم ہمیں سنے بغیر جاری کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کیا ہائی کورٹ کے پاس اس حکم کو جاری کرنے کا اختیار ہے۔؟ کیا ہائی کورٹ رٹ پٹیشن میں انفرادی طور پر کسی شخص کو بلا سکتی ہے؟نعیم بخاری نے یہ بھی کہا کہ ہماری نظر میں یہ حکم اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کر جاری کیا گیا ہے۔انھوں نے میڈیا کوبتایا کہ اس بات پر غور ہو رہا ہے کہ آیا اس فیصلے کو انٹرا کورٹ اپیل میں چیلنج کیا جائے یا پھر سپریم کورٹ جایا جائے۔اس موقع پر معروف قانون دان بابر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام عدالتوں پر محکم ہے اور آئین کے آرٹیکل 10کے تحت کسی فریق کو سنے بغیر کوئی فیصلہ یا حکم نہیں دیا جا سکتا۔

یہ امر واقعی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اس پر آئینی ماہرین اپنی آرا کا اظہار کریں گے۔ہمیں یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی وکلا اس فیصلے کے خلاف دلائل دیں گے جبکہ نون لیگ کے حامی وکلا اس فیصلے کے حق میں دلائل تراشیں گے۔بے شک اس پہ بحث ہو گی اور مناسب یہی ہے کہ آئینی اور قانونی موشگافیوں پر آئینی و قانونی ماہرین ہی اپنی آرا کا اظہار کریں۔دو نومبر کے جلسے کا ایک پہلو اور بھی ہے جس سے عام آدمی کی زندگی جڑی ہوئی ہے۔ اگرپی ٹی آئی کے دھرنے کی وجہ سےاسلام آباد بند ہوتا ہے،یا حکومت کی جانب سے کنٹینرز لگا کر راستے بند کیے جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف اسلام آباد کے رہائشیوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ داراحکومت میں نطام زندگی سمٹ کر رہ جائے گا۔اگر عدالتی حکم نامے پر حکومت عمل در آمد کروانے کا تہیہ کر لیتی ہے اور پی ٹی آئی کو پریڈ ایوینیو تک محدود کرنےکے لیے اقدامات اٹھاتی ہے تو بھی ہنگامہ آرائی اور تشدد کا خطرہ موجود ہے۔البتہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے ہر حال میں دھرنا کرنے کا اعلان کر کے اگر مگر کی گنجائش ختم ہی کر دی ہے۔اب پی ٹی آئی دھرنے کے لیے نکلے گی اور حکومت پکڑ دھکڑ کرے گی۔ظاہراً یہ معاملہ کشیدگی کی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ممکن ہے پی ٹی آئی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناعی لے لے یا کوئی اور قانونی پیش رفت اپنائے۔لیکن جو بات واضح ہو چکی ہے وہ یہی کہ فیصلے کے باوجود پی ٹی آئی اپنے ’’احتجاجی فہم‘‘ کے مطابق ہی احتجاج کرے گی اور راستے کی ہر رکاوٹ کو عبور بھی کرے گی،جبکہ حکومت’’ آئین اور قانون ‘‘ مطابق نمٹنے کے لیے پہلے ہی چاروں صوبوں سے پولیس منگوا رہی ہے۔دو نومبر سے قبل اگر حکومت پی ٹی آئی کی اے، بی اور سی کیٹیگری کی لیڈر شپ کو گرفتار کرتی ہے تو پی ٹی آئی کے ووٹرز مزید مشتعل ہو جائیں گے ۔حکومت کے لیے ایک پریشان کن صورتحال بہر حال پیدا ہو چکی ہے ۔معاملے کی سنگینی کوسمجھنا اور اسے عدالتی کے بجائے سیاسی انداز میں حل کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply