سچ سے جڑا رہنا کیوں ضروری ہوتا ہے ؟

سچ دبا رہتا ہے ، چھپا رہتا ہے، جب تک کہ جھوٹ کےحفاظتی پہرے ہٹا نہ دیے جائیں، اور جب تک اسے کھوج کر سامنے نہ لایا جائے۔
میرے ملک کی سیاست میں بہترین جمہوریت، بد عنوانی، اور دھاندلی سے پاک، شفاف سیاسی رویوں کے سچ پربدعنوانی کے رو سیاہ جھوٹ کا پہرہ جب تک بیٹھا رہے گا، لوگ آج کی لولی لنگڑی کرپشن زدہ سیاست کو ہی معیار اور سچ سمجھتے رہیں گے اور ہمارے مفاد کے پجاری مبینہ سیاسی رہنما ہمیں یہی پڑھاتےاور بتاتے رہیں گے کہ 'بد ترین جمہوریت بھی بہترین ڈکٹیٹر شپ سے اچھی ہوتی ھے'۔ کیوں کہ یہ سچ ان کے مفادات کے عین موافق ہے۔
المیہ یہ نہیں کہ ہماری معاشرت کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے، بلکہ یہ ہے کہ احساس زیاں نہیں رہا اور کسی بھی مستقل پیمانے کی عدم دستیابی میں ہم اپنے سیاسی اور سماجی رویوں/ اقدامات کو پرکھ ہی نہیں پا رہے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق۔- کبھی مذہب تو کبھی مغرب کی آنکھ سے ہم اپنا اردگرد دیکھتے ہیں۔ مذہب کی آفاقی اور جمہوریت کی سیاسی و سماجی قدریں دونوں ہی ہمارے مسائل کے حل سے قاصر نظر آتی ہیں، کیونکہ ہم کلیتاً کسی بھی ضابطے کو خود پہ نافذ نہیں کرتے، لہذا مسلۂ ضابطوں کے بانجھ پن کا نہیں، مسلۂ ہماری معاشرت کے کسی بھی مربوط مسلمہ اصول سے جڑنے رہنے سے بیزاری ہے۔
موجودہ مسائل کا حل ایک ضابطے، ایک اصول، یا دوسرے لفظوں میں ایک 'سچ' سے جڑے رہنے میں ہی پوشیدہ ہے، کیونکہ معاشرے کے فرد کے پاس اس سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ہوتا جس کو وہ بیرونی خطرات کے مقابل مقدم بھی رکھتا ہے اور اسی کو میعار مانتے ہوے وہ اپنی سیاسی قیادت کا احتساب بھی کرتا ہے۔ انہی خطوط پے چلتے ہوے پاکستانی قوم سیاستدانوں کی بیان بازی " احتساب کا بہترین اظہارعوامی ووٹ ہوا کرتا ہے" کی عملی شکل سامنے لا سکتی ہے۔ کسی 'سچ' کی غیر موجودگی میں یہ راگنی ہی رہے گی کیونکہ سچ کی عینک پہنے بغیر آپ سیاہ و سفید میں تمیز کر ہی نہیں سکتے۔ اسی لئے اکیسویں صدی میں آزاد میڈیا اور معلومات تک آزادانہ رسائی کے باوجود نہ کرپشن کا طوفان تھمنے کو ہے، نہ ہی اقربا پروری اوراختیارات کا ناجائز استعمال، کیوں کہ عوام کے سامنے ایک مدلل اصول یا 'سچ' کی کوئی شکل ہی نہیں ہے جس کو ذہن میں رکھتے ہوے وہ اچھے برے میں تمیز کر سکیں۔ ایسی صورتحال میں منفی سیاست ہی اصول ٹھہرتی ہے اور مثبت سیاست کا سچ منفی سیاست کے جھوٹ کی منوں مٹی تلے دبتا چلا جاتا ہے۔ نتیجتاً معاشرتی جمود اور سیاست چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ جاتی ہے۔ تبدیلی خواب بن جاتی ہے جس کا اظہار آخر کار متشدد رویوں سے ہوتا ہے۔
ہمارے برے مخمصوں میں سب سے بڑا مخمصہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں کہ آیا وہ ہم خود ہیں یا وہ بیرونی ہے۔ جب ہی تو ریاستی بیانئے کی بحث سعی لا حاصل بنی ہوئی ہے۔ پبلک ڈسکورس کا تعین سیاسی قیادت کرتی ہے لیکن ہمارے ہاں ابھی سٹارٹنگ پوائنٹ ہی مکالمے سے غائب ہے کہ کس 'سچ' (آیڈیا لوجی) کی بنیاد پر ریاست کو آگے بڑھانا ہے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے طے کر لیا جائے کہ مروجہ سچ کیا ہے، اس نے ہمیں ثمرات دیے یا نقصانات، آیا اسی کو چھان پھٹک کر جھاڑ پونچھ کر تراش خراش کر کے آگے لے کر جانا ہے یا …؟ واشگاف الفاظ میں، کہ آیا ہم نے جمہوری سچ کے ساتھ چلنا ہے یا مذہبی سچ کے ساتھ (یہاں یہ موضوع زیر بحث نہیں کہ کونسا سچ مطلق ہے اور کونسا محدود)؟
معاشرت یا ریاست ایک ایستادہ شجر کی مانند ہوا کرتی ہے، جس کی جڑیں اس کی آئیڈیا لوجی (سچ)، سیاست اس کا تنا، اور سماجی کلچر اسکی شاخیں ہوا کرتی ہیں۔ جڑیں ریاست کو 'سچ' کی بدولت اخلاقی ( جو مذہبی بھی ہو سکتی ہیں اور سیاسی/سماجی بھی) اساس کی اکسیجن فراہم کرتی ہیں، تنا اپنے قوی وجود سے اسی 'سچ' کا اظہار ہوتا ہے، اور شاخیں اسی 'سچ' کی طرف باہر کی دنیاکو مائل کرتی ہیں۔ آج کے مغرب کا سیاسی نظام اپنے جمہوری 'سچ' کی بدولت ہماری آنکھیں خیرہ رہا ہے تو صرف اور صرف اس سچ سے جڑے دو احساسات 'احتساب' اور 'ذمےداری' کی وجہ سے، اپنے جمہوری سچ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔ ریاست کے درخت کو 'سچ' کی خوراک ہی کھڑا رکھ سکتی ہے، یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو قوموں کو دائیں اور بائیں کی افقی بحث سے بالاتر ہو کر زوال و معراج کی عمودی سوچ تک لا کھڑا کرتا ہے۔
آئیے سچ تلاش کریں، اپنی معاشرت کو خوبصورت بنائیں، سیاہ و سفید میں فرق کرتے ہوے قومی سیاست اور فیصلہ سازوں کو احتساب کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں، اور وطن عزیزکو خوشحال بنائیں جہاں زندگی زندگی جئے۔

Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply