نسخ فی القرآن

نسخ فی القرآن
طفیل ہاشمی

Advertisements
julia rana solicitors

نسخ کے مفہوم میں متقدمین اور متاخرین میں اختلاف ہے۔ قرآن حکیم کے کسی عام حکم کی تخصیص مطلق کی تقیید یا کسی حکم میں استثنا آ جاتا تو متقدمین اس کے لیے نسخ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ شاہ ولی اللہ کے بقول صحابہ کرام اور تابعین کے کلام کے استقرا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات نسخ کا لفظ اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتے تھے نہ کہ علماء اصول کی اصطلاح کے مطابق۔ یہی وجہ ہے کہ کسی آیت کے بعض اوصاف کی تبدیلی ان کے نزدیک نسخ کہلاتی تھی، خواہ یہ تبدیلی مدت عملی کے تعیین سے متعلق ہو، یا متبادر معنی سے غیر متبادر معنی کی طرف انتقال، یا عام کی تخصیص ،یا کسی قید کے بارے میں یہ بتانا کہ وہ محض اتفاقی تھی، یا منصوص اور مقیس علیہ میں امر فارق کا بیان، یا کسی جاہلی رسم یا سابقہ شریعت کے حکم کا ازالہ، یہ تمام امور ان کے نزدیک نسخ کہلاتے تھے۔ متقدمین کے نزدیک نسخ کا مفہوم بہت عام تھا، اسی لیے قدیم اسلامی ادبیات میں منسوخ آیات کی تعداد سینکڑوں تک بتائی گئی ہے، حتی کہ یہ کہا گیا ہے کہ قرآن حکیم میں پانچ سو کے قریب آیات منسوخ ہیں۔ نیز یہ کہ سورہ توبہ کی آیت سیف نے قرآن حکیم کی ایک سو تیرہ آیات منسوخ کر دیں۔
بعد کے ادوار میں علم اصول فقہ کی تدوین اور ہر موقع ومحل کے لیے الگ الگ اصطلاحات مقرر ہونے کے بعد متاخرین نے نسخ کو اس کے متعین معنی میں استعمال کرنا شروع کیا۔ جسے مختصر الفاظ میں کلیتا رفع حکم سے تعبیر کیا گیا۔ اور اس کی تعریف یوں کی گئی:
کسی متاخر شرعی دلیل کی بناپر کسی شرعی حکم کا بالکل اٹھ جانا اور ختم ہو جانا نسخ کہلاتا ہے۔
قرآن حکیم کے حوالے سے نسخ پر دو پہلوؤں سے بحث کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن حکیم میں نسخ من ہے یا نہیں۔ اور دوسرے یہ کہ اگر قرآن میں نسخ ممکن ہے تو کیا ہمارے پاس موجودہ مصحف میں کوئی آیت منسوخ ہے یا نہیں؟ قرآن حکیم میں امکان نسخ کے بارے میں اہل علم کے دو گروہ ہیں۔ علما کی اکثریت امکان نسخ کی قائل ہے۔ جبکہ ابو مسلم اصفہانی (م 322ھ)اور ان کے پیروکار سرے سے قرآن حکیم میں نسخ کے امکان کے ہی قائل نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر قرآن میں نسخ تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہ بات ماننا پرتی ہے کہ اللہ تعالی کو ایک حکم نازل کرنے کے بعد کوئی بات سوجھی تو اس نے پہلے حکم کو منسوخ کر کے دوسرا حکم نازل کر دیا، لیکن یہ دلیل چنداں وقیع نہیں ہے۔ کیونکہ احکام الہی جس قوم کو اور جن افراد کے لیے نازل ہوتے ہیں، ان کے حالات تغیر پذیر ہوتے ہیں، اس لیے حالات کے بدلنے سے احکام میں تبدیلی آتی ہے اور ان کی تربیت کی جاتی ہے، نیز سابقہ شریعتوں کے نسخ سے بھی وجود نسخ پر استدلا ل کیا جاتا ہے۔لیکن اس سے زیادہ سے زیادہ قرآن حکیم میں نسخ کا امکان ثابت ہوتا ہے۔ یہ امر کہ ہمارے پاس موجود مصحف میں کوئی آیت منسوخ ہے، صرف روایت سے ثابت ہو سکتا ہے ،درایت سے نہیں۔ اس لیے اس کے ثبوت کی تین صورتیں ممکن ہیں:
۱۔ قرآن حکیم میں اس مضمون کی کوئی آیت موجود ہو کہ فلاں حکم جو پہلے تھا، اب منسوخ کر دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے: میں نے تمہیں قبروں پر جانے سے روک دیا تھا، اب تم جا سکتے ہو۔ قرآن میں ایسی کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ بعض آیات جن میں نسخ کا شبہ ہوتا ہے، ان میں قرآن حکیم نے نسخ کی بجائے تخفیف کا لفظ استعمال کیا ہے۔ گویا ان صورتوں میں قرآن حکیم نے حالات کی رعایت کی ہے مطلقا حکم منسوخ نہیں کیا بلکہ کسی قدر نرمی پیدا کر دی ہے۔
۲۔ رسول اللہ ﷺ کا کوئی واضح حکم موجود ہو کہ فلاں آیت اب منسوخ کر دی جاتی ہے۔ ایسا بھی کوئی حکم موجود نہیں ہے۔
۳۔ بعض آیات کے احکام بظاہر باہم متعارض نظر آتے ہوں اور ان میں توافق ممکن نہ ہو۔ نسخ فی القرآن کی بحث اسی تیسری صورت کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ قرآنی آیات کا تعارض رفع کرنے کے لیے علامہ جلال الدین سیوطی نے قاضی ابن العربی مالکی کے حوالے سے اکیس آیات کو منسوخ بتایا ہے یعنی پورے قرآن میں اکیس آیات ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو دوسری آیات سے تعارض پیدا ہوتا ہے، اس لیے انہیں منسوخ قرار دیا گیا۔ درحقیقت اس بنا پر کسی آیت کو منسوخ قرار دینے کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ ہم اپنے عجز کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں ان دو آیات میں واقع ہونے والے اختلاف اور تعارض کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ سمجھ نہیں آیا، لہذا قرآن میں تضاد تسلیم کرنے کے بجائے نسخ کے ذریعے سے آیات کی تاویل کی جائے، لیکن خود قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس میں تضاد نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ وہ ایسی صداقتوں کی تعلیم دیتا ہے جو ایک دوسری کی تائید کرتی ہیں اور قرآن کی صحیح اورسچی تشریح و تفسیر وہی ہو سکتی ہے جو اختلاف اور تضاد سے خالی ہو:
افلا یتدبرون القرآن ولو کا ن من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا
کیا لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ بعد کے مفسرین اور محققین نے حالات کے تغیر، علم کی ترقی اور قرآن کے گہرے مطالعے کے نتیجے میں ان میں سے کئی آیات کے مفہوم اور محمل متعین کر دیے۔ شاہ ولی اللہ نے ان میں سے سولہ آیات کے محمل متعین کر کے ایک ایسی شاہراہ کھول دی جس پر چل کر بعد کے علما نے باقی چھ آیات کے محمل بھی متعین کر دیے، چنانچہ ماضی قریب میں مولانا انور شاہ کشمیری، مفتی محمد عبدہ، مولانا عبیداللہ سندھی اور دیگر کئی علما نے قرآن میں موجود کسی بھی آیت کے منسوخ ہونے سے انکار کر دیا۔ انور شاہ کاشمیری کہتے ہیں:
محققین کے مسلک کو دیکھتے ہوئے میں کلیتا نسخ کا انکار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن حکیم میں سرے سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہے، یعنی ایسی کوئی آیت نہیں کہ جس کا حکم کلیتا منسوخ ہو گیا ہو اور وہ کسی جزئی واقعہ میں بھی معمول بہا نہ ہو۔ میرے نزدیک ایسا نہیں اور کوئی بھی آیت جسے منسوخ بتایا گیا ہے، ایسی آیت نہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے معمول بہا نہ ہو۔
آیات میں تعارض کی صورت میں ہمیشہ نسخ ہی کا قول نہیں کیا جاتا بلکہ تعارض رفع کرنے کے اور حل بھی ہیں ۔مثلا جہاں قرآن کی کسی آیت سے دوسری آیت کا حکم جزوی طور پر متاثر ہوا ہو، اسے تنسیخ (Abrogation) کے بجائے تخصیص (Particularzation) تقیید (Specification) یا استثنا(Exception) کہتے ہیں۔ نسخ فی القرآن کے مسئلے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کی منسوخ آیات کی تعداد میں کمی کا نظریہ آگے بڑھتا رہا تا آنکہ دور حاضر کے بیشتر علما کی رائے یہ ہے کہ قرآن حکیم میں امکان نسخ کے باوجود ایسا کوئی تعارض موجود نہیں جس میں تطبیق (Adjustment) توفیق (Reconciliation) یا توجیہ (Accommodation) ممکن نہ ہو۔ نتیجتا قرآن حکیم کی آیات میں اختلاف یا تعارض کا نظریہ ختم ہو گیا۔
اگر نسخ فی القرآن کے مسئلے کو درایت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ نظریہ بہت عجیب معلوم ہوتا ہے کہ کوئی حکم موجود ہو اور اس کے بارے میں آیت اٹھا لی گئی ہو یا آیت موجود ہو اور اس کا کوئی عملی فائدہ نہ ہو اور اس کے حکم پر کسی حالت میں عمل کرنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر کے مفسرین نسخ کی تشریح تدریجی اور ارتقائی عمل کے مراحل کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”نسخ فی القرآن

  1. ماشااللہ نہایت عمدہ اور اہم۔ بہت سال پہلے مولانا عبیداللہ سندھی کا اس حوالے سے نقطہء نظر پڑھا تھا۔ آپ نے تفصیل سے لکھا۔

Leave a Reply