ٹارگِٹ، ٹارگِٹ ، ٹارگِٹ ۔قسط 11/کرنل ضیا شہزاد

مرغے اور تیتر!
یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب یونٹسں دو دو تین تین مہینے لگاتار ایکسرسائز ایریا میں گزارا کرتی تھیں۔ خانہ بدوشی کا عالم ہوتا ۔ کبھی تو چل سو چل اس طرح سے ہوتی کہ سامان ابھی کھلنے بھی نہ پاتا کہ پوزیشن تبدیل کرنے کے احکامات موصول ہو جاتے اور کبھی ہفتوں ایک جگہ پر بیٹھے ہوئے گزر جاتے۔ جنگل بیابانوں میں آبلہ پائی کرتے کرتے دل اکتا جاتا تو یار لوگ فیلڈ میس میں پہنچ کر دل بہلانے کا سامان ڈھونڈتے۔میس کیا کہئے کہ دو چھوٹے ٹینٹوں کا ایک سائبان تھا۔ زمین کو گہرا کھود کر ہموار کیا جاتا اور اس میں چند کرسیاں اور ایک میز رکھ کر اسے میس کا نام دے دیا جاتا۔ یہاں پہنچ کر حفظ مراتب کو بھی کسی حد تک بالائے طاق رکھ دیا جاتا۔ تاش کی لمبی لمبی باریاں لگتیں جن میں سی او اور ٹو آئی سی سمیت سب افسران باری باری حصہ لیتے۔ تاش کی بازی ہو اور شرط کے بغیر، ایسا شاذ و نادر ہی ممکن ہوتا ہے، چنانچہ ہارنے والے کے لئے سالم مرغ کا تاوان تجویز کیا جاتا۔

ان دنوں ایک بہت سخت گیر قسم کے افسر ہمارے ٹو آئی سی ہوا کرتے تھے۔ جونئیر ہونے کے ناتے ہم سارا دن کان دبا کر ان کی ڈانٹ ڈپٹ سنا کرتے ۔ آخر ایک دن ہم سب نے مل کر ٹو آئی سی سے بدلہ لینے کا طریقہ سوچ ہی لیا۔ اس روز سب لوگ میس میں پہنچے اور حسب معمول رات کے کھانے کے بعد تاش کی بازی شروع ہوئی ۔ ہم سب پہلے ہی سے ایکا کر چکے تھے۔ اشاروں کنایوں میں ایک دوسرے کو پیغامات دیے جانے لگے۔ حسب توقع ٹو آئی سی گیم ہار گئے اور ایک عدد مرغا ان کے نام پر درج ہو گیا۔ دوسری گیم میں پھر یہی ہوا ۔ تیسری گیم میں ٹوآئی سی نے کھیلنے سے انکار کیا تو سی او نے انہیں زبردستی بٹھا دیا۔ وہ پھر ہار گئے، اس طرح تین عدد مرغے ان کے نام پر چڑھ گئے۔ تینوں مرغوں کی نہایت لذیذ کڑاہی اور باربی کیو تیار کیا گیا اور اگلے دن ڈنر کے دوران میس میں پیش کیا گیا۔ کھانا سرو ہوا تو ٹو آئی سی نے اپنی پلیٹ کو پوری طرح سے بھر لیا ۔ یہ دیکھ کر سی او نے دریافت کیا کہ میجر صاحب لگتا ہے کہ آج آپ کو بھوک بہت زیادہ لگی ہوئی ہے تو انہوں نے منمناتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ ’’سر!بھوک تو اتنی زیادہ نہیں لگی لیکن میں ان مشٹنڈوں سے یہی کچھ بچا سکتا ہوں جو میں نے اپنی پلیٹ میں ڈال لیا ہے۔‘‘

آؤٹ ڈور ایکسرسائز کے دوران اگر وقفہ ہو تو لوگ چھوٹے موٹے شکار سے دل بہلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان دنوں ہم سندھ کے دیہی علاقے میں تعینات تھے۔ اس علاقے میں تیتر اور بٹیر کافی تعداد میں پائے جاتے تھے۔ایک دن ہم نے شاٹ گن سے تیتروں کا شکار کرنے کی کوشش کی تو کافی دیر ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد بھی کوئی کامیابی نصیب نہ ہوئی۔حوالدار بوٹا ہمارے ساتھ تھا۔ کہنے لگا کہ سر ایک تو شاٹ گن سے تیتر شکار کرنے میں پورا دن لگ جائے گا دوسرے تیتر تو ویسے بھی ننھا سا پرندہ ہے اس کو چھروں سے مارنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ آپ یہ کام مجھ پر چھوڑ دیں۔ بوٹے نے تیتر پکڑنے کی پوری کِٹ تیار کی ہوئی تھی جو وہ ٹینٹ سے فورًا نکال کر لے آیا۔ اس کِٹ میں گائے کی سینگوں سمیت خالی کھوپڑی ، گائے کی کھال ، تنکوں سے بنی ہوئی ٹوکری اور ململ کا دوپٹہ شامل تھے۔

اس نے گائے کی کھوپڑی اپنے سر پر ہیلمٹ کی مانند فٹ کر لی اور کھال جسم پر کوٹ کی طرح پہن لی ۔ اس طرح اس نے ایک ننھی منی سی گائے کا بہروپ دھار لیا۔ تنکوں والی ٹوکری اس نے ایک ہاتھ میں پکڑ کر پیٹھ کے پیچھے چھپا ئی ہوئی تھی جبکہ دوسرے ہاتھ میں ململ کا دوپٹہ تھا۔ یہ اہتمام کرنے کے بعد بوٹے نے کھیتوں میں دبے پاؤں چلنا شروع کردیا۔ کچھ فاصلے پر تیتروں کے غول موجود تھے۔ تیتر عام طور پر انسان کو دور سے دیکھتے ہی اڑ جاتے ہیں لیکن گائے بھینسوں سے بالکل نہیں ڈرتے۔ بوٹا چونکہ گائے کے روپ میں تھا اس لیے تیتر خاموشی سے اسے اپنی طرف آتا دیکھتے رہے ۔ بوٹے نے ان کے قریب پہنچ کر یکدم تنکوں والی ٹوکری نکال کر تیتروں کے ایک غول پر رکھ دی۔یکلخت چار تیتر اس کے اندر قید ہو گئے۔ اس نے دوسرے ہاتھ سے ململ کا دوپٹہ ٹوکری کے اندر داخل کیا اور تیتروں کو دوپٹے میں ڈھانپ کر گرہ لگا دی۔ یہ عمل تین دفعہ مزید دہرایا گیا اور اس طرح کچھ ہی دیر میں درجن بھر تیتر پکڑنے کا آپریشن کامیابی سے مکمل ہوگیا۔

اس کے بعد ہم فاتحانہ انداز میں میس میں داخل ہوئے اور تیتروں کو میس حوالدار کے حوالے کیا ۔ رات کے کھانے میں سب لوگ انتہائی لذیذ باربی کیو سے لطف اندوز ہوئے۔ سب افسروں کی جانب سے نشانہ بازی میں ہماری مہارت کی بہت تعریف کی گئی جو ہم نے خوب سینہ چوڑا کر کے وصول کی ۔ لیکن اس شکار کی اصل حقیقت کا تو صرف ہمیں علم تھا یا اب آپ جان گئے ہیں۔

کورس میٹ سپرٹ اور لانگ ویک اینڈ!
فوج شاید واحد پروفیشن ہے جس میں سب سے زیادہ دوست بنائے جاتے ہیں۔ پی ایم اے میں داخلے سے لے کر ریٹائرمنٹ تک ہر مرحلے پر بے شمار دوست بنتے اور جدا ہوتے ہیں۔ یہ سب لوگ ایک انوکھے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے طاقت حاصل کر کے موت کو للکارتے ہیں اور بجلی بن کر طوفانوں سے ٹکرا جاتے ہیں ۔فوج میں آنے کے بعد علاقہ ، ذات، نسل ، زبان یا دیگر حوالے بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ شناخت ہوتی ہے تو پی ایم اے کے کورس یا پھر یونٹ کے نام سے۔پی ایم اے کی تربیت سختیوں سے بھرپور ہوتی ہے لیکن ان سختیوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی انہی سنگی ساتھیوں سے ملتا ہے جوعرف عام میں کورس میٹ کہلاتے ہیں۔

کورس میٹ شپ کے اصول کسی کتاب میں تو درج نہیں لیکن برطانوی آئین کی مانند اسے فوجی افسروں کے غیر تحریر شدہ قاعدے قانون سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اس کے تحت ہر افسر اپنے کورس میٹ کا ہر حال میں ساتھ دینے کا پابند ہوتا ہے۔ ہم نے کورس میٹس کو ایک دوسرے کا الزام اپنے سر لے کر پنشمنٹ لیتے بھی دیکھا اور کورس میٹ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مشکل سے مشکل کام کو ہنسی خوشی سر انجام دیتے ہوئے بھی۔ ایک عظیم کورس تو ایسا بھی گزرا ہے کہ ایک افسر نے اپنے ان چار ساتھیوں کے بغیر پاس آؤٹ ہونے سے انکار کر دیا تھا جنہیں ایک رات پہلے ریلیگیٹ کر دیا گیا تھا۔ اسی کورس میٹ شپ میں کچھ واقعات ایسے بھی ہو جاتے ہیں جو ڈسپلن کے خلاف لیکن اسپرٹ ڈی کور کے عین مطابق ہوتے ہیں ۔

پاسنگ آؤٹ پریڈ پی ایم اے کا ایک امتیازی موقع ہوتا ہے۔ یہ پریڈ سال میں دو مرتبہ اپریل اور اکتوبر کے مہینوں میں منعقد ہوتی ہے۔ مہینوں پہلے سے اس کی تیاری شروع کر دی جاتی ہے۔تیسری اور چوتھی ٹرم کے کیڈٹس اس میں حصہ لیتے ہیں۔ ہم ان دنوں تیسری ٹرم کے کیڈٹ ہوا کرتے تھے اور ہمارا کورس بھی سینئر کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شامل تھا۔پریڈ کی تیاری پورے زور و شور سے جاری تھی اور پورا دن ڈرل سکوائر میں پریڈ کرتے ہوئے ہی گزر تا تھا۔ ڈرل سٹاف بھرپور جولانی پر تھا اور کورس کو ایک لمحہ کے لیے بھی نظروں سے دور کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا تھا۔ ان دنوں جمعہ کی ہفتہ وار چھٹی کا رواج تھا لیکن آرمی میں مہینے کے پہلے ہفتے میں جمعرات کی چھٹی دے کر اسے لانگ ویک اینڈ کا نام دے دیا جاتا تھا۔ لانگ ویک اینڈ جوں جوں قریب آ رہا تھا کیڈٹس کی بیقراری انتہا کو چھو رہی تھی۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ ہم سب کی امیدوں پر اس وقت اوس پڑ گئی جب بدھ کے روزصبح کو یہ اعلان سننے کو ملا کہ لانگ ویک اینڈ بند ہے اور اس کے بجائے جمعرات اور جمعہ کو بھی پاسنگ آؤٹ کی ریہرسل کی جائے گی۔

دونوں کورسز پر یہ اعلان بجلی بن کر گرا جس کے نتیجے میں سب کا مورال ٹخنوں کو چھونے لگا۔ پریڈ فالن ہوئی اور ایس ایم صاحب نے زوردار آواز میں کاشن دیا۔ جواب میں کیڈٹس نے مریل گھوڑوں کی طرح مارچ کا آغاز کیا۔ پریڈ میں پہلے والا جوش و جذبہ سرے سے مفقود دکھائی دے رہا تھا۔ ڈرل سکوائر میں داخل ہو ئے تو کورس ایک تھکا ماندہ قسم کا چکر لگا کر ڈھیلا ڈھالا سا رک گیا جسے دیکھتے ہی ایس ایم صاحب اور ڈرل سٹاف کا غصہ ساتویں آسمان تک پہنچ گیا۔ انہوں نے بلند آواز سے کاشن دینے شروع کیے لیکن کیڈٹس نے حرکت کرنے کے بجائے آلتی پالتی مار کر زمین پر بیٹھنا شروع کر دیا۔ چشم فلک نے یہ منظر نہ پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ شاید دوبارہ دیکھے گی۔ سٹاف نے پہلے تو معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن یہ شاید ان کے بس کی بات نہ تھی لہٰذا اکیڈمی ایڈجوٹنٹ کو بلایا گیا۔ کیڈٹس اس بات پر بضد تھے۔ ان سے کیا گیا لانگ ویک اینڈ کا وعدہ ہر صورت پورا کیا جائے بصورت دیگر وہ ہر قسم کی سزا کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ ایسا ہرگزنہیں تھا کہ لانگ ویک اینڈ کوئی بہت ضروری چیز تھی جس کے بغیر گزارا ممکن نہیں تھا بلکہ یہاں پر تو بلا سوچے سمجھے کورس میٹ سپرٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔

بات بنتی نظر نہ آئی تو بٹالین کمانڈر بذات خودتشریف لے آئے۔ انہوں نے کورس کو یہ بات سمجھانے کے لیے ایک طویل تقریر ارشاد فرمائی کہ پریڈ کی ریہرسل ویک اینڈ سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اپنی تقریر کے اختتام پر انہوں نے اعلان کیا کہ اب بھی جس کسی کو ویک اینڈ چاہئے وہ پانچ قدم لے کر آگے آ جائے۔ یہ سننا تھا کہ سب کے سب کیڈٹس پانچ قدم لے کر آگے آ گئے۔ یہ منظردیکھ کر وقت گویا تھم سا گیا ۔بٹالین کمانڈر کو بھی حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ کچھ دیر اسی کیفیت میں رہنے کے بعد انہوں نے غصے میں آ کر ڈرل سٹاف کو حکم دیا کہ دونوں کورسز کو رائفلز سر سے اوپر کروا کر ڈرل سکوائر کے چکر لگوائے جائیں اور اگر کسی کی رائفل نیچے آئی تو اسے فی الفور ریلیگیٹ کر دیا جائے گا ۔ڈرل سٹاف نے فی الفور ہمیں رائفل سر سے اوپر اٹھوا کرگرانڈ کے چکر لگوانے شروع کر دیے۔

اسی اثنا میں ہم نے دیکھا کہ ایک حوالدار دو کیڈٹس کو بٹالین کمانڈر کے روبرو لے جا رہا ہے ۔ یہ دیکھ کر ڈرل صوبیدار میجر نور رخمت فوراً آڑے آ گئے اور اس سٹاف کی یہ کہتے ہوئے سخت سرزنش کی کہ یہ تمام کیڈٹ میرے بچوں کی طرح ہیں، یہ بڑی محنت کے بعداس مقام تک پہنچے ہیں اور میں ان کا نقصان ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ نور رخمت صاحب نہ جانے اب کہاں ہوں گے لیکن ان کی یہ بات یاد آتی ہے تو بے اختیار دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔کچھ دیر لگاتار ڈرل سکوائر کے چکر لگانے کے بعدبٹالین کمانڈر کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا اور ہمارے سر وں سے بھی لانگ ویک اینڈ کا بھوت اتر گیا لہٰذا پریڈ کا دوبارہ آغاز ہو گیا۔

ہم یہ تو نہیں جانتے کہ وہ لانگ ویک اینڈ کی خواہش تھی یا کورس میٹ سپرٹ جس کے باعث پورا کورس اپنا کمیشن داؤ پر لگانے پر آمادہ ہو گیا تھا ہاں اتنا یقین ضرورہے کہ اگر آج وقت کا پہیہ واپس گھوم جائے اور وہی آپشن دوبارہ دی جائے تو بھی سب لوگ اپنے کورس کا ساتھ دیتے ہوئے پانچ قدم آگے ہی لیں گے۔

گدھے اور گھوڑے!
جنوری 1996 کی ایک سہانی شام کو ہمارا نوشہرہ پہنچنے کا مقصد سکول آف آرٹلری سے چھ ماہ کے بیسک کورس کی تکمیل تھا۔ ہم پی ایم اے کے ہنگاموں سے نکل کر کسی گوشہ عافیت کی تلاش میں تھے جو ہمیں سکول آف آرٹلری کی صورت میں میسر آ گیا۔ اس مہربان مادرِ علمی میں پہنچ کر ہمیں اپنے افسر ہونے کا کچھ کچھ احساس ہونا شروع ہوا۔ اگرچہ ہم ابھی تک سیکنڈ لفٹین ہی تھے لیکن ہمیں جرنیلوں والی پذیرائی کا مستحق سمجھا جاتا۔چند دنوں تک تو یوں لگا کہ شاید یہ سب کچھ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے لیکن پھر اپنا فائدہ سمجھ کر خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ سٹاف اور انسٹرکٹرز کی شستہ زبان، عالیشان میس اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سٹوڈنٹس پرکسی قسم کی غیر ضروری قدغن کا وجود نہیں۔ کلاسز ایک لگے بندھے شیڈول کے مطابق ہوا کرتیں اور اس کے بعد ہر کسی کی اپنی مرضی تھی کہ دل چاہے تو کتابوں سے سر کھپائے ، شہر کا چکر لگائے یا پھر میس میں بیٹھ کردل پشوری کرے۔

کورس کا آغاز تھا اور زیادہ تر لوگ اپنی آنکھوں میں کورس ٹاپ کرنے کے خواب سجائے دن رات کتابیں رٹنے میں مصروف تھے چنانچہ میس میں صرف کھانے کے وقت ہی رونق ہوا کرتی تھی، علاوہ ازیں نوشہرہ، پشاور روٹ پر ٹریفک بھی برائے نام ہی تھی۔ بہت سے جغادری قسم کے گنر حضرات کھانا بھی کمرے میں منگوا کر کھاتے تاکہ پڑھائی میں غیر ضروری تعطل سے بچا جا سکے ۔ یہ راز البتہ کچھ عرصے بعد کھلا کہ اس سکون کی تہہ میں بھی کئی ہنگامے پوشیدہ تھے۔ ایک ماہ بعد پہلا پیپر ہوا تو ہاتھی کے کھانے والے دانت صاف نظر آگئے۔ پتہ چلا کہ سکول والے انگریزی کے محاورے
mean business
کے مصداق پڑھائی اور اس سے متعلقہ امور میں چنگیز خانی قبیلے سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ پیپر میں دو تین جدی پشتی ٹائپ کے آرٹلری افسر ہی بمشکل پاس ہونے میں کامیاب ہو سکے۔رزلٹ نے پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے دونوں قبیلوں کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

رزلٹ کے بعد پیپر شو کرنے کے لیے تمام کورس کواختر ہال میں اکٹھا کیا گیا۔ سب کے نامہ ہائے اعمال ان کے ہاتھوں میں تھمائے گئے تاکہ اپنی آنکھوں سے اپنا کیا دھرا ملاحظہ کر لیں۔ جن میجر صاحب نے یہ پیپر تیار کر کے ہمارے ارمانوں کا قتل عام کیا تھا وہ تشریف لائے اور روسٹرم پر کھڑے ہوگئے۔ ان کے چہرے پر ایک پرسکون مسکراہٹ آویزاں تھی جو مہاتما بدھ کے مجسموں کو غور سے دیکھنے پر نظر آتی ہے۔ ہمارے کورس سینیئر لیفٹیننٹ جمیل جن کے نمبر سب سے کم تھے کھڑے ہوئے اور شکوہ شکایت کا آغاز کیا’’سر اتنا مشکل پیپر تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔آپ کے بنائے ہوئے اس پیپر کو تو کمانڈنٹ اور چیف انسٹرکٹر کو بھی دے دیا جائے تو وہ بھی حل نہ کر سکیں۔ ہم جیسے کل کے لفٹین بھلا کیا توپ چلا سکتے ہیں۔ ‘‘
میجر صاحب مونچھوں کو تاؤ دے کر فرمانے لگے ’’برخوردار! آخر ہم نے گدھے اور گھوڑے بھی تو علیحدہ کرنے ہوتے ہیں۔‘‘لیفٹیننٹ جمیل بھی انتہا کے دل جلے تھے ،بولے: سر!معاف کیجئے ، وہ تو پی ایم اے میں ہی علیحدہ ہو جاتے ہیں۔‘‘
(جاری ہے)

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply