بہشت میں وہ صبح معمول سے بہت الگ تھی۔یوں جیسے کوئی طوفان آنے کو ہو۔بہشتی چرند پرند جو خوش الحانی سے رب عرش العظیم کی ثنا خوانی کرتے تھے وہ دم سادھے جنت کے پیڑوں پر دبکے بیٹھے تھے۔فرشتوں کے چہرے ان دیکھے خوف سے اترے ہوئے تھے اور مجموعی طور پر جنت کا ماحول بہت ہی غیر معمولی تھا۔۔
یکدم ایک ندا بلند ہوئی اور ایک برگزیدہ فرشتے نے اپنے زمردیں پر پھڑپھڑائے۔۔۔یہ اس بات کا اعلان تھا کہ رب کائنات کے دربار میں ازل کے سب سے بڑے،سنجیدہ اور ناقابل یقین واقعے کا مقدمہ پیش ہوا ہی چاہتا ہے۔مقدس أشجار پر کھلبلی سی مچ گئی۔”کیا ہو گا۔۔”؟؟،اب کیا ہو گا۔۔۔؟
ایسا ظلم اپنی جان پر آج سے پہلے کسی مخلوق نے نہ کیا”وہ آپس میں چہ مگوئیاں کرتے تھے اور اندازہ لگانے کی ناکام کوشش میں ہلکان ہوئےجاتے تھے کہ آخر اس قدر سنگین جرم پر خالق کائنات اپنے لاڈلے خلیفہ کے ساتھ کیسے پیش آئے گا؟؟کچھ کا کہنا تھا کہ شاید معافی تلافی پر بات ٹل جائے۔اور خلیفہ کو معزول نہ کیا جائے۔کچھ چاہتے تھے کہ اس فتنہ کی جلد از جلد سرکوبی ہو اور جنت کے ماحول میں جو یہ شورش اور بغاوت کی سی فضا پیدا ہو گئی ہے اس کی بروقت اصلاح ممکن ہو۔ ابھی یہ آپسی سرگوشیاں اور اندازوں کا کھیل جاری ہی تھا کہ فرستادہ بہشت نے دوبارہ پر پھڑپھڑائے اور سر جھکائے،مقدمے کے تینوں فریق دربار خداوندی میں پیش ہونے کے لیے چلتے ہوئے دکھائی دیے۔
اہلیان بہشت راستہ چھوڑتے چلے گئے اور ہجوم کائی کی طرح چھٹتا چلا گیا”دیکھو۔۔۔دیکھو یہ ہیں وہ۔۔۔نافرمان ۔۔”ایک آواز کان پڑی تو خلیفہ نے تڑپ کر سر اٹھایا۔درباریوں کے چہروں پر چھایا ہیجان؛ غصہ اسے دوبارہ نظر جھکانے پر مجبور کر گیا ۔یہ مرکزی کردار، آدم تھا۔۔
آدم کے پیچھے اس کی پسلی سے جنم لینے والی۔۔ اس کے وجود کا حصہ،حوا تھی۔اس کے حسین چہرے پر اس وقت غم و اندوه کے بادل سیاہی کو مات دیتے تھے”ارے۔۔۔کیا یہ وہی حوا ہے۔جس کے حسن سے ہم مرعوب رہا کرتی تھیں؟”کسی حور نے ہنکارا بھرا۔ ان دونوں کے بدن جو لباس کی محتاجی سے ماورا ہوا کرتے تھے اس وقت ورقتہ الجنہ میں ملفوف تھے ۔ان دونوں سے ذرا فاصلے پر بے خوفی سے سینہ تانے چلتا ہوا مقدمے کا تیسرا فریق عزازیل تھا۔
فریقین کے دربار میں پہنچنے کے بعد فرستادہ نے تیسری مرتبہ اپنے پر پھڑپھڑائے اور ندائے ربانی نے اعلان کر دیا کہ مقدمے کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔
ایک سنہری پروں والا فرشتہ آگے بڑھا اور سنگی لوح سے فرد جرم بنام خلیفہ ربانی،آدم پڑھ کر سنانے لگا۔ درباریوں میں دم سادھ سناٹا تھا۔ فرشتے کی آواز کی لہریں جہاں جہاں پہنچتی تھیں، نافرمانی و ناشکری کی اس داستان سے بہشت کا ذرہ ذرہ تھراتا تھا۔
“ہائے افسوس۔۔۔یہ کیسا ظلم کیا اپنی جانوں پر”حوروغلماں دبی آوازوں میں رنجور ہو کر کف افسوس ملتے۔
“اے آدم۔۔تجھ پر الزام ہے کہ تو نے اپنے پیدا کرنے والے کے حکم سے رو گردانی کی۔باوجود صریح ممانعت کے تو شجر ممنوعہ کے پھل کو چکھنے کا مرتکب ہوا۔۔جبکہ تیرے پروردگار نے تجھے اس کے قریب تک نہ جانے کا حکم دیا تھا۔کیا تیرے رب کی باتوں میں کوئی ابہام تھا؟؟کیا تیرے رب نے تجھے کھلے لفظوں میں تنبیہہ نہ کی تھی۔۔؟؟اب تجھ پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے۔۔تیری اس نافرمانی کی گواہی تجھ پر لپٹے یہ جنت کے پتے بھی دے رہے ہیں اگرچہ کہ تیرا خالق،رب عرش عظیم ان سب گواہیوں سے مبرا ہے لیکن وہ سب سے بڑا منصف ہے۔تیرے ساتھ ذرا برابر بھی نا انصافی نہ ہو لہذا تجھے اپنی صفائی میں بولنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔اب تو اپنے رب کے روبرو ہو اور اپنا مؤقف بیان کر” فرشتے نے اپنی بات ختم کی اور ایک طرف کو ہو کر کھڑا ہو گیا۔
آدم کے بدن میں مانو کاٹو تو لہو نہ تھا۔ جیسے تیسے خود کو گھسیٹتے آگے کو بڑھا تو بارگاہ الٰہی میں اس جرم کے بعد حاضری کے خیال نے ہی قدموں سے جان کھینچ لی۔حوا جو جنم میں آنے کے بعد سے ہی آدم کا اٹوٹ انگ تھی،ہمقدم ہونے لگی مگر اسے روک دیا گیا”نہیں ۔۔تجھے بھی اپنے وقت پر پیش ہونا ہو گا۔۔۔مگر اس وقت آدم کی باری ہے۔”کچھ تند مزاج حوروں نے اسے درشتی سے اپنی جگہ چھوڑنے سے روکا۔
حوا بے بسی کی تصویر بنی آدم کو جاتا دیکھتی رہی۔۔اسے اس جھگڑے سے اگر کچھ سروکار تھا تو بس اتنا کہ آدم پر بلا آن پڑی ہے۔۔اور شاید اس کی وجہ وہ خود ہی ہے۔وہ اپنے انجام سے اتنی خوفزدہ نہیں تھی ہاں مگر بس آدم کی جاں بخشی ہو جائے۔۔وہ کچھ دیر گردن اچکا اچکا کر آدم کو جاتا دیکھتی رہی اور پھر سر جھکا کر اپنی جگہ ساکت ہو گئی۔
آدم اپنے رب کے روبرو ہوا تو درباریوں نے سانسیں بھی روک لیں ۔ساری کائنات کا سناٹا بہشت میں سائیں سائیں کرتا پھر رہا تھا۔آدم نے کچھ دیر ہمت متجمع کی اور پھر اعتراف جرم کے سے انداز میں اپنا مؤقف بیان کرنے لگا۔
“بعد از حمد و ثنائے رب العالمین، میں آدم کہ جسے اے خالق تو نے اپنا خلیفہ بنانے کا اعزاز عطا کیا،پور پور بحر ندامت میں غرق اور نہایت ہی شرمندگی سے اعتراف اس امر کا کرتا ہوں کہ میں تیری صریح نافرمانی کا مرتکب ہوا ہوں ۔بے شک اے پروردگار میں نے اپنی جان پر کھلا ظلم کیا اور بے شک اے رب تو کسی جان پر ظلم نہیں کرتا۔”
آدم کی لرزیدہ آواز دربار الہی میں پھیلنے لگی تو اس کی ندامت سے جنت میں گہرے سیاہ بادل چھا گئے۔بہشت کے لازوال پیڑ پودے اس کی تاب نہ لاتے ہوئے مرجھانے لگے۔عسل و حلب کی نہروں کی روانی تہس نہس ہونے لگی۔آدم کے ہمدردوں کی آہوں نے قطروں کی صورت برسنا شروع کر دیا۔اسی دربار میں وہ بھی تھے جو تخلیق آدم اور پھر اس منصب کے جو اسے عطا کیا گیا تھا، مخالف تھے اور اس وقت سب سے زیادہ خوشی ان کو آدم کو یوں شرمسار اور ملزم کی حالت میں دیکھ کر ہوتی تھی۔ “ہونہہ۔۔کل تک کیسے باغ عدن میں مختارانہ شان سے چلا کرتا تھا۔آج کیسے ہاتھ باندھے جواب طلبی کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔۔” ہم نہ کہتے تھے کہ خاک کی فطرت میں کجی ہے۔۔عجلت پسند خاکی۔۔”
کچھ کی جبینوں پر ابھی وہ سجدہ لو دیتا تھا اور انگارے کی طرح دہکتا تھا جو انہیں اپنے رب کے حکم کو بجا لانے کی خاطر اس خاک کے پتلے کو کرنا پڑا تھا اور اس وقت اس کی تپش کو کم کرنے کے لیے وہ آدم کی خستہ حالی سے لذت کشید کر رہے تھے۔۔آدم کا اعتراف نامہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔
” اے میرے رب۔۔میری تخلیق و منصب سب تیرے ہی مرہون منت ہے اور میں کسی بھی طور تیرے احسانوں کا بدلہ چکانے سے قاصر ہوں ۔اے رب۔۔۔مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب تو نے اپنی حکمت و علم سے اسمائے اشیاء مجھے سکھلائے اور اپنے فضل سے تو نے مجھے مسجود ملائک کیا۔خداوند!تو نے جنت میرے تصرف میں دے دی۔حور و غلماں کے پرے میری دلبستگی کو عنائیت فرمائے۔بہشتی لازوال نعمتوں سے میرا دامن بھر دیا۔وائے بدقسمتی۔یہ میں کیسا سنگین جرم کر بیٹھا۔۔مجھے اپنے سب جرائم کا اعتراف ہے میرے معبود مگر۔۔”اس مگر پر دربار میں ایک بار پھر کھلبلی مچ گئی۔۔”کیا ہو گا۔۔؟؟؟اب یہ خاک کا پتلا اپنے جرم کی نوعیت کم کرنے کے لئے کیا دلیل دے گا۔۔”؟؟
دربانوں اور محافظوں کی سرزنش پر پھر سے خاموشی ہو گئی اور آدم کی آوازپھیلنے لگی۔”مگر اے خداوند مجھے بہکایا گیا اور پھسلا کر شجر ممنوعہ کا پھل کھلایا گیا۔۔میرے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجئے ۔”آدم کی اس دلیل پر ندائے ربی بلند ہوئی” کیسے اپنے حق میں تو یہ دلیل دے سکتا ہے کہ تجھے بہکا کر پھل کھلایا گیا۔۔جبکہ میرے برحق الفاظ میں تجھے کہا گیا تھا ،متنبہ کیا گیا تھا کہ اے آدم شیطان کے چنگل میں نہ آنا۔۔۔بے شک وہ تیرا کھلا دشمن ہے۔۔”
اس بات پر آدم کی روح فنا ہو گئی مگر پھر اسے ایک راہ سجھائی دے ہی گئی۔اس نے اپنی آواز میں سوز ندامت بھرتے ہوئے عاجزی سے کہا”بے شک اے پروردگار ۔تو نے شیطان کے ہتھکنڈوں سے مجھے خبردار کیا تھا۔۔اور یہ بھی برحق ہے کہ اس نے بے شمار مرتبہ مجھے پھسلانا چاہا مگر تیری کھلی نشاندہی پر یہ مردود کبھی بھی میرے نفس کا اغوا کرنے میں کامیاب نہ ہوا ۔پھر اے رب۔۔اس نے حوا کو اپنا آلہ کار بنایا اور میں چونکہ اس بات سے لاعلم تھا کہ وہ حوا کے ذریعے مجھے نافرمانی کا مرتکب کرائے گا لہٰذا میں حوا کے بہکاوے میں آ کر شجر ممنوعہ کا پھل چکھنے کا گنہگار ہوا ہوں ۔۔اس لیے میرے رب میرے ساتھ اس معاملے میں نرمی کیجئے ”
اتنا کہہ کر آدم خاموش ہو گیا اور دربار میں اس نئےنکتہ پر سرگوشیوں کا طوفان امنڈ آیا۔۔”ارے۔۔تو یہ قصہ ہے۔۔آدم کی زوج نے ہی اسے اکسایا تھا۔۔۔اب آگے۔۔۔؟؟؟”یہ بھنبھناہٹ آدم کی فکر میں غلطاں سر جھکائے کھڑی حوا کے کانوں میں پڑی تو اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔”آدم ایسا کیسے کہہ سکتا تھا۔۔؟؟؟ہم دونوں تو ہر معاملے میں ساتھ تھے۔۔ہر فعل کے شریک کار تھے ۔۔۔پھر آدم بار گناہ فقط میرے ہی سر کیسے رکھ سکتا ہے۔۔”؟؟
حوا جو آج سے پہلے آدم کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے آمنا و صدقنا کہا کرتی تھی،بے اختیار کہہ اٹھی۔ جنت میں چھائی گھٹاؤں کی گھن گرج میں یکبارگی اضافہ ہو گیا جب ندائے ربانی نے جرم نافرمانی میں آدم کی شریک کار اور ملزمہ حوا کو پیش کرنے کا حکم دیا۔۔سر جھکائے ہوئے حوا اپنے تن پر لپٹے ورقتہ الجنہ سنبھالتی کٹہرے کی طرف چلی تو یہ وہ پہلا موقع تھا جب وہ اپنے رب کے روبرو ہوئی تھی اس سے پہلے ایسی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی تھی جس کے لیے اسے رب العالمین کی بارگاہ میں براہ راست طلب کیا جاتا۔اس کی کل کائنات آدم تھا۔وہی اس کا معلم تھا،وہی اس کا رہبر۔۔وہ فقط اس کے سکھائے پر من و عن عمل پیرا ہوتی اور آدم اپنے معلم و رہبر ہونے پر اترایا کرتا تھا۔
حوا نے نزدیک پہنچ کر شکوہ کناں نگاہوں سے آدم کو دیکھا تو اس نے سرعت سے نگاہیں پھیر لیں ۔یوں جیسے حوا سے اس کا کبھی کوئی واسطہ نہ رہا ہو۔اس کی یہ بے اعتنائی حوا کے دل میں ترازو ہو گئی اور اس کے یاقوتی لبوں سے بے ساختہ ایک سسکی آہ سرد کے ساتھ برآمد ہوئی جس نے بہشت پر چھائی اداسی و وحشت کو مزیدبڑھا دیا تھا۔ وہ جہاں جہاں سے بھی گزرتی، اس کے کانوں میں ان حاسد حوروں کے طنز بھرے ہنکارے پڑتے جو کبھی آدم کی منظور نظر ہوا کرتی تھیں اور پھر حوا نے ان سے آدم کی دلبستگی کی لذت چھین لی تھی۔
“یہ ہے وہ زوج۔۔؟؟؟جس کی کم علمی و نادانی نے خلیفہ الہی کو گنہگار بنا کر آج بارگاہ خداوندی میں مجرم ٹھہرا دیا ہے۔۔ہونہہ”
حوا اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے کٹہرے میں جا کھڑی ہوئی اور فرشتے نے دوسری سنگی لوح اٹھا کر فرد جرم بنام حوا پڑھنے کا آغاز کیا۔
فرستادہ بہشت نے حوا کے نام فرد جرم پڑھنی شروع کی
” اے حوا،زوج خلیفہ ربانی،آدم! تجھے پروردگار کی جملہ واردات نافرمانی میں نہ صرف آدم کا مددگار و معاون پایا گیا،بلکہ آدم کی جانب سے تجھ پر اسے بہکانے اور شجر ممنوعہ کا پھل کھلانے کی ترغیب دینے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔اب تو بارگاہ خداوندی میں پیش ہو اور اس الزام کی حقیقت بیان کر”
فرشتے کی گونجدار آواز نے حوا کے دل میں سہم پیدا کر دیا اور وہ لرزاں بر اندام خدائے ذوالجلال کے روبرو ہوئی۔
بہشت کے مکینوں نے اپنے ہاتھ لبوں پر جما لیے اور ہمہ تن گوش ہو کر حوا کی دلیل کے منتظر ہوئے۔”کیا واقعی دوش فقط حوا کا ہے۔۔؟؟ اسی کے بہکاوے میں خلیفہ ربانی نافرمانی کا مرتکب ٹھہرا ہے۔۔”؟؟وہ حور جو حوا کی مشاطہ گری کیا کرتی تھی اور آدم کی خلوت میں بھیجنے سے پہلے اسے بہشتی گہنوں،پھولوں اور لعل و جواہر سے مرصع کیا کرتی تھی،متجسس ہو کر سرگوشی کرنے لگی۔۔”
یہ تو حوا کی دلیل سے ہی معلوم ہو سکے گا کہ واردات کیا ہوئی تھی۔مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کی طرح یہ بھی تاویلات سے کام لے کر اپنے فعل کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کرے گی۔”ذرا سیانی اور مدبر سی نظر آنے والی ایک حور نے قیافہ لگاتے ہوئے جواب دیا۔
مشاطہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ ایک دربان کا تنبیہی عصا اس کی پشت پر اس زور کا پڑا کہ وہ اپنی جگہ دبک کر کھڑی ہو گئی۔۔
ادھر حوا جو کہ علم زبان و بیان میں آدم کا عشر عشیر بھی نہیں تھی،بارگاہ اقدس میں حمد و ثنا کے ساتھ گویا ہوئی ۔
“اے خدائے ذوالجلال! میں حوا، زوج آدم تیری بارگاہ میں بمع اپنی تمام تر ندامت کے، اس جرم کا اقرار کرتی ہوں جو مجھ سے سرزد ہوا۔”
حوا کی لرزاں آواز کی شدت سوز سے طیور اپنے نغموں کے ساز بھولنے لگے۔
” اے رب کائنات!! میری تخلیق آدم کی دلبستگی کی خاطر کی گئی تھی ۔میں نے وجود میں آنے کے بعد جس ہستی کو خود سے آشنا پایا وہ تیرا خلیفہ اور میرا زوج آدم تھا۔۔اے رب! ایک روز جبکہ میں باغ عدن میں آدم کے ہمراہ ٹہل رہی تھی اور آدم مجھے تعلیم دے رہا تھا تو میری نظر سے ایک شجر سایہ دار جو کہ حسین و شاداب اور ایک انوکھے پھل سے لدا ہوا تھا ،گزرا۔ میں نے قبل اس کے ایسا کوئی شجر نہ دیکھا تھا اور چونکہ میرا علم مرہون آدم تھا، میں نے اس کے متعلق آدم سے دریافت کیا”
حوا کی غم سے چور آواز بارگاہ الٰہی میں پھیل رہی تھی ۔
“اے خدائے بزرگ و برتر ۔تیرے اس خلیفہ نے مجھے شجر ممنوعہ کے بارے میں تعلیم کیا کہ اس کے قریب جانے کی اجازت آدم و حوا کو نہیں دی گئی” دربار کے سناٹے میں حوا کا اقرار جرم گونج رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے اشک ندامت در مکنون کی مانند ٹپک رہے تھے۔۔وہ ارض بہشت پر گرتے اور موتیوں کی صورت بکھر جاتے۔آدم نے اس سارے عرصے میں حوا پر ایک نگاہ غلط انداز تک نہ ڈالی تھی۔
حوا نے ایک دلگیر سسکی بھری اور اقبال جرم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی
” اے رب!! اس ممانعت نے میرے تجسس کو مزید بھڑکا دیا اور مجھے جب بھی موقع میسر ہوتا،میں اس انوکھے شجر کو دیکھنے چل پڑتی۔اس کے دلکش و شیریں نظر آتے پھل میرے کام و دہن کی تشنگی کو بڑھاتے اور میرا تجسس مجھے اکساتا مگر میں آدم کے ساتھ کے بغیر اسے چکھنے کی ہمت خود میں نہیں پاتی تھی۔”
حوا سانس لینے کو رکی تو درباریوں میں بے چینی پھیلنے لگی۔۔دفعتا حوا کی آنکھوں سے بہتے اشکوں میں طغیانی آ گئی اور وہ روتے ہوئے بولی۔۔
” اے رب کائنات! ایک روز شجر ممنوعہ کے قریب میں نے ایک بے حد حسین اور دلکش،سنہری و آتشیں ثوبان کو دیکھا۔وہ بار بار اس کی شاخوں پر لپٹتا اور پھلوں پر اپنی دوشاخہ زبان پھیرتا۔”اس مقام پر سرگوشیوں اور چہ مگوئیوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا “سنہری ثوبان!
ارے وہ تو عزازیل کا پسندیدہ بہروپ ہے۔۔تو کیا حوا کو معلوم نہ تھا۔۔؟؟حیرت بھری سرگوشیاں حوا کی آواز میں معدوم ہو گئیں ” خداوند اقدس!!پہلے تو میں اسے دیکھ کر گھبرا گئی اور وہاں سے چلنے کو ہی تھی کہ وہ ثوبان دفعتا شجر سے اتر کر میری راہ میں آ گیا۔اب تو مجھے یقین ہو گیا کہ ضرور یہ ثوبان مجھے ضرر پہنچا کر ہی رہے گا۔ قبل اس کے کہ میں کسی محافظ کو صدا لگا کر اس موذی کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کرتی،وہ کورنش بجا لایا اور پھر نہایت ادب سے گویا ہوا” اے زوج آدم! میں بہت روز سے تجھے اس بہشتی اور خاص الخاص شجر کے پاس پاتا ہوں، اگر تو اس کے بارے میں کچھ علم چاہتی ہے تو مجھے بتا،میں تیری تشنگی کو ضرور بالضرور مٹاؤں گا۔
حوا کے دہن سے ان الفاظ کا ادا ہونا تھا کہ آدم نے غیض وغضب سے لبریز نگاہ حوا پر ڈالی اور اس آتش انگیز نظر کی تاب نہ لاتے ہوئے حوا آن کی آن میں زرد ہو گئی۔بہشت کی فضاؤں میں چھائے افسردگی کے بادل کچھ اور گھنے ہو گئے تھے ۔ حوا نے ہمت مجتمع کی اور دانستہ آدم کو دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے اعترافی بیان جاری رکھا۔ “پروردگار عالم! میرے تجسس نے مجھے ثوبان کی شاگردہ بنا دیا اور میں نے اس سے شجر ممنوعہ کے بارے میں دریافت کیا۔ ثوبان نے مجھے شرط رازداری اور آدم کو اس معاملے میں لاعلم رکھنے کے عوض شجر ممنوعہ کے خواص و اہمیت سے آگاہ کیا ۔
اس نے دعویٰ کیا کہ یہ شجر علم کامل کا شجر یے اور اس کا پھل چکھ لینے والا علم و حکمت اور اسرار مخفی سے کلی طور پر واقف ہو جاتا ہے اور ممانعت کی وجہ بھی اس کا اس قدر نایاب اور خاص الخاص ہونا ہے۔
” عزازیل جو کہ مقدمے کا تیسرا فریق تھا، حوا کے ان الفاظ پر زہر خنداں ہوا مگر اسے اپنے دلا ئل اپنے وقت پر ہی پیش کرنے تھے لہذا خاموش رہا۔
حوا نے اپنا حسین چہرہ دونوں ہاتھوں کی اوٹ میں چھپا لیا اور بولی” اے رب العزت! میں جو ہمیشہ آدم کے علم سے مرعوب رہا کرتی تھی اس قدر بیش قیمت معلومات حاصل ہونے پر فخر سے پھولے نہ سمائی اور پہلی بار میں نے آدم کو اس شجر پھل اور اس کے پوشیدہ خواص سے آگاہ کیا۔ مگر آدم نے مجھے جھٹلا دیا اور مجھے اپنے علم کی اس توہین نے اکسایا کہ میں تجربے سے اپنے دعوے کو درست ثابت کروں ۔”
حوا کا بیان آخری مرحلے کی طرف گامزن تھا۔دربار کی ہلچل اور بے چینی عروج پر تھی۔دھیمی آوازوں اور سرگوشیوں پر ایک بار پھر حوا کی آواز غالب آ گئی ۔
” خدائے بزرگ و برتر! میں نے آدم سے مکر و فریب کرتے ہوئے اسے باور کرایا کہ میں وہ پھل کھا چکی ہوں اور علم و حکمت میں میرا مرتبہ آدم سے کہیں زیادہ ہو چکا ہے۔ اے رب! آدم نے فی الفور مجھے ہمراہ لیا اور ہم شجر ممنوعہ کے پاس جا پہنچے۔آدم نے مجھے پھل توڑنے کا حکم دیا ا۔میں نے تعمیل کی۔بعد ازاں آدم نے مجھے پھل کو دو لخت کرنے کو کہا۔میں نے ایسا ہی کیا۔میں نے پھل کے دو برابر حصے کیے ۔فرط اشتیاق سے لرزتے ہوئے ہم نے جیسے ہی وہ پھل اپنے دہن سے اتارا ہم پر بلا آن پڑی ۔یکدم ہمارے ستر ایک دوسرے پر کھل گئے اور اس عالم بدحواسی میں ہم نے جان لیا کہ ہم کھلی نافرمانی کے مرتکب ہو کر اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈال چکے ہیں
اے خداوند عالم! !مجھے اپنی نافرمانی اور معصیت کا پوری طرح اقرار ہے۔اور بے شک میں نے خود پر ظلم کیا اور اے رب تو ہم پر رحم فرما ۔بے شک میں یہ جان چکی ہوں کہ محدود علم کے ہوتے ہوئے بڑے نتائج کے حامل تجربات سے گریز کرنا چاہیے ”
حوا کے ان الفاظ کے ساتھ ہی اس کا بیان ختم ہوا اور وہ شکستہ قدموں سے آدم کے پہلو میں جا کھڑی ہوئی ۔آدم و حوا کے ہمدردوں کی دبی دبی سسکیاں بارگاہ الٰہی میں مضراب کے المناک سروں کی مانند گونج رہی تھیں۔رب کائنات کے حکم سے ایک فرشتہ نوشتہ تقدیر آدم و حوا کو قلمبند کرنے کا آغاز کر چکا تھا۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مقدمے کے تیسرے اور آخری فریق عزازیل کی کو حاضر ہونے کا حکم جاری ہوا۔ فرستادہ نے اب کی بار ایک آتشی لوح اٹھائی جو بھڑکتی نار میں ڈھلی لگتی تھی۔ ابھی اس نے فرد جرم پڑھنے کا آغاز بھی نہیں کیا تھا کہ عزازیل کی قہر ناک آواز نے اسے روک دیا۔
“ٹھہر جا اے فرستادہ بہشت!! مانا کہ اس ناخلف خاکی کے باعث مجھ پر یہ افتاد آن پڑی کہ جس دربار میں،میں پروردگار دو عالم کے ہمراہ ہوا کرتا تھا،آج وہاں مجرم و ملزم کے طور پر لایا گیا ہوں۔مگر باوجود اس امر کے،مجھے یہ گوارا نہیں کہ تو،جو میرا شاگرد ہے اپنے اتالیق کا نام پکارے ۔” عزازیل کے سینے میں کھولتے جہیم کے شعلے اس کے دہن سے لپک لپک کر باہر آ رہے تھے۔۔قدم بہ قدم چلتا ہوا وہ رب کائنات کے حضور پیش ہوا تو آدم و حوا کے برعکس نہ تو اس کے قدموں میں لغزش تھی،نہ ہی احساس معصیت سے اس کا آتشیں چہرہ جھکا ہوا تھا۔وہ سینہ تانے اپنے فعل پر نازاں و مطمئن نظر آتا تھا۔
” یہی تیرا وہ تکبر و غرور اور برتر ہونے کا فتور ہے اے عزازیل جو تجھے رانداہ درگاہ بنا گیا۔مگر تیرا رب ہرگز بھی بے انصاف نہیں ۔آدم و حوا کی مانند تجھے بھی اپنی صفائی کا موقع دیا جاتا ہے۔۔اب تو اپنی روداد پیش کر” ندائے ربی غضبناک ہوئی تو باشندگان فردوس خشیت الہی سے اپنی جگہوں پر ساکت ہو گئے۔دربار میں ایسا سناٹا تھا کہ ضرب قلوب بھی صاف سنائی پڑتی تھی۔ہوائیں و فضائیں جو کچھ دیر قبل افسردہ و غمگین تھیں اب آتشی و سیاہ روپ میں ڈھل گئی تھیں۔ بہشتی اشجار کے پتے جھڑنے لگے اور کوثر و تسنیم میں رنگ ہلاہل شامل ہونے لگا۔ عزازیل اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے گویا ہوا
” اے رب کائنات میں عزازیل کہ تجھے پہچاننے میں،تیری شان سے واقف ہونے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔تیرے حضور اپنے فعل کی درستگی کے جواز لیے حاضر ہوں۔
اے خداوند!! میں وہ ہوں جو کبھی تیرا مقرب ہوا کرتا تھا، زمین و آسمان کا کوئی گوشہ ایسا نہ ہو گا جس پر میرے ان سجدوں کا نشان نہ ثبت ہو گا جو میں نے تیری عظمت و کبریائی کو کیے تھے۔پروردگار!! میرے علم کی کوئی حد نہ تھی اور میری قابلیت کو پرکھتےتو نے مجھے ایسی عزت و بزرگی بخشی کہ مجھے ملائک کا اتالیق مقرر کر دیا۔” عزازیل کی آنکھوں اور دہن سے نارنجی شرارے پھوٹ پھوٹ کر سرزمین بہشت پر گرتے اور سیاہ نشان چھوڑ جاتے۔مکین فردوس خوف و دہشت سے گویا سانس لینا بھی بھول چکے تھے۔”
پروردگار!ایک عرصہ دراز تک میں تیرے لطف و کرم کا تنہا حقدار رہا۔ آج تک کسی کو ماسوائے عزازیل کے یہ اعزاز حاصل نہ ہوا کہ وہ خالق کائنات کا بے حجاب دیدار کر سکے۔”عزازیل کی آواز کی تپش لمحہ لمحہ بڑھ رہی تھی۔درباریوں کے چہروں پر ہلکا ہلکا پسینہ چمکنے لگا تھا۔اس نے کچھ لمحے توقف کیا اور پھر سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے گویا ہوا
” پھر ایک روز اے پروردگار میرے علم میں آیا کہ تو نے اپنا خلیفہ مقرر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور ظاہر ہے مقام و مرتبہ میں مجھ سے بڑھ کر کون اس رتبے کا اہل تھا۔لیکن اے پروردگار! “عزازیل چلایا اور بہشت میں زوردار کڑاکے سے بجلیاں چمکنے لگیں ۔”اے میرے رب!!تو نے میری صدیوں قرنوں اور ازل کی عبادات کا یہ صلہ دیا کہ میرے مقابل ایک خاکی کو لا کھڑا کیا۔اسے خلیفہ الہی ہونے کا اعزاز بخشا۔۔وہ جو کسی طرح بھی اس منصب کا اہل نہیں ۔ستم بالائے ستم،میں جو اپنی پیشانی فقط تیرے حضور جھکاتا تھا تو نے اسے آدم کے لیے سر بسجود ہونے کا حکم دیا۔۔آدم جو خاکی ہے۔۔جو کمتر ہے اور میں ناری۔۔۔برتر ہوتے ہوئے بھلا کیونکر آدم کو یہ اعزاز ہتھیانے دیتا؟اور اگر میں اپنی یہ ذلت گوارا کر بھی لیتا تو تب بھی میری سرشت توحید کو کبھی یہ گوارا نہ ہوتا کہ میری جبین نیاز غیر اللہ کے حضور جھکے”
عزازیل کی داستان ہنوز جاری تھی اور بہشت میں اس قدر جرات و بے خوفی کا مظاہرہ آج سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا تھا ۔سرزمین خلد وقفے وقفے سے لرز رہی تھی یوں جیسے اس عظیم ڈھٹائی پر شق ہو جانا چاہتی ہو۔درباریوں پر سکتے کا عالم تھا اور عزازیل کے کچھ خاص بہی خواہ اس کی اس جرات و بہادری کو دل ہی دل میں سراہ رہے تھے۔حوا ایک التجا و ندامت بھری نظر آدم کی جانب کرتی اور پھر اسے ساکت و جامد سر جھکائے کھڑے دیکھ کر اپنی حماقت پر خود کو کوسنے لگتی
” وائے افسوس!!! کیا تھا جو اگر میں اپنی ناقص عقل کو اس قدر وسیع نہ سمجھتی اور آدم پر قابلیت جتانے کی عظیم غلطی نہ کرتی۔۔اب دیکھو ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہو” وہ سوچوں میں الجھی اور آنے والے وقت کی سنگینی کے خیال سے سہمی ہوئی تھی
“اے خدائے بزرگ و برتر! !! میں نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار محض تیری کبریائی کی شان برقرار رکھنے کی خاطر کیا تھا۔” عزازیل خاموش ہوا تو ندائے ربانی بہشت کی فضاؤں کا سکوت منتشر کرنے لگی۔
” اے عزازیل !!تو کسے دھوکہ دے رہا ہے؟؟مجھے؟؟جو نیتوں کے احوال سے یوں آگاہ ہوں جیسے تو اپنی سانسوں سے آشنا ہے۔!! اور تیری یہ لفاظی و دلائل،تو کیا سمجھتا ہے بچا پائیں گے؟؟ہرگز نہیں اے عزازیل! !اور سن کہ منکر آدم ہونے کا باعث تیری سرشت توحید نہیں بلکہ تیرا حسد تھا!! وہ ناز و فخر و غرور تھا جو تجھے اپنے علم و عمل پر تھا،وہ تکبر و گھمنڈ تھا جو تجھے اپنے ناری ہونے پر تھا۔تیری ساری عبادتیں و ریاضتیں، تیرا سارا عمل تیری نار حسد میں جل کر راکھ ہوا،تو رانداہ درگاہ ہوا، نکالا گیا۔مردود و لعین قرار پایا۔”
عزازیل نے اپنے بارے اس قدر مایوس کن ارشاد ربانی سنے تو زہر خنداں ہوا اور طنز کے پیرائے میں گویا ہوا” خوب اے خالق کائنات! ! میری صدیوں کی عبادتوں کو محض ایک انکار نے راکھ کر ڈالا! اب تو اپنے اس لاڈلے خلیفہ کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا جو میرے ایک بہکاوے میں آ کر تیری کھلی نافرمانی کا مرتکب ہوا ہے۔؟جو پہلی ہی آزمائش پر پورا نہ اتر سکا،وہ کس طرح خلافت الہی کا دعویدار ہو سکتا ہے؟؟ کس طور وہ زمین پر تیرا نظام قائم کر پائے گا جو بہشت کی نعمتوں کا قدردان نہ ہوا وہ تیری زمین پر کیا کیا نہ کرتا پھرے گا۔ میں اپنے انکار پر آج بھی قائم ہوں اور جو معاملہ آدم و حوا کے ساتھ میں نے کیا ہے،میں خود کو اس پر حق بجانب پاتا ہوں ۔آدم تیری خلافت کا اہل نہیں ”
وہ اپنی بات مکمل کر کے اپنی جگہ جا کھڑاہوا۔
درباریوں کی بے چینی اب کسی طور ان اختیار میں نہ رہی تھی۔۔انہیں شدت سے اس مقدمے کے فیصلے کا انتظار تھا
رب کائنات نے اس عظیم مقدمے کا فیصلہ کر لیا تھا اور کوئی وقت جاتا تھا کہ اس کا اعلان ہو جاتا۔ دربان پوری طرح مستعد تھے اور جملہ مجرمین کو گھیرے ہوئے کھڑے تھے۔
دو برگزیدہ فرشتوں نے ایک عظیم لوح پروردگار عالم کے سامنے کی اور فیصلہ صادر ہونے کی گھڑی آن پہنچی۔عزازیل جسے شیطان یعنی اللہ کی رحمت سے پھٹکارا ہوا ہونے کا لقب ابھی کچھ دیر پہلے ہی دیا گیا تھا، بے خوفی سے سیدھا کھڑا تھا جبکہ آدم و حوا کی حالت خوف ربی سے غیر تھی۔۔
کائناتی خاموشی میں رب کائنات کا فیصلہ گونجنے لگا۔
” اے آدم و حوا۔۔جیسا کہ تم پر میری نافرمانی ثابت ہو چکی اور اقرار اس امر کا تم اپنی زبان سے کر چکے اور بعد از خطا اے آدم تو اور تیری زوج نادم و شرمسار ہوئے،طلبگار رحمت و بخشش ہوئے۔تو جان لو کہ میری رحمت میرے قہر پر غالب ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ میں تجھے اور تیری زوج کو بخش دوں۔ ” آدم و حوا کے مرجھائے چہروں پر امید کی رمق پھیلنے لگی اور ان کے ہمدرد خوشی سے بے تاب ہونے لگے۔” مگر اے آدم!!میرا انصاف بھی میری رحمت کی طرح کامل ہے۔۔اور اس انصاف کا فیصلہ ہے کہ تجھےاور تیری شریک کار حوا کو بہشت سے نکلنا ہو گا۔اور ایک خاص مدت تک زمین پر رہ کر خود کو بہشت کا اہل ثابت کرنا ہو گا۔ تو اب زمین پر اترو اور اپنے نئے عارضی ٹھکانے کو بساؤ”
یہ سننا تھا کہ آدم گڑگڑانے اور رونے لگا مگر رب کے فیصلے کو بدلنے کی تاب کس میں تھی۔؟؟ ” اور اس ٹھکانے پر تمہیں اور تمہاری زوج کو چند ذمہ داریاں تخویض کی جاتی ہیں ۔
“آدم کیونکہ حوا کے بہکاوے کو ڈھال بنانا چاہتا تھا لہٰذا اس پر ذمہ داری ڈالی جاتی ہے کہ یہ حوا کا کفیل ہو گا،حوا کی ہر ضرورت پورا کرنے کا ذمہ دار آدم ہے”،اس پر فکر معاش کی زمہ داری عائد کی جاتی ہے” اور آدم جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہو چکا تھا کہ کچھ عرصہ زمین پر عبادات و ریاضت اور جان توڑ کوششوں سے رب کائنات کے حضور خود کو خلافت کا اہل ثابت کر دے گا،اس وقت کو کوسنے لگا جب حوروغلماں کے ہوتے ہوئے بھی اس نے پیکر خاکی کی طلب کی تھی۔
” حوا نے آدم سے غلط بیانی اور مکر و فریب کیا۔شجر ممنوعہ کا پھل توڑنے کی جرات کی اس کے لیے اسے حمل، وضع حمل اور اولاد آدم کی نگہداشت و پرداخت کی تکلیف و بوجھ سے دوچار ہونا ہو گا۔'” حوا نے سر جھکائے رکھا۔اسے آدم کے ساتھ ہی رہنا تھا۔یہی اس کی سرشت تھی۔آدم کی بیزاری اپنی جگہ مگر وہ اپنی فطرت سے انحراف کیسے کرتی، خاموش کھڑی رہی۔
شیطان جسے اس فیصلے کی امید نہیں تھی،وہ اپنی تدبیروں کو یوں کارگر نہ ہوتے دیکھ کر چلایا اور اس کے چلانے سے ایک خوفناک کڑک پیدا ہوئی ” اے پروردگار! !تو نے آدم کی اس قدر سنگین کوتاہی پر بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا۔میرے ساتھ بھی انصاف کر”: اس کے یوں چلانے پر دو نگہبانوں نے اسے آتش و آہن کی زنجیروں سے جکڑ دیا۔
“بول اے ابلیس!!تیرے ساتھ کیا معاملہ ہو!”؟؟
ابلیس جو شدت غم و قہر سے دیوانہ ہو چکا تھا، چلا کر بولا” مجھے مہلت دے اے پروردگار! !میں تا قیامت آدم کو بہکاوں گا،یہ ثابت کروں گا کہ یہ خاک کا پتلا نا اہل ہے۔میں وجود آدم کو غیر ضروری ثابت کروں گا، اس کی فطرت کی کجی کو تیرے حضور مع ثبوت کے پیش کروں گا” اس کی آنکھوں کے شرارے عروج کو پہنچ چکے تھے اور آس پاس کی اشیا آگ کی زد میں آ کر جھلس رہی تھیں ۔
“اے ابلیس!!میں تاقیامت تجھے مہلت عطا کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ جہنم کو تجھ سے اور تیرے ساتھیوں سے بھروں گا۔۔وہ جو میرے بندے ہوں گے،تو کبھی ان کے نفس اغوا نہیں کر پائے گا اور جو تیرے شریک کار ہوں گے،پس ان کا انجام بھی تیرے ساتھ ہو گا۔اب اترو یہاں سے اور آج سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو” ان الفاظ کے ساتھ ہی دربار الہی برخاست ہوا اور فیصلہ لوح محفوظ میں درج کر دیا گیا۔۔محافظین ابلیس کو گھسیٹتے ہوئے بہشت سے بے دخل کرنے لے گئے۔
آدم و حوا کو بھی اب رخصت ہونا تھا۔وہ گراں قلوب اور نادم قدموں سے باب بہشت کی جانب چل پڑے۔۔آہوں سسکیوں کا ایک ہجوم بھی ان کے ہمراہ تھا۔باب بہشت پر آدم نے اپنے ہمدردوں سے وداع لی، حسرت بھری نگاہوں سے بہشت پر الوداعی نظر ڈالی اور اپنی نصف کا ہاتھ تھام کر اپنے عارضی ٹھکانے کو کوچ کر گیا۔
” لمحہ موجود”
آدم و حوا کو بہشت سے نکلے ایک عرصہ ہو گیا ہے۔آدم جو یہ سوچ کر آیا تھا کہ وہ رب کائنات کو پوری طرح راضی کر لے گا،وہ اپنی تخویض کردہ ذمہ داریوں کے جھنجھٹ میں یوں مبتلا ہے کہ اسے اپنا عہد گم گشتہ بہت ہی کم یاد آتا ہے۔اس کا مقسوم ہے کہ وہ دونوں ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے گا،اس کی بدقسمتی ہے کہ وہ دونوں میں کبھی توازن نہ رکھ سکا۔ وہ حوا کا اٹوٹ انگ بھی ہے،وہ حوا سے ٹوٹ کر رب سے جڑنا بھی چاہتا ہے۔یوں آدم کی زندگی ایک مسلسل کشاکش کا شکار ہے۔
رہی حوا تو وہ سرشت سے مجبور ہے کہ آدم کا ساتھ چھوڑ نہیں سکتی۔۔ہاں مگر بہشت میں جو بے اعتنائی آدم نے اس کے لہو میں اتاری تھی،وہ ہنوز لو دیتی ہے۔اور اب وہ کلی طور پر آدم پر بھروسہ نہیں کرتی۔۔وہ اب محض آدم کے دکھائے راستے پر قدم نہیں بڑھاتی،اپنی راہ خود بھی کھوجنے کی متمنی ہے۔اس ساری تعمیر و تخریب کے عمل میں وہ آدم کے ہمراہ بھی ہے اور آدم سے جدا بھی ہے۔ حوا کو خلافت نہیں دی گئی،اسے صرف آدم دیا گیا اور اب اسے بھی مقام و مرتبہ کی چاہ ہے۔
اس ازلی جنگ کے دونوں فریق اصل مقصد کو بھلا بیٹھے ہیں اور اگر کوئی فریق پوری جانفشانی و تندہی سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم عمل ہے تو وہ عزازیل ہے، ابلیس ہے،شیطان ہے۔
فی زمانہ صرف ابلیس اپنی جنگ کو پورے خلوص نیت سے لڑنے میں مصروف ہے اور خلوص نیت سے لڑنے والی جنگوں میں ہار جانے کا امکان خاصا کم ہوا کرتا ہے ۔آپ کا کیا خیال ہے ؟؟؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں