• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے کربلا کے پیغام کو اپنانا ہوگا۔انور عباس انور

دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے کربلا کے پیغام کو اپنانا ہوگا۔انور عباس انور

دنیا میں اس وقت ہر طرف افراتفری کا عالم ہے. ہر ملک میں بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلایا جا رہا ہے، گویا امن نام کی شئے دنیا سے ناپید ہو چکی ہے اور بڑی طاقتوں سمیت ہر ملک کی قیادت اس بات پر متفق دکھائی دیتی ہے کہ اقوام عالم کو امن کے دشمنوں سے پاک کرنا ہوگا. دہشتگرد چاہے کسی بھی ملک، نسل، رنگ اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں انہیں نیست و نابود کرنا ہوگا اور اس کے لیے جو بھی اقدامات درکار ہوں گے انہیں اٹھانا ہوگا۔

نواسہ رسول معظم امام حسین ابن علی ابن ابی طالب نے آج سے 14 سوسال قبل اپنے چند مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ مکہ میں دہشت گردی کے ذریعہ اپنے قتل کی سازش و کوشش کو ناکام بنایا. حج کو عمرہ میں تبدیل کرکے مکہ چھوڑ کر عراق کا سفر اختیار کیا. دہشت گردوں کے سرغنہ حاکم شام کی افواج نے امام عالی مقام حسین ابن علی و بتول کو کربلا کے مقام پر پڑاؤ دالنے پر مجبور کردیا تو امام حسین ابن علی ابن ابی طالب اپنے اور اپنے ساتھیوں کو دشت میں خاموشی سے قتل کرنے کی سازش کو بے نقاب کرنے کے لیے جو حکمت عمل اپنائی اس سے شامی و کوفیوں کی تمام دانائی، حکمت عملی ناکام ہوکر رہ گئی. اور حاکم شام جس کا خانوادہ اپنی لیاقت، ذہانت اور سازشیں کرنے میں مہارت رکھتا تھا. یہاں امام حسین ابن علی کی حکمت، دانش، فہم و فراست اور دانائی کے آگے زیرو ثابت ہوئے۔

مصباح الہدااور سفینہ نجات کے امیر اور امن کے علم بردار جگر گوشہ بتول نے اپنے قتل کے آخری لمحات میں بھی دشمن جو ان کے خون کا پیاسا تھا اسے ہدایت کرتے رہے، تاکہ اتمام حجت کے تمام تقاضے پورے ہوجائیں اور روز محشر یہ دشمنان دین اسلام رب العزت کی بارگاہ میں کسی قسم کا عذر پیش نہ کر سکیں. مگر ہم ان کے نام لیواء صبر کا دامن کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟

محرم الحرام کا چاند دکھائی دیتے ہی پوری دنیا میں صف عزا بچ جاتی ہیں، محمد عربی ﷺ کی امت اپنا غم ،دکھ کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف نبی مکرم ہادی اعظم ﷺ کے نواسہ اور اولاد کے غم منانے لگ جاتی ہے۔میں اپنے مشاہدے کی بات لکھ رہا ہوں کہ اہل تشیع اپنے انتہائی پیاروں، جو ایام محرم سے قبل انتقال کرجاتے ہیں یا ایام محرم کے دوران اس فانی دنیا سے ابدی دنیا کی جانب   روانہ ہوجاتے ہیں ان کی’’ پھوڑیاں‘‘ اٹھا لیتے ہیں. لوگوں سے افسوس وصول نہیں کرتے، اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں اور دیگر عزیز و اقارب کی رسومات ساتواں، دسواں اور چالیسویں کا ختم امام عالی مقام کے چہلم کے بعد مناتے ہیں۔

امت محمدیہ خصوصا ً اہل تشیع امام عام مقام کے ساتھ حاکم شام یزید لعین کے حکم پر روا رکھے گئے ظلم و جور کے خلاف احتجاجی ماتمی جلوس برپا کرنے اور امام حسین ابن علی ابن ابی طالب اور ان کے رفقائے کار کے ساتھ کیے گئے مظالم سفاکی و بربریت سے دنیائے عالم کو آگاہ کرنے کے لیے مجالس عزا، نذر و نیاز پر اربوں ڈالر خرچ کردیتی ہے.14 سوسال کا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی غم حسین کا ترو تازہ ہونا اس کی وجہ خون نا حق کو چھپانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کا خدائی بندوبست ہے۔

شام اور عراق میں صحابہ کرام کے مزارات کی بے حرمتی کرنے والوں کو حاکم شام کی روحانی نسل قرار دیاجا سکتا ہے. جو محض ان سے اس بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہوں نے کربلا میں حاکم شام کی بجائے امام حسین کا ساتھ دیا تھا۔ آج حاکم شام کے ان خیر خواہوں سے وہ ممالک بھی نجات چاہتے ہیں جنہوں نے دولت اسلامیہ عراق و شام ( داعش) کی سرپرستی کر کے اسے دنیا میں متعارف کروایا اور انہیں کروڑوں ڈالر کے ہتھیار فراہم کیے۔

میری ہمیشہ یہی دعا اور آرزو رہی ہے کہ خدا وند متعال سوائے غم حسین کے کوئی غم نہ دکھائے، اور یہ بھی کوشش رہی ہے کہ خدا مجھے امام حسین ابن علی ابن ابی طالب اور ان کے رفقائے کار کے ساتھ محصور کرے. میں نے ہمیشہ باطفیل محمدﷺ اور آل محمدﷺ امت محمدیہ کے اتحاد و اتفاق کی دعا اپنے اللہ تعالی سے مانگی ہے. یہ دعا بھی میرا معمول کا حصہ رہی ہے کہ اے اللہ کربلا کی سر زمین پر آل رسول، جگر گوشہ بتول اولاد علی و نبیﷺ اور نبی زادیوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کرنے والوں اور ان کے پیروکاروں ( جنہوں نے آج بھی امت محمدیہ کا سکھ چین برباد کر رکھا ہے) کو جہنم کا ایندھن بنانا وطن عزیز کے امن کو برباد کرنے پر تلے ہوئے مٹھی بھر دہشت گردوں کو نیست و نابود کر دے۔

دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوششوں کو اس وقت کامیابی حاصل سکتی ہے جب پوری دنیا کربلا کے پیغام کو سمجھ پائے گی اور اسے اپنا کر اس پر عمل پیرا ہوگی. اس لیے کہتا ہوں کہ دنیا کو دہشت گردی اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لیے اقوام عالم کو درس کربلا کو اپنانا ہوگا ورنہ۔۔۔ تایک راہوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔کربلا کے پیغام کو اپنانے سے عالم اسلام کو دھمکیاں دینے والے ٹرمپ خود اپنی موت مرجائیں گے۔

کربلا کے میدان میں امام حسین اور ان کے رفقائے کار کے وارد ہونے کے مقاصد کیا تھے؟ امام حسین علیہ السلام مدینہ چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئے؟ کیا امام حسین علیہ السلام نے مدینہ اپنی رضا سے چھوڑا؟ ان سب سوالات کا جواب نفی میں ہے، امام حسین علیہ السلام کو مدینہ چھوڑنے پر مجبور کرنے والوں کے مقاصد کیا تھے؟ وہ امام حسین ابن علی علیہ السلام سے کیا چاہتے تھے؟حاکم شام امام حسین سے اپنی بیعت چاہتے تھے ،بیعت جسے آج اعتماد کا ووٹ قرار دیا جا سکتا ہے، مگر امام حسین علیہ السلام نے بیعت یا ووٹ دینے کا مطالبہ لے کر آنے والوں کو ایک ہی جواب دیا کہ ’’مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا.”

یزید لعین امام پاک سے اعتماد کا ووٹ کیونکر حاصل کرنے پر بضد تھا؟ اس لیے کہ یزید لعین اپنے کالے کرتوتوں کے باعث مسلمانوں کے لیے قابل اعتماد اور قابل بھروسہ اور قابل قبول نہیں تھا، یزید لعین چاہتا تھا کہ اگر امام حسین علیہ السلام نے ان کے دست پلید پر بیعت کرلی یعنی اسے اعتماد کا ووٹ دیدیا تو باقی مسلمان بھی مطمئن ہوجائیں گے اور اسے ووٹ دے دیں گے، لیکن اپنے نانا حضرت محمد ﷺ کی زبان مبارک چوس کر پلنے والے ، دو جہانوں میں عورتوں کی سردار خیر النسا فاطمہ زہرا کی گود میں پرورش پانے والے اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا خون بھلا کیسے یزید لعین کے ہاتھ پر بیعت کرسکتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی پیغام حسینی و پیغام کربلا ہے جسے اپنانے کی اشد ضروت ہے. ہماری دوغلی پالیسی امام حسین کو قبول نہیں کہ ہم یزید لعین جیسے خرافات کے مالک ھکمران کی ہاں میں ہاں ملائیں. انہیں ووٹ دیکر برسراقتدار بھی لائین اور یہ بھی امید رکھیں کہ ہماری نجات کے لیے امام حسین ہماری شفاعت فرمائیں گے. نہیں ایسا نہیں ہوگا. ہمیں اپنی فلاح کے لیے، دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے امام حسین اور یزید لعین کے اسوہ حسنہ کا انتخاب کرنا ہوگا. امام حسین کے پیروکار بننا ہوگا یزید کی فکر کو لےکر ہم دنیا سے دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مخلص ہیں تو ہمیں امام حسین سے مخلص ہونا پڑے گا. کربلا کا پیغام یا درس یہی ہے کہ جان جاتی ہے تو جائے مگر حق کا ساتھ نہ چھوٹے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply